• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے رائے ونڈمیں کامیاب اجتماع کر کے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ پی ٹی آئی کاشمار ملک کی بڑی سیاسی قوتوں میں ہوتا ہے۔ جلسے میں کتنے لوگوں نے شرکت کی میرے لئے غیر اہم ہے۔ اہم یہ ہے کہ تحریک انصاف نے رائیونڈ مارچ کااعلان کرکے ایک بڑا جوا کھیلا تھا جس میں وہ کسی حد تک کامیاب نظرآئی۔ جبکہ پی ٹی آئی کی تنظیم سازی اور انتظامی ڈھانچے پراٹھائے جانے والے بہت سے سوالات ختم ہو گئے۔اس جلسے کے کامیاب انعقاد کی جن لوگوں کو ذمہ داری سونپی گئی تھی وہ نہ صرف انتہائی متحرک نظر آئے بلکہ آخری وقت تک انہوں نے انتظامات اپنے ہاتھوں میں رکھے۔ رائیونڈ مارچ میں ملک بھر کے ہر ضلع اور تحصیل کی سطح پر لوگوں کو متحرک کیا گیا تھا اور ان کی شرکت کو یقینی بنانے کے لئے ٹرانسپورٹ سمیت ہر قسم کے مالی وسائل استعمال کئے گئے تھے اور گلگت بلتستان ، آزاد کشمیر اور فاٹا کے عوام کی حاضری ممکن بنانے کے لئے بھرپور اقدامات کئے۔ شاید یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اس جلسے کے انتظامات خود مانیٹر کررہے تھے اور یہ امر یقینی بنایا گیا کہ ملک بھر سے جلسے میں بھرپور شرکت ہو۔ اس سے پہلے کپتان صرف جلسے کااعلان کرتے تھے اور لوگ خود بخود جلسہ گاہ پہنچ جاتے تھے مگر رائے ونڈ میں بلوچستان کی شرکت نہ ہونے کے برابر جبکہ صوبہ سندھ سے چند سو لوگوں نے شرکت کی۔ ان دونوں صوبوں سے لوگوں کا شرکت نہ کرنا پی ٹی آئی کی تنظیم سازی پر سوالیہ نشان ہے جس سے ِدونوں صوبوں میں تحریک انصاف کی مقبولیت کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کراچی کی دوسری بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری اور یہ کہا جانے لگا کہ شاید یہ جماعت ایم کیو ایم کی متبادل سیاسی قوت ثابت ہوگی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس نے کراچی میں اپنی مقبولیت کھو دی جس کا اندازہ ضمنی انتخابات اور بلدیاتی الیکشن سے لگایا جاسکتا ہے۔ کراچی میں پی ٹی آئی کی مقبولیت میں کمی کی بڑی وجہ پارٹی کے اندرونی اختلافات ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ بلوچستان سے آنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی جبکہ سندھ سے بھی کم لوگ آئے۔ یہی حالت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے آنیوالوں کی تھی جس سے وہاں پر بھی اس جماعت کی تنظیم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جبکہ کے پی ، فاٹا اور پنجاب کے لوگوں نے بھرپور شرکت کی چونکہ کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔اب بات کرلیتے ہیں پاکستانی سیاست میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والے صوبہ پنجاب کی یہ پہلی مرتبہ دیکھا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے پنجاب بھرسے کارکنان اور عوام کی جلسے میں حاضری یقینی بنانے کے لئے ناصرف ضلع کی حد تک بھرپور مہم چلائی بلکہ ایک مؤثر نگرانی کا نظام بھی وضع کیا۔ پنجاب کے تمام اضلاع سے تعلق رکھنے والے ممبران صوبائی اسمبلی ،ٹکٹ ہولڈرز اور آئندہ انتخابات کیلئے متوقع امیدواروں کو فی کس پانچ سو افراد جبکہ قومی اسمبلی کے ممبران اور سابقہ ٹکٹ ہولڈرز اور متوقع امید واروں کو ایک ہزار افراد لانے کا ٹاسک دیا گیا تھا اور یہ ہدایت بھی کی گئی تھی کہ وہ روانگی سے قبل اور لاہور پہنچنے کے بعد اپنے اپنے قافلے کی تصاویر اور ویڈیوز بنا کر انتظامی کمیٹی کو بھجوائیں۔ پارٹی کی اس دو ٹوک پالیسی کے باعث تمام افراد بے حد متحرک رہے اور انہوں نے اپنی بھرپور شرکت کو یقینی بنایا۔ اطلاعات ہیں کہ پنجاب کے 36میں سے صرف 13 اضلاع سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے رائے ونڈ جلسے میں بھرپور شرکت کی جبکہ باقی ماندہ23اضلاع کے لوگوں کی شرکت متاثر کن نہ تھی۔ اب بات کر لیتے ہیں شہر لاہور کی ۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے رائیونڈ جلسے سے قبل چار روز تک لاہور میں قیام کیا پارٹی کے رہنمائوں،کارکنان اور اہم پارٹی ورکرز سے انہوں نے ناصرف براہ راست ملاقات کی بلکہ شہر بھر میں خود ریلی کی قیادت بھی کی تاکہ جلسے میں لوگوں کی زیادہ سے زیادہ شرکت کو یقینی بنایا جا سکے ۔ اس تمام تر محنت کے باوجود شرکت انتہائی کم تھی اسی طرح اہالیانِ لاہور نے بھی بہت زیادہ تعداد میں رائے ونڈ جلسے میں شرکت نہ کی جس کی توقع تھی جلسے میں خواتین کی شرکت بھی کافی حد تک کم تھی جس کی ایک وجہ فیملی انکلوژرکی بجائے خواتین کیلئے الگ جگہ مختص کیا جانا بتائی جاتی ہے جو میری نظر میں کافی نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کو اس حوالے سے بھی سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا کہ ان کے اجتماعات میں عوام کی شرکت مسلسل کم کیوں ہو رہی ہے ان تمام پہلوئوں کے باوجود تحریک انصاف نے رائے ونڈ میں بھرپور عوامی طاقت کامظاہرہ کیا ہے جسے حکومت سمیت کسی کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ رائے ونڈ مارچ کے بعد حکومت کو پاناما لیکس کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا جلد ازجلد حل نکالنا حکومت کے حق میں بہترہوگا ورنہ اس ایشو کی بنیاد پر پی ٹی آئی سمیت تمام اپوزیشن جماعتیں حکومت پر دبائو بڑھاتی جائیں گی۔ اپوزیشن جماعتیں آئندہ انتخابات تک پاناما لیکس کا ایشو زندہ رکھنا چاہتی ہیں تاکہ 2018ء کے انتخابات میں حکمراں جماعت کے خلاف اس ایشو کو جواز بنا کر حصہ لے سکیں۔ رائے ونڈ جلسے کے بعد تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف فیصلہ کن تحریک چلانے کا اعلان بھی کردیا ہے جس کا مقصد مارچ 2017ء میں سینیٹ الیکشن سے قبل عام انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ کپتان ایسا کرنے کیلئے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ان کے اس منصوبہ کو کس حد تک سنجیدگی سے لیتی ہے اور اس حوالے سے کیا اقدامات کرتی ہے ۔ میرامشورہ ہے کہ حکومت کو موجودہ صورت حال کے پیش نظر سنجیدگی کامظاہرہ اورکوشش کرنی چاہئے کہ ملک میں کسی قسم کا انتشار اور انارکی نہ پھیلے چونکہ ہمارے دشمن کی خواہش بھی یہی ہے کہ پاکستان اندرونی طور پر کمزور ہو۔ الیکشن 2018ء سے قبل یہ حکومت کا آخری امتحان اور کپتان کا آخری وار ہوگا۔


.
تازہ ترین