• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
راولپنڈی کے مصروف ترین علاقے میں بدھ 5اگست 2015 کو تین مسلح افراد دن دیہاڑے سینئر جج طاہر خان نیازی کے گھر میں داخل ہوئے اور فائرنگ کر کے انہیں شہید کر دیا۔ مسلح افراد اپنی کارروائی کرنے کے بعد بہت آسانی سے فرار ہو گئے اور انہیں کسی نے نہیں روکا۔ طاہر خان نیازی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج راولپنڈی کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے ۔ اُن کی شہادت کے دن کو اُن کے اہل خانہ اور اُن کے دیگر عزیز و اقارب کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے لیکن یہ دن پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے ایک اہم فیصلے کے حوالے سے بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ طاہر خان نیازی کی شہادت سے کچھ دیر پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان کا یہ فیصلہ سامنے آیا کہ فوجی عدالتیں برقرار رہیں گی ۔ یہ محض اتفاق ہی ہو سکتا ہے کہ پہلے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا اور بعد میں ایک سینئر جج کا بہیمانہ قتل ہوا لیکن یہ انتہائی حیرت انگیز اتفاق ہے کیو نکہ اس قتل کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہونے والی بحث کا رخ ہی تبدیل ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی یہ سوال پیدا ہو گیا کہ کیا ان حالات میں سول عدالتیں دہشت گردی کے مقدمات چلا سکتی ہیں ‘ جن حالات میں طاہر خان نیازی کو شہید کر دیا گیا ہے ؟سپریم کورٹ کے 17 رکنی فل بنچ نے 18 ویں اور 21ویں ترمیم کے خلاف دائر تمام آئینی درخواستوں کو خارج کرتے ہوئے کثرت رائے سے یہ فیصلہ سُنایا ہے کہ پارلیمنٹ کی منظور کردہ ترامیم کو ختم نہیں کیا جا سکتا اور فوجی عدالتیں برقرار رہیں گی تاہم سپریم کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ وفاقی حکومت کی جانب سے فوجی عدالتوں کو بھیجے جانے والے مقدمات اور فوجی عدالتوں کے فیصلوں پر نظر ثانی کر سکے ۔ 17 رکنی فل بنچ کے 11 فاضل ججوں نے فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت کی اور 6 ججوںنے مخالفت کی ۔ وکلاء برادری کی طرف سے اس فیصلے پر زبردست تنقید کی گئی اور یہ کہا گیا کہ ایک بار پھر ہم نظریہ ضرورت کی طرف چل پڑے ہیں ۔ سینئر وکلاء کے مطابق فیصلے سے آئین اور بنیادی ڈھانچے کی نفی کی گئی ہے اور آئین میں ہمیشہ کے لئے فوجی عدالتوں کا پیوند لگا دیا گیا ہے ۔ سیاستدان اس بات پر خوش ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں پارلیمنٹ کی بالا دستی کو تسلیم کیا گیا ہے ۔ سیاست دانوں کے نزدیک دہشت گردی کے خلاف جنگ کے موجودہ حالا ت میں فوجی عدالتوں کا قیام ضروری ہے ۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین او رپارلیمنٹ کی بالادستی کی سند ہے اور فوجی عدالتیں دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ضروری ہیں جبکہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے فیصلے پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئینی ترامیم پر سپریم کورٹ کا فیصلہ پارلیمنٹ کے مؤقف کی تائید ہے ۔ پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ عدلیہ کی طرف سے پارلیمنٹ کی بالا دستی کا اس طرح کا فیصلہ سامنے آیا ہے اور سیاسی قوتوں کی طرف سے فوجی عدالتوں کو ضروری قرار دیا گیا ہے اور نظریہ ضرورت کو سندجواز عطا کی گئی ہے ۔یہ نہیںکہا جا سکتا کہ پارلیمنٹ نے 21 ویں آئینی ترمیم نہ کی ہوتی تو اُس کے اختیارات کے بارے میں کیا فیصلہ ہوتا۔ ’’یوں ہوتا تو یوں نہ ہوتا اور یوں نہ ہوتا تو یوں ہوتا ‘‘ کی بحث طویل ہو سکتی ہے ۔لیکن ہم دعا کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ کی بالادستی اور نظریہ ضرورت میں کبھی ٹکراؤ نہ ہو ،جو ماضی میں طویل عرصے تک رہا ہے ۔ یہ بھی شاید پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان نے بھی وہی فیصلہ کیا ‘ جس پر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ خوش ہو سکتی ہے۔