• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان دنیا کا وہ ملک ہے جو نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا اور جس کی بنیادوں میں آئین اور قانون کی حکمرانی کا تصور تھا۔ اس کا قیام بیلٹ بکس کے ذریعے وجود میں آیا۔ مسلمان قوم نے نہایت نظم وضبط کیساتھ تحریک پاکستان کا ساتھ دیا جبکہ اس کے مخالفین کے پاس کوئی نظریہ یا نظم وضبط نام کو نہیں تھا۔ وہ ایک وطن، ایک قوم اور ایک تہذیب کی بات کرتے تھے جبکہ تحریک پاکستان والے، اس کے قائدین اور ان کا عظیم لیڈر محمد علی جناح اس بنیاد پر تقسیم کا مطالبہ کرتے تھے کہ برصغیر میں دو قومیں آباد ہیں جن کاتہذیب وتمدن، عبادت کا طریقہ کار اور طرز زندگی الگ الگ ہیں۔ مسلمان قوم ایک خدا، ایک رسول اور ایک قرآن پرمتحد ہےجبکہ برصغیر کی دوسری بڑی قوم مختلف دیوی دیوتائوں کو پوجتی ہے ان کا طرز زندگی علیحدہ ہے۔ اس لئے ہم مسلمانوں کےلئے علیحدہ وطن کا مطالبہ کرتے ہیں اور ہندوستان کو آزاد کرنے کے بعد ان دونوں قوموں کااکٹھا رہنا بہت مشکل ہوگا۔ محمد علی جناح نےپُر امن تحریک چلائی جسے برصغیر کے ہندو اخبارات نے پاکستان کا نام دیا۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے اسی وکٹ پر کھیلنے کا فیصلہ کیا جو انگریزوں کی قائم کردہ تھی اور کہا کہ مسلم لیگ مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے اور میں انتخابات میں یہ ثابت کردونگا مگر ایک علیحدہ’’ نیشنلسٹ گروپ‘‘ جو قیام پاکستان کا مخالف تھا وہ ہندوستان کوتقسیم کرنے کا حمایتی نہ تھا بلکہ پوری قوم کو ایک قوم اور ہندوستان کو ایک ہی ملک رکھنے کا خواہشمند تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب برطانوی حکومت کی اقتصادی حیثیت کمزور ہو گئی تو برطانوی وزیراعظم مسٹر اٹیلی نے برطانوی پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ وہ ہندوستان کو آزاد کررہے ہیں اور انتخابات کرانے کا اعلان کردیا، مگر بیرسٹر محمد علی جناح ایک سچے، دیانتدار، شفاف اور ان کے ساتھی مخلص قائدین تھے۔ مسلم عوام نے اپنے قائد کی آواز پر لبیک کہا اور ننانوے فیصد سیٹیں جیت کر اپنے قائد کو جس کی سچائی دیانتداری کو خراج تحسین پیش کیا۔ لامحالہ برٹش گورنمنٹ کو مطالبہ پاکستان ماننا پڑا۔
پاکستان بننے کے بعد اس گروپ نے جو قیام پاکستان کا مخالف تھا شدید ترین ہندو مسلم فسادات کے بعد قائداعظم کی وسیع النظری کو دیکھتے ہوئے اسی ملک میں اپنےلئے قیام کا فیصلہ کیا۔ قائداعظم کے ساتھیوں نے اپنے دونوں بازو کھول کر انہیں خوش آمدید کہا اور انہیں زندگی کے تمام معاملات میں شریک کرلیا۔ یہ ایک بہت اچھا فیصلہ تھا مگر قائداعظم کی وفات کے بعد جن لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار کی باگ ڈور آئی وہ حالات کو صحیح نہ سمجھ سکے۔ ملک میں سیاسی کشمکش کا آغاز ہوگیا۔ تحریکیں چلیں، عدم استحکام پیدا ہوا۔ ملک افراتفری کا شکار ہوا جس کی تازہ مثال دہشت گردی ہے۔
