• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قابل تقلید ہوتے ہیں وہ لوگ جو حالات اور انجام کی پروا کئے بغیر جھوٹ، جبر اور اخلاقی جرائم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ بے وقعت اور نحیف ہونے کے باوجود معاشرے کی برائیوں کے خلاف سینہ سپر ہوجاتے ہیں۔ لیکن ہمارے انحطاط پذیر معاشرے میں ایسے جرات مند لوگوں کا انجام عبرتناک ہوتا ہے۔ ایسی بے شمار مثالیں گلی کوچوں میں بکھری پڑی ہیں کہ جرائم پیشہ گروہ جو انتہائی طاقتور ہوچکا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر ان لوگوں کو مٹا دینے کے درپے ہوجاتا ہے۔
جھوٹ بولنے والے سچ کے خلاف اتنی زور سے چیختے ہیںکہ ان کا جھوٹ سچ لگنے لگتا ہے۔ کرپٹ مافیا آوازاٹھانے والوں کے خلاف اس قدر زہریلی مہم شروع کردیتا ہے کہ سچ بولنے والا ان کی برائیوں کے خلاف لڑنے کا مقصد بھول کرتمام توجہ اپنے دفاع پر مرکوز کر دیتا ہے۔ انجام کار فتح جھوٹ کی ہوتی ہے۔ ایسی بہت کم مثالیں موجود ہیں جس میں ظلم، جبر اور جھوٹ کے خلاف اٹھنے والی آواز ارباب اختیار تک پہنچی ہو اور اس کے مثبت نتائج مرتب ہوئے ہوں۔ عموماً یہی ہوا ہے کہ اس مافیا جس کے سپہ سالار پولیس حکام ہوتے ہیں، کے خلاف اٹھنے والی آوازیں راستے میں ہی روک دی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں پھیلی ہوئی کرپشن کی آگ اس قدر شدید اور زور دارہوتی ہے کہ مافیا کے خلاف بولنے والوں کی آوازیں دہکتی ہوئی آگ پر پانی کے چند قطرے ثابت ہوتے ہیں۔ جو اس الائو تک پہنچنے سے پہلے ہی بھاپ بن کر ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔ یہ کہانی ایک ایسی دلیر لڑکی کی ہے جس نے گناہ آلود زندگی گزارنے پر مجبور کرنے والی ایک جعلی لیڈی ڈاکٹر کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور ماضی کی غلطیوں سے تائب ہوکر اس عورت کے نرغے میں پھنسی ہوئی نوجوان اور معصوم لڑکیوں کو آزاد کرانے اور انہیں مستقبل میں بامقصد زندگی گزارنے کے لئے راہ ہموار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس عورت اور اس کے گروہ کی جانب سے چہرے پر تیزاب پھینکنے اور جان سے مارنے کی دھمکیوں کے باوجود اس لڑکی کے پائوں میں لغزش نہیں آئی اور یہ گندگی کے خلاف اپنی دھن میں لگی رہی۔ حالات جب اس لڑکی کے ہاتھ سے نکلنے لگے تو اس نے ’’دی نیوز‘‘ سے رابطہ کیا اور اپنی آواز ارباب اختیار تک پہنچانے کے لئے مدد طلب کی۔اعلی تعلیم یافتہ یہ لڑکی جس کا نام اور شناخت پوشیدہ رکھنے کے لئے اخلاقی طور پر پابند ہیں، نے اپنی روداد بیان کرتے ہوئے بتایا کہ جب وہ لندن سے اعلی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن واپس آئی تو اس عورت سے سر راہ ملاقات ہوگئی۔ یہ عورت جس نے اپنا تعارف لیڈی ڈاکٹر کے طور پر کرایا، اتنی شاطر اور چالاک تھی کہ اس نے چند دنوں میں اس سے تعلقات استوار کرلئے اور انتہائی قریب آگئی۔ ملاقاتوں کے دوران ایک مرحلے پر اس نے ایسے حالات پیدا کردیئے کہ ہماری ملاقاتیں تنہائی میں ہونے لگیں اور نتیجتا ًوہ اسے غیر اخلاقی اور غیرفطری تعلقات قائم کرنے پر اکسانے میں کامیاب ہوگئی۔ ابتدائی مراحل میں تو یہ سلسلہ جاری رہا لیکن جب اس لڑکی نے اس گناہ سے گریز کی کوشش کی تو اس عورت نے بلیک میلنگ کے ذریعے یہ عمل جاری رکھنے پر دبائو ڈالتے ہوئے دھمکی دی کہ وہ اس کی برہنہ تصاویر اس کے بھائیوں اور خاندان کے دوسرے افراد کو بھجوا کراسے بدنام کردے گی۔