• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریکِ انصاف کے استعفوں کا ڈرامہ بالآخر اختتام کو پہنچا۔ مولانا فضل الرحمن اور متحدہ قومی موومنٹ نے آئین کے آرٹیکل 64(2) کے تحت، تحریکِ انصاف کے ارکان ِ اسمبلی کو Deseatکرنے کی قراردادیں واپس لے لیں۔ اگرچہ اس کے لئے خود وزیراعظم کوبھی خاصی کوشش کرنا پڑی، جناب اسپیکر نے بھی اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈالا۔ انہیں اس کے لئے الطاف حسین کو فون کرنے میں بھی عار نہ تھی۔ یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔زیادہ دِن نہیں ہوئے جب پاکستان میں ’’مہاجروں ‘‘ کی ’’مظلومیت ‘‘کا رونا روتے ہوئے الطاف حسین نے نہ صرف ہندوستان کی غیرت کو آوازدی بلکہ یو این او، وائٹ ہاؤس اور نیٹو کو بھی مداخلت کے لئے پکارا تھا۔ لندن میں 23سال سے مقیم مہاجر لیڈر کا رویہ یوں تو ایک عرصے سے ہر محب ِ وطن پاکستانی کے لئے دلآزاری کا باعث چلا آرہا ہے لیکن چوہدری نثار کے بقول ، اس بار تو وہ آخری حد بھی عبور کر گیا تھا۔ قائد تحریک کا یہ رویہ ، پاکستان میں خود تحریک کے سیاسی چہروں کے لئے روز افزوں مشکلات کا باعث بنتا جا رہا تھا۔ ڈاکٹر ہما بقائی نے دریا کو کوزے میں بند کردیا، وزیر اعظم نے مولانا کو رام کر لیا تھا لیکن ایم کیو ایم کا معاملہ مختلف تھا۔ یہاں لندن میں مقیم لیڈر کی منظوری ضروری تھی، جس کے لئے خود اسپیکر صاحب نے زحمت فرمائی۔ بقول ان کے ، الطاف حسین کے حالیہ بیانات کے باعث سیاسی فضا بہت بوجھل تھی، چنانچہ ان کے بعض رفقا کی رائے تھی کہ انہیں الطاف سے بات نہیں کرنی چاہیے، لیکن ان کے خیال میں ، ایوان کے کسٹوڈین کی حیثیت سے ایک ایک رُکن کے استحقاق کا دفاع، اُن کا فرض ہے۔ صاف گو شخص نے اپنے مخاطب سے صاف صاف کہا کہ قاتلوں اور دہشت گردوں کے خلاف برسرِ پیکار افواجِ پاکستان ، رینجرز اور پولیس پر حملہ درحقیقت پاکستان پر حملہ ہے جس پر پاکستانی عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس پر الطاف حسین کا کہنا تھا کہ جناب اسپیکر اُن کی طرف سے یہ بات کہہ دیں کہ’’ افواجِ پاکستان اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اِداروں کے جوان ہمارے بھی بیٹے ہیں اور ہم بھی ان سے اُتنی ہی محبت اور اُتنا ہی احترام کرتے ہیں ‘‘۔ جمہوریت کے تحفظ اور جمہوری ایوان کے استحقاق کے لئے جناب اسپیکر کا جذبہ اپنی جگہ، لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ ان کی یہ وضاحت ان لوگوں کو کس حد تک مطمئن کر پائی ہوگی جن کے خیال میں جناب اسپیکر کو اس کے لئے ایم کیو ایم کی پارلیمانی قیادت سے گفتگو پر ہی اکتفا کرنا چاہیے تھا، اس کے لئے لندن میں موجود اپنے قائد سے مشاورت اور اس کی منظوری خود فاروق ستار اور رابطہ کمیٹی کا کام تھا۔
آئین کے آرٹیکل 64(2) کے تحت ایوان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ رُخصت (چھٹی کی درخواست) کے بغیر مسلسل 40روز تک اجلاس سے غیر حاضر رہنے والے رُکن کی رُکنیت ختم کرسکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور متحدہ کی قراردادیں اِسی شق کے تحت تھیں۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی سمیت ایوان میں موجودہ باقی سبھی جماعتیں، تحریکِ انصاف کے ارکان کو ’’ڈی سیٹ‘‘ کرنے کی مخالف تھیں کہ اِن کے خیال میں یہ معاملہ ملکی سیاسی فضا میں نئی بدمزگی اور نیا تکدّ ر پیدا کرنے کا باعث بن سکتا تھا۔ ایوان میں رائے شماری کی صورت میں ان قراردادوں کی منظوری کا کوئی امکان نہ تھا کہ ایم کیوا یم کے 24 اور جے یو آئی کے 13ووٹوں کے ساتھ یہ تعداد صرف 37بنتی تھی لیکن قراردادوں پر بحث کے دوران، ان کے محرکین کی طرف سے تحریک انصاف کے خلاف دھواں دھار تقاریر ہوتیں، (خواجہ آصف کی معرکتہ آرا تقریر یاد فرمائیں، ’’شرم بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ حیا بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ Graceبھی کوئی چیز ہوتی ہے‘‘)۔وزیراعظم اور قائد حزبِ اختلاف سمیت تمام پارلیمانی قیادت قومی سیاسی فضا کو اس بدمزگی اور ایوان کو ’’ڈویژن‘‘ سے بچانا چاہتی تھی۔ بالآخر یہ معاملہ بحسن و خوبی انجام کو پہنچا
