• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نہ جانے حکمران ہر معاملہ میں سیاست کیوں کرتے ہیں۔ دو ٹوک بات کیوں نہیں کرتے۔ جس قوم نے انہیں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا، اُسے اس کااہل بھی نہیں سمجھتے کہ سچ بات ہی بتادیں۔ سیکورٹی معاملات میں پردہ داری کی جائے تو بات سمجھ بھی آتی ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے کنفیوژن میں نہ جانے کیا حکمت پوشیدہ ہے۔ پاک۔ چین اکنامک کاریڈور آج کل تختہ مشق ہے۔ جس کے روٹ کے حوالے سے پوری قوم تذبذب کا شکار ہے۔ ہر طرف ایک شور و غوغا مچا ہے کہ اصل روٹ تبدیل کیا جارہا ہے۔ مگر اقتدار کے ایوانوں کی جانب سے کوئی وضاحت ہے نہ صراحت۔ مکمل سکوت کا عالم ہے۔ ادھر اُدھر سے کوئی خبر نکلتی بھی ہے تو معاملہ سلجھانے کی بجائے مزید الجھا دیتی ہے۔ یہی کچھ پاکستان۔ ایران گیس پائپ لائن کے سلسلے میں بھی ہوتا آیا ہے۔ سرکار کی طرف سے آنے والا ہر بیان کہہ مکرنیوں کا شاہکار۔ اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ کا معجون مرکب۔ نون لیگ کا موقف آج بھی یہی ہے کہ پاکستان اس پروجیکٹ کیلئےکمیٹڈ ہے۔ مگر دشواریاں سدراہ ہیں۔ امریکی پابندیوں کا خدشہ ہے۔ اپنے حصے کی پائپ لائن بچھا تو لیں، مگر جونہی اس کا کنکشن ایرانی لائن سے جڑا، پابندیاں لگ جائیں گی۔ کوئی ان سے پوچھے کہ ایران پر پابندیاں کوئی آج تو نہیں لگیں، 36برس پرانی ہیں۔ اگر اتنا ہی خوف تھا تو معاملہ شروع ہی کیوں کیا تھا؟ یہی حال پیپلزپارٹی والوں کا بھی تھا۔ پانچ برس تک مزے کرتے رہے، کسی کو گیس پائپ لائن کا خیال نہ آیا۔ اور جب چل چلائو میں فقط پانچ دن باقی رہ گئے، تو 11مارچ 2013ء کی صبح صدر زرداری منصوبے کے افتتاح کیلئے اس شان سے ایران تشریف لے گئے کہ حکومت ایران کو ’’مہمانوں‘‘ کا جم غفیر تین جہازوں میں ڈھونا پڑا تھا۔ موصوف نے ایرانی ہم منصب کے ہمراہ چاہ بہار نامی قصبہ میں فیتہ کاٹا تھا۔ بعد میں عقدہ کھلا کہ یہ تو محض الیکشن سٹنٹ تھا، جس نے پاکستان میں بھی بیک فائر کیا اور ایران کی بھی بدمزگی ہوئی۔
قوم کو مژدہ ہو کہ پاک، چین اکنامک کاریڈور ایک خواب نہیں، بلکہ وہ حقیقت ہے، منصہ شہود پر آنا جس کے مقدر میں لکھا چکا۔ یہ وہ منصوبہ ہے جس پر بیجنگ میں سلسلہ جنبانی ساٹھ کی دہائی میں شروع ہوگیا تھا۔ شاہراہ ریشم کی تعمیر سے بہت پہلے چینی ماہرین کراچی اور پورٹ قاسم کی بندرگاہوں کی کیپیسٹی کے حوالے سے رپورٹ تیار کرچکے تھے۔ اور باخبر حلقے یہ بھی جانتے ہیں کہ گوادر پورٹ کی پہلی فیزیبلٹی رپورٹ بھی چینی ماہرین نے ہی تیار کی تھی۔ بے شک پاک۔ چین دوستی ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔ جن کیلئے شہد سے شیریں، ہمہ موسمی، ہمالہ سے بلند اور سمندروں سے گہری جیسے استعارات استعمال ہوتے ہیں۔ مگر یہ واضح رہے کہ بین الاقوامی تعلقات محض جذبات پر نہیں چلتے۔ ہر کوئی اپنے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ اکنامک کاریڈور پر اگر چین ایک بڑی انویسٹمنٹ کرنے جارہا ہے، تو وہ اس لئے کہ یہ خرچہ اس کے قومی مفاد میں ہے۔ البتہ بائی پراڈکٹ کے طور پر اگر اس سے پاکستان کی بھی چاندی ہوجاتی ہے، تو زہے نصیب۔
چین اس وقت دنیا کا سب سے بڑا آئل امپورٹر ہے، جو وہ 1990ء کی دہائی کے آغاز سے مشرق وسطیٰ اور افریقہ سے درآمد کررہا ہے۔ سست رفتار آئل ٹینکر طویل بحری راستہ طے کرکے مہینوں میں چین کے مشرقی ساحل تک پہنچتے ہیں۔ جس سے سپلائی ہی متاثر نہیں ہوتی، بار برداری کے اخراجات میںبھی بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ پاکستان کے راستے روٹ کھل جانے کی صورت میں چین کے تجارتی کاروان بارہ ہزار کلو میٹر کے اضافی سفر سے بچ جائیں گے۔ جس سے ایک اندازے کے مطابق صرف ایک برس میں درآمدی بل میں ہونے والی بچت مجوزہ اکنامک کاریڈور پر اٹھنے والے اخراجات سے کہیں زیادہ ہوگی۔