قصہ مختصر کہ اس عورت نے اس کے چنگل میں پھنسی ہوئی اس لڑکی کو مختلف مقاصد کے لئے استعمال کیا اور غلط کاموں میں الجھائے رکھا۔ابتدا میں ہی اس لڑکی کو اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ جعلی لیڈی ڈاکٹر ہم جنس پرستی کے گھنائو نے دھندے میں ملوث ہے اور اس نے مختلف تعلیمی اداروں کی معصوم لڑکیوں کو اپنے چنگل میں پھنسا رکھا ہے۔ معاشرے کو کھوکھلا کرنے والی برائیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے35برسوں سے زائد عرصے پرمحیط صحافتی زندگی میں دوسری بار ہچکچاہٹ کاشکار ہواتھا۔ پہلی بار جب 1991-1992میں،جب میں نے ’’میڈم طاہرہ‘‘ کا اسکینڈل بریک کیاتھا۔ اور دوسرا اب جب میں جعلی لیڈی ڈاکٹر کے مکروہ کاروبار کو بے نقاب کررہاتھا جو مختلف تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم شریف گھرانوں کی لڑکیوں کو اکساتی تھی اور اپنے چنگل میں پھنسا کر غیرفطری فعل پر مجبور کرتی تھی۔اور معاشرے کو گھن کی طرح چاٹ رہی تھی۔ پہلی خبرکرتے ہوئے میں خوف کا شکار تھا کیونکہ اس میڈم کے پیچھے پارلیمنٹ میں بیٹھے طاقتورلوگ تھے۔ لیکن اس بار خوف نہیں، شرم آڑے آرہی تھی۔ تمام شواہد اور چنگل میں پھنسی لڑکیوں کے بیانات کے باوجود اس تذبذب کا شکار تھا کہ معاشرے کی اس شرمناک برائی کو کیسے بیان کروں۔ احساس دامن گیرتھا کہ اگر اس برائی کو نہ روکا گیا تو یہ معاشرے کی رگوں میں کینسر کی طرح پھیل جائے گی۔ اتفاق کی بات ہے کہ تب بھی مسلم لیگ(ن)کی حکومت تھی اور اب بھی یہی اقتدار میں ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ تب میڈیا محدود لیکن مضبوط تھا اور اس کی آواز میں اثر تھا۔ اور اب بے پناہ ٹی وی چینلز اور اخبارات اپنے اپنے انداز میں ظلم کے خلاف چیخ و پکار کررہے ہیں لیکن کرپٹ مافیااس قدر طاقتور ہے کہ ان کے خلاف آواز غیرموثرہوکررہ گئی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ میڈیا میں غیر پیشہ ور اور بدعنوان عناصر شامل ہوگئے ہیں جن کا مقصد صرف بلیک میلنگ ہے۔ جس کے منفی اثرات صحافت کے اصل اقدار پر پڑ رہے ہیں۔ اس سارے کیس میں پولیس کا رویہ انتہائی مایوس کن رہا۔ اس عورت کے ظلم کانشانہ بننے والی اس لڑکی کو تحفظ دینے کی بجائے اس کے بھائی پر چوری اور ڈکیتی کے مقدمے بنادیئے۔ آدھی رات کے وقت اس کے گھر پر چھاپے مارے گئے۔ بہن بھائی کوہراساں کرنے کے لئے پولیس اور اس عورت کی جانب سے دھمکیاں ملتی رہیں۔ رات گئے تھانے کے ایس ایچ او نے پیغامات بھیجے کہ فوراً تھانے میں حاضر ہوجائو ورنہ دونوں کے خلاف مقدمہ درج کرلیاجائے گا۔ لیکن اس موقع پر وزیرداخلہ کے کردار کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ اگر ہم کسی غلط کام پر تنقید کرسکتے ہیں تو اچھے اقدام پر تعریف صحافت کا بنیادی اصول ہے۔ وزیرداخلہ نے اس کیس میں انتہائی دلچسپی لی اور پولیس کو حکم دیا کہ اس کی تحقیقات انتہائی میرٹ پر کی جائے۔ پولیس کے ایک گروہ نے ابتدائی طور پرتووزیرداخلہ کی حکم عدولی کی اور مقدمے کو غلط رنگ دینے کی کوشش کی۔لیکن انجام کار سچ کی جیت ہوئی اور اس عورت کے خلاف جمعرات کو مقدمہ درج کرلیاگیا۔
تازہ ترین