• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں موسموں کے حوالے سے گزشتہ چند سال کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو اس سال کو بڑی تبدیلی سے دیکھا جاسکتا ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی میں موسمی تبدیلی کی وجہ سے کافی اموات ہوئیں۔ سندھ کی سرکار اس معاملےمیں مکمل بے بس ہی رہی۔ گرمی اور حبس کے لئے دعا کے علاوہ کچھ اور کرنا ممکن نہ تھا۔ سندھ کے سابق وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے بارش کے بارے میں سوچا مگر دعانہ کرسکے۔ اس زمانے میں ان کے اپنے اتنے لپڑے تھے کہ وہ اپنی پریشانیوں کے لئے دعا کرتے رہ گئے۔ کراچی اور سندھ کا موسم قدرے بہتر ہوتا جارہا ہے۔ موسم کی سختی نے ہی سابق صدر محترم آصف علی زرداری کو دبئی اور پھر لندن جانے پر مجبور کردیا۔ سندھ دھرتی کی ادی فریال تالپور بھی بھائی کی دیکھ بھال کے لئے ولایت تشریف لے گئی۔ جناب آصف علی زرداری کا سارا خاندان لندن میں تھا اور گھنٹوں ملکی اور خاندانی سیاست پر ریاضت کی گئی۔ پیپلز پارٹی کاجوان بلاول بھٹو سندھ کے نئے مرد حر سے متفق نہ ہوسکا۔ اس کو پارٹی میں تنگی داماں کا احساس ہے۔ امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر محترمہ شیریں رحمٰن جو کبھی صحافیوں کے قبیلے کی اہم فرد تھیں۔ ملکی سیاست کی نذر ہوگئیں۔ ان کا تجربہ نہ بے نظیر کے کام آیا اور نہ ہی پارٹی کے۔ مگر امریکہ کی سفارت نے ان کی حیثیت مسلمہ کردی۔ وہ آجکل بلاول زرداری کی سیاسی اور سماجی تربیت کررہی ہیں۔ وہ خاصی مشقت سے اس کام کو کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ وہ نوجوان کو دنیا بھر میں ہونے والی سماجی اور معاشی تبدیلیوں سے بھی آگاہ کررہی ہیں۔ ان کی تربیت کا نتیجہ آنے والے دنوں میں دیکھا جاسکے گا۔
پاکستان کی سیاست کی نئی ریت یہ ہے کہ سیاست دان اور اشرافیہ جب اقتدار میں نہ ہوں تو ملک سے باہر بیٹھ کر سیاست اور کاروبار کرتے ہیں۔ اب آصف علی زرداری ہوں یا ان کے منظور نظر چیف منسٹر سندھ وہ احکامات حاصل کرنے کے لئے ملک سے باہر جاتے ہیں۔ کراچی اور سندھ میں جو سیاسی ہلچل ہورہی ہے وہ عوام کے مفاد میں تو نظر آتی ہے۔ لوگوں کو اندازہ ہورہا ہے کہ سیاست اور جمہوریت ملک کے دیگر اداروں کی طرح عوام کی خدمت کرتے نظر نہیں آتے۔ اس وقت جمہوریت کے تناظر میں قومی اسمبلی میں اور سینیٹ میں بہت ہی شوروغل ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔ ان کو جمہوریت سے پیار تو ہے مگر ان کو اندازہ نہیں کہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں میں کوئی بھی جمہوری طور طریقہ نہیں ہے۔ ایسی سیاسی جماعتوں سے جمہور کیا امید لگا سکتے ہیں۔ اس وقت جمہوریت خود بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے مگر جمہوریت کا جو روپ دکھایا جارہا ہے وہ عوامی امنگوں کے مطابق نہیں ہے۔
اس وقت ملک کے طول و عرض میں کاروباری لوگ بجٹ میں نئے ودہولڈنگ ٹیکس پر مسلسل ہڑتال کی منصوبہ بندی کرتے نظر آتے ہیں۔پاکستان کے وزیر خزانہ ملک سے باہر آئی ایم ایف سے مسلسل مذاکرات میں مصروف ہیں اور وہ اس ٹیکس کو ختم کرنے پر تیار نہیں۔ کاروباری لوگوں کا اعتراض درست ہے۔ وہ حکومت کو مجبور بھی کرسکتے ہیں۔مگر عام آدمی کا کیا قصور ہے۔ ایک شخص کی اتنی آمدنی بھی نہیں کہ وہ ٹیکس دے سکے۔ مگر اس پر بھی اس ٹیکس کا نفاذ ہوگا۔ اس وقت سرکار عوام کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے جو حربے استعمال کررہی ہے وہ بنیادی حقوق کے بھی منافی ہیں۔ اس جمہوریت کا حق ہے کہ صاحب اقتدار جو مرضی ہو وہ کرلیں۔ آئی ایم ایف چاہتی ہے کہ ملک میں صاحب نصاب لوگ کم از کم ٹیکس ضرور دیں۔ مگر وزیر خزانہ کی منطق سب سے نرالی ہے۔ پھر آئی ایم ایف کو ملک کے اندر بھی آکر معلوم کرنا چاہئے کہ ان کے قرضوں نے عوام کی زندگی کتنی تنگ کررکھی ہے۔ ایک طرف عام شہری کے لئے ٹیکس کا نمبر لینا مشکل ہے پھر نوکر شاہی مزید مشکلات پیدا کردیتی ہے کوئی عام شخص اپنا ٹیکس ریٹرن ذاتی حیثیت میں جمع نہیں کرا سکتا۔ مرکزی ٹیکس وصول کرنے والے محکمہ میں نوکر شاہی کا راج ہے۔ نہ ان کے پاس تربیت ہے اور نہ ہی ٹیکس کا حساب رکھنے کا موثر نظام اس سلسلےمیں اشتہار بازی بہت ہے۔ اگر ان اشتہارات کے مطابق رابطہ کیا جائے تو تسلی بخش جواب تو دور کی بات ہے۔ کوئی جواب دینے والا ایسا نہیں جس کو اندازہ ہو کہ عوام کی کیسے رہنمائی کی جائے۔ ایسے میں لوگ سرکار اور جمہوریت دونوں سے مایوس نظر آتے ہیں پھر اسمبلی میں موجود حزب اختلاف اس وقت بھی جمہوریت کی کشتی کو بچانے میں شدت سے مصروف ہے۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کو کپتان عمران کی جماعت کی فکر تو ہے مگر عوام کے ساتھ جو ہورہا ہے اس پر ان کی توجہ بالکل نہیں اور نہ ہی ان کو اندازہ ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضے ملکی معیشت اور ترقی کے لئے وقتی علاج ضرور ہے مگر اس سے عوام کی حیثیت کم ہورہی ہے۔
ہماری قومی اسمبلی نے چند دن پہلے انصاف اور قانون کے تناظر میں فوجی عدالتوں کے بارے میں مختصر سے عرصے کے لئے قانون سازی کی تھی جس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے فوجی عدالتوں کو تحفظ دیا اور ان پر نگرانی کا بھی حکم سنایا۔ اس وقت ملک میں دہشت گردی اور کرپشن کا بہت شور ہے۔ اس سلسلے میں ملکی ادارے اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں اندرون ملک پولیس کا محکمہ شہروں میں دہشت گردوں پر نظر رکھنے میں ناکام سا نظرآتا ہے اور کچھ ایسا ہی معاملہ کرپشن کے معاملات کا ہے۔ نیب کا ادارہ شور تو بہت کرتا ہے مگرانہوں نے جو رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے۔ وہ کرپٹ لوگوں کی دہشت کی وجہ سے بے بس ہے۔ اب اگر کرپشن اور دہشت گردی کے مقدمات فوجی عدالتوں میں گئے تو فیصلہ کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا اور ان کی نگرانی سپریم کورٹ بھی کرسکے گی۔ مختصر عرصہ کی یہ کارروائی پاکستان کی تقدیر بدل دے گی۔ اگر دہشت گردوں اور کرپٹ عناصر کو سزا ملنے لگ گئی تو کوئی وجہ نہیں ملک کی معیشت بھی بدحالی سے نکل کر بہتری کی جانب رواں ہو جائے۔
میاں نوازشریف سرکار قومی ایکشن پلان کو بادل نخواستہ ملک میں نافذ کرتی نظر آرہی ہے۔ سندھ میں اس پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے۔ خیبرپختونخوا میں بھی تبدیلی کے آثار نمایاں ہیں۔ بلوچستان میں معاملات کو مشاورت سے طے کرنے کے لئے منصوبہ بندی میں پیش رفت نظر آرہی ہے۔ صوبہ پنجاب میں قومی ایکشن پلان کا معاملہ ذرا سست نظر آتا ہے۔ اب قومی ایکشن پلان کے مطابق پنجاب کے معاملات پر توجہ ازحد ضروری ہے۔ اگرچہ پنجاب کے وزیراعلیٰ اس معاملے میں متعلقہ اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کے خواہش مند ضرور ہیں۔ مگر ان کی صحت ان کو یکسوئی فراہم نہیں کررہی۔ اب امید ہے کہ سپریم کورٹ کے تازہ اقدامات کے بعد پنجاب میں لوٹ مار کی سیاست پر نظر رکھی جاسکے گی اور ترقی کا دائرہ بڑے شہروں سے نکل کر پورے پنجاب میں نظر آسکے گا۔ پولیس گردی اور سرکاری عدالتوں میں تبدیلی نظر آسکے گی۔ جمہوریت کا تصور قبضہ گروپ کا سا نہ ہو۔ بلکہ عوام کو گنا جائے نہ کہ تول کر مول لگایا جائے۔ امید بڑی ہے کہ عوام کی قسمت بدلنے کا وقت بس آنا ہی چاہتا ہے! عوام کی گری آواز کو فٹ پاتھ سے اٹھانے کا وقت آگیا ہے۔ جاوید شاہین کی یہ نظم شاید آج کے حالات کے بارے میں لکھی گئی تھی؎
میں اپنی گری ہوئی آواز
فٹ پاتھ سے اٹھانے لگاتو اس نے
اپنا بھاری بوٹ اس پر رکھ دیا
وہ مجھے میری چیز اٹھانے نہیں دیتا
اس کی شناخت طلب کرتا ہے، مجھے چپ دیکھ کر!
چوری کے الزام میں پولیس کے حوالہ کرنے کی دھمکی دیتا ہے
اب میں اسے کیسے یقین دلائوں کہ فٹ پاتھ پر پڑی ہوئی!
گونگی آوازوں کے درمیان، بولنے والی آواز
میرے ہی حلق سے گری تھی
تازہ ترین