• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بین الاقوامی یا ملکی کانفرنس، سیمینار، معاشی مباحثے کسی ایک موضوع پر ماہرین اور دانشوروں کے تعاون سے اس غرض سے منعقد کئے جاتے ہیں کہ منتخب موضوع کی خامیوں اور کمزوریوں کا تجزیہ کیا جائے اور صورت حال کو بہتر بنانے کی تجاویز پیش کی جائیں اور اجتماعات کو نشستند، گفتند ، خودرنند اور برخاستند تصور نہ کیا جائے بلکہ ان سے استفادہ کیا جائے اور تجاویز پر عمل کیا جائے ورنہ یہ ایک فضول مشق اور اخراجات اور وقت کا ضیاع سمجھا جائے گا۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ خدمت مستقل طور پر تھنک ٹینک انجام دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہمدرد شوریٰ کراچی،اسلام آباد، لاہور اور پشاور میں ہر ماہ یہی فرائض انجام دے رہی ہے۔ ملک کا اہم ترین مسئلے کو منتخب کیا جاتا ہے۔ مہمان خصوصی گفتگو کا آغاز کرتا ہے پھر اراکین جو پروفیسروں، عالموں اور دانشوروں پر مشتمل ہوتے ہیں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ رپورٹ تیار ہوتی ہے اور حکومت کو بھیج دی جاتی ہے دوسرا ادارہ میر خلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی ہے جو ملک کے اہم مسائل پر سیمیناروں کا اہتمام کرتی ہے۔ متعلقہ اصحاب کو مدعو کرتی ہے اور جنگ اخبار کے ذریعے اس کے نتائج سے عوام اور خواص کو مطلع کرتی ہے۔حال میں حکومت نے بڑھتے ہوئے اخراجات کو پورا کرنے کیلئے314متفرق اشیا پر ٹیکسوں اور ریگولر ڈیوٹی عائد کردی۔ میڈیا نے اسے’’منی بجٹ‘‘کا نام دیا اور اس پر تبادلہ خیال کیلئے ایک سیمینار کا اہتمام کیا۔ جس میں صدر فیڈریشن آف چیمبر کامرس اینڈ انڈسٹری، ایک بڑے صنعت کار اور تجزیہ کار اور ٹیکس ریفارم کمیشن کے ایک رکن کو مدعو کیا اور جنگ اخبار کے ایک تجربہ کار فردکو سوال کرنے اور رپورٹ مرتب کرنے کیلئے نامزد کیا۔ اس کی مختصر رپورٹ 16فروری کے اخبار میں شائع ہوئی۔
اس سلسلے میں بنیادی سوال یہ تھا کہ نئے بجٹ کی آمد سے چار ماہ قبل اتنے بڑے پیمانے پر نئے ٹیکسوں کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کے ڈانڈے جون 2014ء میں پیش ہونے والے قومی بجٹ سے ملتے ہیں۔
جس میں فیڈرل بیورو نے 2014-15کے مالی سال میں آمدنی کا تخمینہ 2,810ارب روپے رکھا تھا بجٹ بنانے والے اس امر سے بخوبی واقف تھے کہ یہ ہدف حاصل نہیں ہوگا کیونکہ گزشتہ دس بارہ سال سے بجٹ خسارے میں جارہا ہے اور اکثر معاشی اہداف پورے نہیں ہوتے۔ اس سال ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا، دو سیاسی پارٹیوں کے دھرنوں اور ہڑتالوں سے آمدنی کو نقصان پہنچا۔ تیل کی بین الاقوامی غیرمعمولی تخفیف کی وجہ سے حکومت کو 62 ارب کا نقصان ہوا۔ نئے ٹیکس گزاروں کی تلاش میں ناکامی ہوئی، ملک میں تقریباً 8 لاکھ گوشوارے وصول ہوتے ہیں اکثر و بیشتر گوشواروں میں صحیح آمدنی درج نہیں کی جاتی صرف تنخواہ دار ملازمین سے پورا انکم ٹیکس وصول ہوتا ہے۔ ان اسباب کی وجہ سے حکومت نے اپنی آمدنی کے ہدف میں 119ارب کی کمی کردی اور آئی ایم ایف سے اس کی منظوری حاصل کرلی۔ مالی سال کے آٹھ مہینوں میں 7519ارب آل ٹائم ریکارڈ ٹیکس وصول ہوا۔ اس کے لئے 314اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافے کیا گیا۔ کیا آئندہ چار ماہ میں 1172 ارب جمع ہوجائے گا۔ اخراجات پورا کرنے کے لئے حکومت قرض لیتی ہے۔ پاکستان کا قومی قرضہ ستمبر کے آخر تک 16.235 کھرب روپے تک پہنچ گیا تھا۔ حکومت تجارتی بنکوں سے بھی قرض لیتی ہے اب تک 947 ارب سے زیادہ قرض لے چکی ہے۔ آئندہ بجٹ میں قرضں کےزر اصل اور سود کی مد میں اچھی خاصی رقم نکل جائیگی۔ پبلک کے بڑے بڑے ادارے پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل مل وغیرہ خسارے میں جارہے ہیں اور حکومت کو ان کو سنبھالنے کیلئے بڑی رقوم ادا کرنا پڑتی ہے۔حکومت ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کےلئے سرتوڑ کوشش کررہی ہے ایک تجویز یہ ہے کہ شناختی کارڈ کا نمبر ہی این ٹی این کا نمبر ہوگا۔ حکومت نے معاشی زون بنانے کیلئے ایک کمپنی بنائی ہے جو صوبوں میں زون بنائیگی۔ سندھ میں خیرپور میں زون بن چکا ہے اس میں نجی پارٹیوں سے بھی اشتراک ہوسکتا ہے۔ جنگ فورم میں فیڈریشن کے صدر کی جانب سے یہ تجویز پیش کی گئی کہ’’ٹیکس وصولی کا نظام ہمارے سپرد کیا جائے ہم اہداف کو پورا کرکے دکھائیں گے‘‘حکومت تجربے کے طور پر کوئی علاقہ مثلاً ’’ کاٹی‘‘ کو دو ذمہ دار افراد کے سپرد کرکے دیکھے کیا نتائج رہتے ہیں۔ یہ کام فیڈریشن کے مشورے سے کیا جائے۔ حکومت نے پیٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کے سیلز ٹیکس میں 10فیصد کی کمی کردی ہے مگر قیمتوں میں کوئی ردوبدل نہیں کیا گیا تو عوام کو اس کمی سے کیا فائدہ پہنچا۔
تازہ ترین