• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک جینوئن پولیٹیکل ورکر کے طور پر خواجہ سعد رفیق کو اس صاف گوئی میں کوئی عار نہ تھی کہ سینیٹ انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کے ساتھ یہ معاملہ کمزور پارٹی اسٹرکچر کی وجہ سے ہوا۔ مسلم لیگ(ن) نے پنجاب، خیبر پختونخوا اور اسلام آباد میں اپنی پارلیمانی طاقت کے حساب سے نشستیں جیت لیں لیکن بلوچستان میں اسے سَیٹ بیک کا سامنا تھا۔ سردار یعقوب ناصر کی شکست اس کے لئے بڑے صدمے کا باعث تھی۔ یہاں 6سال تک قاف لیگ اور اگلے 6سال بی این پی(عوامی ) کے ٹکٹ پر سینیٹر رہنے والی کلثوم پروین، اب مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر اگلے 6سال کے لئے بھی سینیٹر بن گئیں ، لیکن میاں نوازشریف کا یارِ وفادار یعقوب ناصر اپنی پارٹی کے ٹکٹ کے ساتھ صرف 6ووٹ حاصل کر پایا اور اس کے مقابلے میں آزاد اُمیدوار یوسف بادینی کامیاب ہوگیا۔ یعقوب ناصر سیاستدانوں کے اس قبیلے سے تعلق رکھتا ہے جو سیاسی وفاداری کو کسی بھی منصب اور کسی بھی مفاد سے زیادہ گرانقدر سمجھتا ہے۔ وفاداری کے اس رشتے کو نبھاتے ہوئے وہ آزمائش کے ہر مرحلے سے بحسن وخوبی گزر جاتا ہے۔
نوازشریف کی پہلی وزارتِ عظمیٰ میں وہ ان کی وفاقی کابینہ میں شامل تھا، پھر اِسے فارغ کردیا گیا لیکن وزارت سے محرومی کے بعد بھی نوازشریف اور (مسلم لیگ) سے اس کی وفاداری میں سرموفرق نہ آیا، اس نے اِسے دل کا روگ نہ بنایا۔ جاوید ہاشمی نے اپنی خودنوشت میں ان دنوں کو یادکیا ہے، ’’سردار یعقوب خاں ناصر کو وزارت سے فارغ کرنے کا طریق ِ کار ٹھیک نہ تھا، میں اس پر اپنا (احتجاجی) استعفیٰ لکھ کر میاں صاحب کے پاس گیا اور انہیں پیش کردیا۔ انہوں نے استعفیٰ پھاڑ کر میری جیکٹ میں ڈالتے ہوئے کہا، آپ کا اور میرازندگی بھر کا ساتھ ہے، سردار صاحب کے ساتھ زیادتی کا ازالہ بہت جلد ہوجائے گا اور یہ بات سردار صاحب کو بتادیں۔ میں نے سردار یعقوب خاں کی رہائش پر انہیں میاں صاحب کا پیغام پہنچایا۔ میں سردار صاحب کے الفاظ کبھی نہیں بھول سکتا۔ انہوں نے کہا، میاں صاحب میرے کپتان ہیں، وہ جس پوزیشن پر کھیلنے کو کہیں گے، میں ان کا فیصلہ قبول کروں گا‘‘۔
یعقوب ناصر نے نہایت برے حالات میں بھی اپنی وفاداری پر حرف نہیں آنے دیاتھا، مشرف کا دور، جب ڈکٹیٹر میز پر مکے مارتے ہوئے کہتا تھا، میرے ہوتے ہوئے، وہ واپس نہیں آسکتا، وہ(نوازشریف) آئے گا تو میں نہیں ہوں گا۔اقتدار کی بہار میں وفاداری کے نغمے گانے والے کتنے ہی موسمی پرندے، آزمائشوں کی خزاں میں نئے شجرِ اقتدار کی طرف کوچ کر گئے لیکن یعقوب ناصر اِن میں نہیں تھا ۔ عباس تابش یاد آئے
