• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں اس کالم میں قائداعظم سے خیالوں میں باتیں کر رہا ہوں، آدھی رات بیت چکی ہے اور عام پاکستانی کی حیثیت سے پریشان ہوں کہ آخر ہمارے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے، کیا ہم بحیثیت پاکستانی قوم دوبارہ اپنی آزادی سے محروم ہوجائیں گے اور آپ کی قیادت میں لاکھوں شہیدوں نے جو اپنا خون دیا تھا وہ رائیگاں چلا جائے گا اور ہم اپنی آزادی سے محروم کردئیے جائیں گے کیونکہ الطاف حسین جیسے لیڈر ہمارے رہنمائوں کا اور عساکر پاکستان کی قوت کا اس طرح مذاق اڑاتے رہیں گے۔ ڈنڈے کے زور پر سیاسی پارٹیاں چلانے والے اور اپنے لوگوں کو مشکل میں مبتلا کرنے والے لوگ قوم کے رہنما نہیں ہو سکتے، وہ جن لوگوں کی رہنمائی کے دعویدار ہیں وہ لوگ انہیں تسلیم نہیں کرتے، افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی نرسری خود ہی انہیں ’’بت‘‘ کی شکل دیتی ہے او روہ انہیں طاقت بھی فراہم کرتی ہے، مگر جب یہ لوگ اپنی اہمیت سےواقف ہوتے ہیں تو اپنی قوم و ملک کیلئے ہی ایک مسئلہ بن جاتے ہیں اور یہی مسئلہ آج کل ہمیں درپیش ہے حالانکہ اس سے پہلے ہم بنگلہ دیش میں ایک رہنما کو ان حالات سے گزرتے ہوئے دیکھ چکے ہیں ان کا انجام بھی ہمارے سامنے ہے۔ محترم قائد میں ڈھاکہ میں 22 جنوری 1971ء کو شیخ مجیب الرحمٰن سے دھان منڈی میں ملا تھا۔ میرا ان سے جو مکالمہ ہوا انہوں نے واضح طور پر مغربی پاکستان میں اخبارات کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا اورکہا کہ اخبارات میں میرے خیالات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا جاتا ہے کیونکہ اخبار ’’ٹرسٹ‘‘ کے پاس تھے جب میں ان سے ملاقات کرکے باہر نکلا تو مغربی پاکستان کے اکثر سیاسی رہنما وہاں موجود تھے اور وہ مجیب الرحمٰن کو یقین دلا رہے تھے کہ ان کے ساتھ ہیں اور ذوالفقار علی بھٹو چیئرمین پیپلزپارٹی کا کوئی مطالبہ منظور نہ کرنا اسی وقت اگلے دن بھٹو صاحب نے ڈھاکہ آنا تھا ، عوام بھٹو صاحب کا استقبال کرنا چاہتے تھے مگر شیخ مجیب الرحمٰن نے تین ہزار رکشے والوں کو پیپلزپارٹی کے جھنڈے لگا کر ڈھاکہ ائیرپورٹ روانہ کردیا، میں ان تاریخ ساز لمحوں کو دیکھنے کیلئے وہاں موجود تھا۔کیونکہ شیخ مجیب الرحمٰن کو وہاں تک پہنچانے کیلئے سرمایہ مغربی پاکستان کے مالدار لوگ فراہم کر رہے تھے اور سیاسی طاقت وہ سیاست دان فراہم کررہے تھے جن کی مغربی پاکستان میں کوئی عوامی طاقت نہیں تھی۔بھٹو صاحب مغربی پاکستان میں واضح اکثریت حاصل کرچکے تھے۔سابق وزیراعظم چوہدری محمد علی کی کوٹھی لاہور میں یہ سرمایہ طاقت مغربی پاکستان کے رہنمائوں نے فراہم کی۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم سچ بولنے سے گریز کرتے ہیں جبکہ اہم موقعوں پر سچ بولنا تاریخ کا دھارا بدل دیتا ہے۔مغربی پاکستان کے اخبارات کے نمائندے وہاں سے یہ اطلاعات فراہم کر رہے تھے ’’ کوئی بنگلہ دیش نہیں بنے گا‘‘ اور ’’ محبت کا زم زم بہہ رہا ہے‘‘۔ میں مشرقی پاکستان کے مختلف علاقوں میں گیا اور انہیں ملنے کے بعد یہ حقیقت واضح ہو ررہی تھی کہ اس ملک کے دو حصےہو جائیں گے۔
محترم قائد آپ نے لاہور گورنر ہائوس میں خان عبدالقیوم خان سے یہ کہا تھا کہ میری صفوں میں پاکستان کو چلانے کیلئے وہ تعداد نظر نہیں آتی جس کیلئے ترقی یافتہ ملکوں کی قیادت کا ہونا ضروری ہے اور پھر ایسا ہی ہوا کہ ہمارے سیاسی ناخدائوں نے اس ملک کو مارشل لائوں کے سپرد کردیا، اور آپ کی بنائی ہوئی اس عظیم مملکت کو قائم نہ رکھ سکے، اب صورتحال پھر وہی ہے الطاف حسین جیسے لیڈر ہم نے پھر اپنی ضرورتوںکے تحت تخلیق کئے جب انہوں نے طاقت پکڑی اور بولنے لگے تو ہم ہی پر برس پڑے،آج پاکستان کی عسکری قوت ہی ہے جو ہمیں اس طوفان سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ الطاف حسین آپ کے بیانات نے جو پاکستانی دفاعی قوت کے خلاف دئیے گئےہیں ،محب وطن لوگوں کے دل زخمی کردئیے ہیں ۔ سارے پاکستان میں پھیلے ہوئے لوگوں کے ساتھ کوئی تعصب نہیں برتا جاتا آپ کے خیالات کو لوگ نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ خدا کے واسطے اس مملکت عظیم اور قوم پر رحم کیجئے اپنے زہر آلودہ بیانات کی تردیدکردیجئے ورنہ ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کرسکو۔ لاکھوں شہیدوں کے خون میں ڈوبا ہوا یہ ملک کسی لالچ کی بنیاد پر قائم نہیں کیا گیا تھا۔ بلکہ قائد محترم نے یہ کہا تھا کہ یہ اسلام کا قلعہ ہوگا اور ایسی ہی بنیادوں کو گرانے کے درپےہیں 190 سال کے بعد ہمیں آزادی نصیب ہوئی جو ہم نے آگ و خون کے دریا پار کرکے حاصل کی۔ الطاف حسین آپ جن لوگوں کی شہہ پر پاکستانی قوم، عساکر پاکستان، دانشوروں کا مذاق اڑاتے ہیں وہ ایک لمحے کیلئے بھی آپ کے خیالات سے اتفاق نہیں رکھتے۔
پاکستانی قوم شدید غم و غصے میں ہے اور یقین رکھتی ہے کہ جو کچھ چھپا یا نشر ہوا ہے وہ خیالات آپ کے نہیں ہیں ۔ خدا کے واسطے مہاجرین پر رحم کریں۔ پاکستان کی زمین تمام لوگوں کیلئے ایک مقدس حیثیت رکھتی ہے، اگر آپ نے اپنے خیالات میں تبدیلی نہ کی تو پاکستانی عوام آپ کو معاف نہیں کریں گے۔ قائد اپنا پاکستان آکر دیکھو۔
تازہ ترین