کام اچھا ہے وہی جس کا کہ مآل اچھا ہے
یہ سب کچھ تو آئین کے مطابق ہوا لیکن اسی آرٹیکل کی شق(1) بھی ہے، جس کے تحت کسی رکن کا استعفیٰ منظور یا مسترد کرنا اسپیکر کا صوابدیدی اختیار نہیں۔ استعفیٰ موصول ہونے پر اسپیکر آفس کا کام پوسٹ آفس سے زیادہ نہیں کہ وہ اِسے الیکشن کمیشن کو بھجوا دے اور کمیشن اس نشست کو خالی قرار دے کر یہاں ضمنی انتخاب کا اہتمام کرے۔ البتہ اسپیکر فاضل رُکن سے یہ تصدیق ضرور کرسکتا ہے کہ استعفیٰ برضا و رغبت لکھا گیا اور یہ کسی دباؤ یا دھمکی کا نتیجہ نہیں۔ خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف کی حکومت تھی اوراس کے صوبائی اسمبلی کے ارکان استعفیٰ دینے کو تیار نہ تھے (انہیں وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی اشیر باد بھی حاصل تھی)چنانچہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے ارکان کو استعفوں سے مستثنیٰ کردیا گیا۔ لیکن قومی اسمبلی کے ارکان کے لئے یہ استثنیٰ نہیں تھا۔ اس تضاد پر یہاں سے قومی اسمبلی کے تین چار ارکان نے استعفیٰ دینے سے انکار کردیا۔ جناب شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر عارف علوی اور شیریں مزاری کے ساتھ اسپیکر چیمبر پہنچے اور استعفوں کا لفافہ چھوڑ آئے (اِن میں سے بعض استعفے اسپیکر کی بجائے چیئرمین پی ٹی آئی کے نام تھے اور ظاہر ہے، ان کی قانونی حیثیت نہیں تھی)۔ اسپیکر صاحب کا مؤقف تھا کہ وہ ’’مستعفی‘‘ ارکان کو فرداً فرداً بلاکر استعفوں کی توثیق کرائیں گے(کہ استعفیٰ رضاکارانہ ہے؟ )اسپیکر کے لئے یہ تسلی ضروری تھی لیکن شاہ محمود، عارف علوی اور شیریں مزاری تو خود استعفوں کا لفافہ لے کرگئے تھے، انہوں نے میڈیا کے سامنے اس کا واشگاف اعلان بھی کیا تھا۔ کیا اِن سے بھی توثیق کرانے کی ضرورت تھی؟ اس لفافے میں جاوید ہاشمی کا استعفیٰ بھی تھا۔ ’’باغی‘‘ کی پریس کانفرنس اور ایوان میں تقریرنے بھی سارا کھیل اُلٹ دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ استعفیٰ سے لاتعلقی کا اعلان بھی کرسکتا تھا لیکن اس کے ضمیر کو یہ گوارا نہ تھا۔ اس نے ایوان میں انکشافات سے بھرپور تقریر میں ، اپنے استعفے کی بھی توثیق کی اور ایوان سے چلا گیا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ ایوان میں تمام سیاسی جماعتیں آئین اور جمہوریت کے ساتھ اپنی وابستگی کے اعلان کے ساتھ، دھرنا سازش پر تحریکِ انصاف اور اس کے قائد کو ہدف ِ تنقید بھی بنا رہی تھیں۔ اس پر بیان ِ صفائی کیلئے جناب شاہ محمود قریشی ایوان میں تشریف لائے۔ اسپیکر صاحب کے استفسار کے باوجود، اپنے استعفے کی توثیق کے بغیر ایوان سے رُخصت ہوگئے۔ ادھر سیاسی مفاہمت کے لئے سرگرم ِ عمل جناب سراج الحق کا سیاسی جرگہ بھی استعفے قبول نہ کرنے پر زور دے رہا تھا۔ خود پی ٹی آئی بھی اِسے صرف ایک پولیٹیکل اسٹنٹ کے طور پر باقی رکھنا چاہتی تھی۔ آئین کے آرٹیکل64(1) کا تقاضا اس سے مختلف تھا لیکن سیاسی مصلحت کچھ اور تقاضا کر رہی تھی۔ ایک بار پھر نظریۂ ضرورت بروئے کار تھا۔ اِس سے پہلے یہ آمریتوں کے کام آیا، اس باریہ جمہوریت کی ضرورت بن گیا تھا۔
تازہ ترین