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
دیارِ حرمین سے خبر آئی، سینیٹ کے الیکشن میں اپنے یارِ طرحدار کی شکست میاں صاحب کے لئے گہرے رنج کاباعث تھی، اگرچہ یہ المیہ ایسا غیر متوقع نہ تھا۔ میاں صاحب کو بلوچستان میں بعض مسلم لیگیوں کی ناراضی کا احساس تھا، اصلاحِ احوال کے لئے وہ خود بھی سرگرم ہوئے پھر خواجہ سعد رفیق کو بھی بھیجا لیکن ناراض بلوچوں کی تالیفِ قلب آسان نہ تھی۔ اسپیکر جان جمالی اپنی صاحبزادی ثنا جمالی کے لئے مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر مصر تھے۔ کہا جاتا ہے ، اس میں ظفر اللہ جمالی رکاوٹ بن گئے۔ اس پر اسپیکر صاحب بگڑ گئے اور انہوںنے اپنی الگ ’’بلوچستان مسلم لیگ‘‘ بنانے کا عندیہ دے دیا۔ انہیں کچھ اور ناراض لیگیوں کی حمایت بھی حاصل ہوگئی۔ مسلم لیگ(ن) بلوچستان کے صدر سردار ثناء اللہ زہری اگرچہ سینئرمنسٹر ہیں لیکن وہ شاید ابھی تک وزارتِ اعلیٰ سے محرومی کے صدمے سے نہیں نکل پائے۔ سردار خیر بخش خاں مری کے جانشین چنگیز خاں مری بھی وزارتِ اعلیٰ کے اُمیدوار تھے۔ بلوچستان میں مسلم لیگ سنگل لارجسٹ تھی لیکن میاں صاحب نے ناراض بلوچوں کی تالیف قلب کے لئے بلوچ قوم پرست نیشنل پارٹی کو وزارتِ اعلیٰ سونپنے کا فیصلہ کیا(جو پارلیمانی اعدادوشمار کے حساب سے تیسرے نمبر پر تھی)۔ معاہدے کے مطابق(جس کی تصدیق میاں صاحب نے گزشتہ دنوں سی پی این ای کے ظہرانے میں بھی کر دی)۔ یہ ارینجمنٹ ، ڈھائی سال کے لئے ہے جس کے بعد وزارتِ اعلیٰ مسلم لیگ(ن) کے پاس ہوگی۔
بلوچستان میں سینیٹ کی ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ آیا، تو ثناء اللہ زہری نے دو ٹکٹ اپنے بھائی اور بہنوئی کو دلوادیئے۔ کلثوم پروین کو بھی انہی کی سفارش پر ٹکٹ ملا۔ مسلم لیگ(ن) اپنی عددی اکثریت کی بنا پرپانچ نشستوں کے لئے پُرامید تھی، غیر جانبدار مبصرین چار نشستوں کی بات کرتے تھے لیکن وہ صرف تین نشستیں حاصل کرپائی۔ جان جمالی نے صاحبزادی کو ٹکٹ نہ ملنے کا بدلہ چُکا دیا۔ حامد میر سے گفتگو میں سردار اخترمینگل کو اس ’’انکشاف‘‘ میں کوئی عار نہ تھی کہ ان کے اُمیدوار جہاں زیب جمالی کی کامیابی میں جان جمالی نے بھی حصہ ڈالا۔پارٹی اسٹرکچر کی کمزوری سندھ میں بھی عیاں تھی۔ یہاں میاں صاحب نے پیر پگار ا کے اُمیدوار امام الدین کی حمایت کا اعلان کیا تھا(وہ اپوزیشن کے واحد اُمیدوار تھے) لیکن انہیں توقع سے پانچ ووٹ کم ملے۔ اِن میں مسلم لیگ(ن)کے ووٹ بھی تھے۔ (سندھ میں مسلم لیگ(ن) کے معاملات ایک الگ موضوع ہے) یہاں رحمٰن ملک خوش قسمت ٹھہرے ، جو جیتنے والے امیدواروں میں سب سے آخری نمبر پر تھے۔ وہ خود پیپلزپارٹی والوں کے لئے بھی ایسے پسندیدہ نہ تھے چنانچہ انہیںاپنی پارٹی کے صرف 9ووٹ ملے۔