• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سینیٹ کے انتخابات میں جو کچھ ہوا ، اسے دیکھ کر انتہائی افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ان انتخابات کی وجہ سے پاکستان کی جمہوریت اور جمہوری اداروں کے بارے میں کوئی اچھا تاثر قائم نہیں ہوا ہے ۔ یہ بات انتہائی تشویش ناک ہے کہ انتخابات کا عمل بھی مکمل نہیں ہوا اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں ( فاٹا ) میں سینیٹ انتخابات روک دیئے گئے اور انتخابی عمل سے سینیٹ مکمل نہیں ہوئی۔ اگرچہ فاٹا میں انتخابات ہو جائیں گے لیکن یہ بات دنیا کو محسوس ہوگئی ہے کہ ایک دن میں سینیٹ کے انتخابات نہیں ہوسکے ہیں ۔ انتخابی نتائج سے بہت سے شرمناک حقائق بھی سامنے آئے ہیں ۔ مثلاً بعض جگہوں پر ہارس ٹریڈنگ ہوئی ہے اور امیدواروں نے ووٹ خریدے ہیں ۔ بعض جگہوں پر مختلف سیاسی جماعتوں کے منتخب ارکان نے اپنی سیاسی جماعتوں کے نظم و ضبط سے انحراف کیا ہے یا اپنی سیاسی جماعتوں سے بغاوت کی ہے ۔ بعض جگہوں پر کچھ ارکان نے اپنی ضرورت کے مطابق دوسری سیاسی جماعتوں سے ڈیل کی ہے ۔ کہیں کہیں تو ارکان نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ انہیں خریدنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ یہ بات بھی لوگوں نے شدت کے ساتھ محسوس کی ہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں پولنگ کا عمل کسی بھی وجہ سے روکنا پڑا ۔ یہ ٹھیک ہے کہ کچھ سیاسی جماعتوں نے سیاسی جوڑ توڑ اور دیگر ہتھکنڈوں سے اپنے اہداف کے مطابق سینیٹ کی نشستیں حاصل کرلی ہیں اور جشن بھی منا رہی ہوں گی لیکن پوری قوم سینیٹ کے انتخابات میں ہونے والی تاریخ کی بدترین بدنظمی اور غیر معمولی طور پر شرمناک باتوں سے پریشان ہے ۔
تقریباً ہر جگہ سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے پر ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگائے ہیں ۔ یہ الزامات کوئی دوسرا نہیں لگا رہا ہے بلکہ خود سیاسی جماعتیں ہی ایک دوسرے پر لگا رہی ہیں ، جو سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لے رہی تھیں ۔ یہ بات بھی لوگوں کے سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ فاٹا میں سینیٹ انتخابات کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کے لئے رات کی تاریکی میں صدارتی آرڈیننس کیوں جاری کیا گیا ۔ عجلت میں جاری کئے گئے اس آرڈیننس میں اس قدر ابہام تھا کہ اس کے مطابق الیکشن کمیشن نے فاٹا کی چار نشستوں پر انتخابات روک دیئے ۔ کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ انتخابی شیڈول آنے کے بعد انتخابی قوانین میں تبدیلیاں کی گئی ہوں ۔ یہ آرڈیننس لانے کے لئے سینیٹ کا اجلاس بھی غیر معینہ مدت تک کے لئے ملتوی کیا گیا ۔ قومی اسمبلی کا اجلاس پہلے ہی نہیں ہو رہا تھا ۔ سینیٹ کا اجلاس اس لئے غیر معینہ مدت تک ملتوی کیا گیا کہ آرڈیننس کے اجرا ء کا جواز پیدا کیا جاسکے ۔ آرڈیننس رات کو جاری کردیا گیا پھر دوسرے دن سینیٹ کا اجلاس دوبارہ بلا لیا گیا ۔ اس آرڈیننس کی قانونی اور آئینی حیثیت کے بارے میں تو آئینی اور قانونی ماہرین ہی زیادہ بہتر بتاسکتے ہیں لیکن آرڈیننس جاری کرنے کی نیت کو کوئی بھی درست تصور نہیں کررہا ۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ اور دیگر سیاسی رہنما اگر یہ کہہ رہے ہیں کہ رات کے اندھیرے میں آرڈیننس لا کر ہارس ٹریڈنگ کی گئی ہے تو ان کی اس بات کا جواز موجود ہے ۔ پہلے سے طے شدہ انتخابی طریقہ کار کو آخری لمحے میں تبدیل کرنے کا اور کیا مقصد ہوسکتا ہے ۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان مسلسل یہ شور مچاتے رہے ہیں کہ مئی 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اور انہوں نے ہمیشہ یہ موقف اختیار کیا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کا راستہ بند ہونا چاہئے لیکن جمعرات 5 مارچ 2015ء کو سینیٹ کے انتخابات کے موقع پر خیبرپختونخوا اسمبلی میں جو کچھ ہوا ، وہ عمران خان کے موقف کی عکاسی نہیں کرتا۔ خیبرپختونخوا اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن ارکان کے درمیان تلخ کلامی ہوئی ۔ انہوں نے ایک دوسرے پر ہارس ٹریڈنگ اور دھاندلی کے الزامات لگائے ۔ پیپلز پارٹی کی خاتون رکن نگہت اورکزئی نے ہنگامہ کھڑا کردیا کہ ان کا ووٹ خریدنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ تلخ کلامی اور ہنگامہ آرائی کے باعث پولنگ کا عمل 5 گھنٹے سے زائد بند رہا۔ عمران خان پاکستان کی سیاست اور سیاست دانوں کو ہمیشہ گالیاں دیتے تھے لیکن خیبرپختونخوا اسمبلی میں رونما ہونے والے واقعات کی وہ تسلی بخش وضاحت نہیں کرسکے ہیں ۔ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کو اپنے ارکان کی تعداد سے کم ووٹ ملے ۔ سندھ اسمبلی میں بھی مسلم لیگ (ن) کے ووٹ تقسیم ہوئے ۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں اپ سیٹ نتائج آئے ۔ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کو توقع سے کم ووٹ ملے ۔ سینیٹ کے انتخابات نے مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات اور داخلی بحرانوں کو بے نقاب کردیا ہے اور دنیا پر یہ واضح ہوگیا ہے کہ دونوں سیاسی جماعتوں کے منتخب ارکان اپنی قیادت سے مطمئن نہیں ہیں اور دونوں سیاسی جماعتوں کی قیادت کے لئے یہ بات تشویش ہے ۔
جو کچھ سینیٹ کے انتخابات میں ہوا ، اس سے یہ تو واضح ہو گیا ہے کہ ہماری جمہوری روایات اور اقدار بہت کمزور ہیں ۔ ایک ناقابل فخر جمہوری مرحلے سے ہم 5 مارچ کو گزرے ہیں جبکہ ایک اور مرحلہ بھی آرہا ہے، جب بحیثیت قوم ہمیں ایک اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا ، جب پاکستانی پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب ہو گا اور ان سینیٹرز کو خریدنے کی کوشش کی جائے گی ، جن میں سے بعض نے ارکان قومی یا صوبائی اسمبلی کے ووٹ خریدے ۔ ایک اور بازار لگنے والا ہے کیونکہ سینیٹ میں دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس سادہ اکثریت نہیں ہے کہ وہ اپنے چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب کراسکیں ۔ انہیں لازمی طور پر دیگر سیاسی جماعتوں اور ان کے سینیٹرز کی حمایت حاصل کرنا پڑے گی اور اس حمایت کے حصول کےلئے وہ سارے حربے استعمال ہو سکتے ہیں ، جو 5 مارچ کے سینیٹ کے انتخابات میں ہوئے ہیں ۔ یہ سب کچھ ایسے حالات میں ہو رہا ہے ، جب غیر جمہوری قوتیں سیاست اور سیاست دانوں کو گندا کرکے اپنا راستہ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ اگر سیاست دان خود ہی اپنے آپ کو خراب کرنے کی کوشش کریں گے تو پھر غیر جمہوری قوتوں کا راستہ کون روکے گا ۔
تازہ ترین