ہمارے حکمرانوں کی بے تابیاں دیکھنے لائق ہیں۔ اکنامک کاریڈور کو اپنی عظیم الشان فتوحات کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ چلیں، کوئی بات نہیں، ہم جذباتی قوم ہیں۔ کریڈٹ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ مگر ایک چیز کی سمجھ نہیں آتی کہ اس بین الاقوامی پروجیکٹ کے حوالے سے خواہ مخواہ کے شکوک و شبہات کیوں پیدا کئے جارہے ہیں؟ روٹ کا مسئلہ روز بروز سنگین ہوتا جارہا ہے۔ماسوائے نون لیگ کے، پچھلے دنوں ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا اسلام آباد میں ایک اجتماع ہوا تھا۔ جس میں اسفند یار ولی، خورشید شاہ، شاہ محمود قریشی، آفتاب شیرپائو، حاصل بزنجو اور روف مینگل جیسے اکابرین شامل تھے۔ اس موقعے پر کی گئی تقاریر اور جاری ہونے والے اعلامیہ میں بلوچستان، خیبرپختونخوا اور فاٹا جیسے کم ترقی یافتہ خطوں کے حقوق کی بات کی گئی۔ یہ بھی کہا گیا کہ صوبوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کی سازش نہ کی جائے ۔ ہم ایک وفاق میں رہ رہے ہیں، جس کی تمام اکائیوں کے حقوق کا تحفظ ازبس ضروری ہے۔ بلکہ پسماندہ علاقوں کی تعمیر و ترقی تو جنگی بنیادوں پر ہونا چاہئے۔ یہ چتائونی بھی دی گئی کہ اگر اکنامک کاریڈور کا روٹ یا ڈیزائن تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی، تو کالاباغ ڈیم کی مانند یہ پروجیکٹ بھی متنازعہ ہوجائیگا اور پھر شاید کسی کو اس کا نام لینے کی بھی ہمت نہ ہو۔ اس امر کا بھی اعادہ کیا گیا کہ اکنامک کاریڈور کا اصل روٹ ڈیرہ اسماعیل خان، ژوب اور کوئٹہ سے ہوتا ہوا گوادر پہنچتا ہے، اور اس میں کسی قسم کی ترمیم قابل قبول نہ ہوگی۔
چاہئے تو یہ تھا کہ سرکار اس تمام ڈویلپمنٹ کا سنجیدگی سے نوٹس لیتی۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوپایا۔ جناب وزیراعظم مسلسل گو مگو کی حالت میں ہیں۔ ان کی جانب سے ہنوز کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی۔ اکنامک کاریڈور پر بننے والے آٹھ عدد اکنامک زونز کا حدودِ اربع بھی کسی کو معلوم نہیں۔ ا لبتہ سونے پر سہاگہ یہ کہ اگلے روز وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے M-2 پر سالٹ رینج کے نواح میں اکنامک زون کی نوید نے معاملہ کو مزید الجھا دیا ہے۔ ایسے میں حکومت کا فرض بنتا ہے کہ مزید وقت ضائع کئے بغیر اکنامک کاریڈور کے حوالے سے قوم کو اعتماد میں لے۔ جناب وزیراعظم اسمبلی کے فلور پر دو ٹوک الفاظ میں اعلان فرمائیں کہ کاریڈور کے روٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی جارہی اور اس پر بننے والے اکنامک زونز بھی جوں کے توں ہیں۔ بلکہ مناسب ہوگا کہ ان کے جائے وقوع کی بھی نشاندہی کردی جائے۔ متعلقہ دستاویزات کو ویب سائٹ پر ڈالا جانا بھی ضروری ہے۔
مجوزہ پروجیکٹ کے حوالے سے اگر خدانخواستہ کوئی مجبوری یا پریشانی لاحق ہے، تو بھی قوم کو اعتماد میں لیا جانا چاہئے۔ بعض حلقے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ چین سڑکوں کے موجودہ نیٹ ورک کو وقتی طور پر استعمال کرکے پروجیکٹ کو ترجیحی بنیادوں پر آپریشنل بنانا چاہتا ہے۔ اگر ایسی کوئی بات ہے، تو بھی قوم کو حقیقت حال سے آگاہ کیا جائے۔ اور ساتھ ہی ساتھ اصل روٹ پر کام کا آغاز کردیا جائے۔ تاکہ بداعتمادی کے بادل چھٹیں اور محروم خطوں کی تشفی ہوسکے۔ اور بالفرض محال اگر اصل روٹ کو فالو کرنے میں کوئی تزویری یا عسکری نوعیت کی مجبوری ہے، تو بھی کھل کر بات کی جائے۔ گومگو کی کیفیت کو فی الفور ختم ہونا چاہئے۔ کیونکہ جوں جوں یہ طول پکڑتی جائیگی، حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا جائیگا۔ کیا پہلے بحران کم ہیں کہ ایک یہ بھی سہیڑ کر بیٹھ جائیں۔
تازہ ترین