پاکستانی قوم کا مقابلہ ان تمام قوتوں سے تھا جو قیام پاکستان کی مخالف تھیں۔ پاکستان کی خالق جماعت پر بھی کمزوری آئی اور مشرقی پاکستان کے وزیر اعلیٰ نورالامین ایک اسٹوڈنٹ لیڈر کے مقابلے میں الیکشن ہار گئے۔ ہمارا پڑوسی ملک جس نے آج تک پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا اور ہماری سیاسی جماعتیں جن پر مخلص کارکنوں کی بجائے بیورو کریسی کا قبضہ ہوگیا وہ کوئی فعال کردار انجام نہ دے سکیں جبکہ پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا۔ ملک بار بار مارشل لا کی گرفت میں آتا چلا گیا۔ وہ قوم جس نے 1965 کی جنگ میں ہندوستان کو شکست دی تھی سیاسی جماعتوں میں کارکنوں کا کردار اور مخلص لوگوں کو پیچھے دھکیلنے کے عمل کی بنیاد پر آدھا رہ گیا۔ کمزور سیاسی قیادت ہونے کی بنا پر ہمیں شدید نقصانات اٹھانے پڑے ہیں۔ ملک میں مسلسل تحریکیں چلتی رہیں۔ کبھی جمہوریت کے نام پر کبھی مذہب کے نام پر اور کبھی عقیدے کے نام پر، ان تحریکوں کو جلا ملتی رہی اورغیر سیاسی حکمراں اپنی مرضی کی قیادت لانے کے چکر میں مبتلا رہے یہاں تک کہ قائداعظم کی بہن کو الیکشن میں ہرا دیا گیا۔ تاریخ لکھنے والا مورخ سب کچھ لکھ رہا ہوگا۔
ہمارا ملک ٹوٹنے کی وجہ’’ حمود الرحمٰن کمیشن‘‘ کی رپورٹ براہ راست عوام تک نہ پہنچ سکی کہ کون ذمہ دار ہے، کون نہیں، حمود الرحمٰن کمیشن کے سیکریٹری ایم اے لطیف جو میرے دوست ہیں ان سےبہت باتیں سننے کو ملیں کہ یہ ملک کیوں ٹوٹا، اتنی بڑی تعداد میں لوگ کیوں قیدی ہوئے، فاطمہ جناح کے الیکشن ہارنے پر مشرقی پاکستان کے عوام اس قدر مایوس ہوئے کہ انہوں نے بہت سے معاملات میں ’’ مزاحتمی جنگ‘‘ نہ لڑی اور وہ ہم سے روٹھ گئے۔
اب جو حالات پاکستان کو درپیش ہیں، ملک بحرانوں میں گھرا ہوا ہے مجھے کوئی ایسا قومی رہنما نظر نہیں آرہا جو اس صورتحال کو سنبھال سکے۔ ویسے تو عظیم قربانیوں کی بنیاد پر ملک بنایا گیا اوراس کے قیام میں اتنی بڑی جنگ لڑی گئی، بے پناہ لوگ شہید ہوئے۔ اللہ کریم ہماری مدد ضرور کرے گا لیکن جس طرح ملک میں جھوٹ بولا جارہا ہے اور سیاسی رہنما اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ بجانے میں مصروف ہیں،درخواست ہے کہ اس ملک کو اکٹھے ہو کر استحکام بخشو ورنہ...........
ملک میں تخریب کاری زوروں پر ہے۔ عبادت گاہوں کا تقدس پامال ہورہا ہے یہاں تک کہ اسکولوں کے بچوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ہمارے ناخدا ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیوں میں مصروف ہیں۔کوئی نیشنلزم نہیں۔ قوم اندھیروں میں بھٹک رہی ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اب کیا ہوگا؟ اب کسے نا خدا کہے کوئی، اب فرقوں، گروہوں، عقیدوں میں تقسیم کیاجارہا ہے۔ اس ملک کو قائم رہنے دو، چراغ طور جلائو بڑا اندھیرا ہے۔
تازہ ترین