حساب کتاب پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اگر مسلم لیگ میں بغاوت نہ ہوتی اور تحریکِ انصاف کے چار ووٹ بھی الیکشن میں حصہ لیتے تو رحمٰن ملک چاروں شانے چت پڑے ہوتے۔کہا جاتا ہے، اب وہ سینیٹ کی چیئرمین شپ کی اُمید بھی لئے ہوئے ہیں۔ کیا زرداری صاحب سنیٹر رضاربانی یا بیرسٹر اعتزاز احسن پر رحمن ملک کو ترجیح دیں گے؟مسلم لیگ (ن)نے پنجاب میں کلین سویپ کیا لیکن یہاں پیپلز پارٹی کے ندیم افضل چن، 27 ووٹ کیسے لے گئے؟ان کے تین ووٹ مسترد ہوئے۔ اِن کے حصے کے اصل ووٹ 20تھے۔ (8پیپلزپارٹی، 8 قاف لیگ اور چار آزاد) کہا جاتا ہے، کوئی درجن بھر نون لیگی ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنے ووٹ ضائع کر دیئے۔ تو کیا صرف ایک روز قبل، وزیراعظم صاحب کے ساتھ سعودی عرب کے 3روزہ سرکاری دورے پر جانے والے شہبازشریف، اگلے ہی روز خصوصی پرواز سے خطرے کی اسی گھنٹی پر لاہور لوٹ آئے تھے؟
فاٹا کی چار نشستوں پر الیکشن ، رات گئے جاری ہونے والے صدارتی حکم کے باعث منعقد نہ ہوسکا جس کی رو سے یہاں رکن اسمبلی سینیٹ کے انتخاب کے لئے چار ووٹوں کی بجائے صرف ایک ووٹ کا حقدار رہ گیا تھا۔ یہ چار ووٹوں کا حق، مشرف نے 2002میں اپنی سیاسی ضرورت کے تحت دیاتھا جس کے لئے اس نے آرڈیننس جاری کیا اور دلچسپ بات یہ کہ پارلیمنٹ سے توثیق نہ ہونے کے باوجود یہ آرڈیننس قائم و دائم رہا۔ یہاں 12ارکانِ قومی اسمبلی 4سینیٹرز کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس بار یہ گیارہ تھے جن میں سے 6نے اپنا گروپ بنالیا۔باقی 5 ارکانِ قومی اسمبلی غیر مؤثر ہوگئے۔6 کا یہ گروپ، 4سینیٹروں کو منتخب کرانے کی پوزیشن میں آگیا۔ یہ بدترین ہارس ٹریڈنگ تھی جس کا سدباب ضروری تھا لیکن صدارتی حکم کی صورت میں یہ کارِ خیر بہت دیر سے کیا گیا۔ اس سے خود الیکشن کمیشن کے لئے شیڈول کے مطابق فاٹا میں الیکشن کا انعقاد ناممکن ہوگیاجسے اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کردیا گیا ہے۔
اب سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کا مرحلہ درپیش ہے جس میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) سے صرف ایک نمبر آگے ہے۔ ایسے میں چھوٹے گروپوں کی اہمیت دوچند ہوگئی ہے۔ اب میاں صاحب اور جناب زرداری کی جوڑتوڑ اور سودے بازی کی صلاحیتوں کا نیا امتحان ہے اور خود کپتان کے لئے بھی نئی آزمائش کہ وہ اپنے 6سنیٹرز کے ساتھ کیا فیصلہ کرتے ہیں؟ نون لیگ اور پیپلزپارٹی میں مقابلے کی صورت میں ، کس کی حمایت کرتے ہیں؟ غیر جانبدار رہتے ہیں، یا کسی تیسرے گروپ کی صورت میں اس کی حمایت کرتے ہیں؟
تازہ ترین