ماضی میں کئی ایسے فیصلے ہوئے ،جن میں سندھ سے تعلق رکھنے والے ججوں نے اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور منشاء سے انحراف کیا ۔ سپریم کورٹ کے 17 رکنی فل بنچ میں سندھ سے تعلق رکھنے والے تین فاضل جج صاحبان جناب جسٹس انور ظہیر جمالی ‘ جناب جسٹس سرمد جلال عثمانی اور جناب جسٹس مقبول باقر رضوی شامل تھے،جن کا عوام اور شعبہ قانون سے تعلق رکھنے والی برادری میں بہت احترام کیا جا تا ہے ۔ اگر یہ 3فاضل جج صاحبان فوجی عدالتوں کی مخالفت کرنے والے 6 جج صاحبان کا ساتھ دیتے تو فوجی عدالتوں کی مخالفت کرنے والے جج صاحبان کی تعداد 9 ہو جاتی اور اس طرح فوجی عدالتوں کو برقرار رکھنے کا فیصلہ سپریم کورٹ کی جانب سے 9۔ 8سے مسترد ہو جاتا ۔ایسا بھی نہیں ہوا۔دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے جج صاحبان نے فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کی ۔ فوجی عدالتوں کی حمایت اور مخالفت کرنے والے جج صاحبان نے اپنی دانست کے مطابق فیصلہ کیا ہے مگر اس فیصلے کے پاکستان کے سیاسی حالات پر جو اثرات مرتب ہوں گے ، وہ کسی کی دانست کے پابند نہیں ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ فوجی عدالتوں کی حمایت میں فیصلہ کرنے والے جج صاحبان کے پیش نظر یہ بات ہو کہ دہشت گرد بہت طاقتور ہیں اورسول کورٹس کے جج صاحبان کو وہ سکیورٹی حاصل نہیں ہے ، جو فوجی افسران کو حاصل ہے ۔ ان جج صاحبان کو یہ امید ہو سکتی ہے کہ فوجی عدالتوں کا معاملہ صرف 2 سال کا ہے اور ان 2 سالوں میں دہشت گردی پر قابو پانے کے بعد حالات بہتر ہو جائیں گے ۔ انہوں نے شاید یہ بھی سوچا ہو کہ سول کورٹس کے جج صاحبان کو فی الحال خطرات میں نہ ڈالا جائے ۔ یہ ہمارے اندازے ہیں۔اپنے ان فیصلوں کے بارے میں جج صاحبان خود ہی زیادہ بہتر جانتے ہوں گے کہ انہوں نے کن باتوں اور کن حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فوجی عدالتوں کو برقرار رکھنے حمایت کی ہے ۔ جناب جسٹس مقبول باقر رضوی پر کراچی میں دہشت گردوں کا حملہ ہو چکا ہے ،جس میں وہ بال بال بچے ہیں لیکن ان کے کئی محافظ شہید ہو گئے ہیں ۔ طاہر خان نیازی کا حالیہ قتل بھی ان حالات کی نشاندہی کرتا ہے ، جن میں فوجی عدالتوںکے قیام کو ضروری تصور کیا جا رہا ہے ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عدالتوں کے فیصلوں سے دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے ؟ پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ڈرون حملے بھی ہوتے ہیں ، طیاروں سے بمباری بھی ہوتی ہے اور مقابلوںمیں بھی دہشت گرد مارے جاتے ہیں ۔ کیا ریاست اور اس کے اداروں کی ان کارروائیوں کے بعد بھی فوجی عدالتوں کی ضرورت ہے اور کیا سول عدلیہ کو وہ سکیورٹی فراہم نہیںکی جا سکتی ، جو فوجی عدالتوں کے افسران کو میسر ہے ؟یہ بھی ایک اہم سوال ہے اور اس طرح کے کئی دیگر سوالات بھی ہیں ۔ہر طرح کے سوالوں کا جواب نظریہ ضرورت نہیں ہے ۔ ماضی میں ہر سوال کا جواب نظریہ ضرورت تھا ۔ اب بھی ایسا کیا گیا تو تاریخ کا سفر آگے کی طرف ہو گا لیکن ہمارا سفر الٹے پاؤں ہو گا ۔ دہشت گردی خود سیاست ہے ، دہشت گردی خود معیشت ہے ، دہشت گردی ایک مخصوص مفاد ہے ، جس کا دنیا کے طاقتور حلقے تحفظ کرتے ہیں اور دہشت گردی ان طاقتور حلقوں کی از خود ایک بہت بڑی ضرورت ہے ، جس نے دنیا بھر میں نظریہ ضرورت کو جائز ثابت کیا ہے ۔ پاکستان کی مسلح افواج اور دیگر سکیورٹی ادارے ، سیاست دان اور پوری قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ’’ ایک پیج ‘‘ پر ہیں اور وہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتے ہیں ۔ فوجی عدالتوںکی حمایت اور مخالفت کرنے والے ججوں کی دانست اور نیت پر نظریہ ضرورت کے تحت اس وقت شک نہیں کیا جا نا چاہیے اور یہ دعا کرنی چاہیے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہو ، جو نظریہ ضرورت کا ماخذ ہے اور ہمیں تاریخ کا سفر الٹے قدموں نہ کرنا پڑے ۔ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ عہد جدید کی دہشت گردی کو اس عہد کے حقیقی تضادات نے جنم نہیں دیا بلکہ مخصوص مفادات نے مصنوعی طور پر اسے تخلیق کیا ہے ۔ بس دعا کرنی چاہیے کہ اس دہشت گردی کا حقیقی خاتمہ ہو۔
تازہ ترین