وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی طرف سے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اےاور نیب کی صوبے میں حالیہ کارروائیوں پر احتجاج سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ سندھ خصوصاً کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف جاری ٹارگٹڈ آپریشن کو اپنے ’’ ٹریک ‘‘ پر رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ اگر ایک مرتبہ یہ آپریشن اپنے ٹریک سے اتر گیا تو یہ پاکستان کی تاریخ کا بہت بڑا المیہ ہو گا ۔ ایف آئی اے اور نیب کی سندھ میں حالیہ کارروائیوں پر وزیر اعلیٰ سندھ کے تحفظات پر سنجید گی سے غور کرنا چاہئے ۔ ان تحفظات پر اس طرح کے عامیانہ ریمارکس نہیں دئیے جا سکتے کہ وزیر اعلیٰ سندھ کرپشن کے خلاف مہم میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں ۔ ایسے ریمارکس مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں ۔ کرپشن کے خاتمے اور کرپٹ لوگوں کے خلاف کارروائی کے لئے وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں کے قوانین بھی موجود ہیں۔ ان قوانین میں انسداد بدعنوانی اور احتساب کے اداروں کے اختیارات اور فرائض کا تعین کردیا گیا ہے۔ اگر وزیراعلیٰ سندھ یہ کہہ رہے ہیں کہ تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہئے تو وہ غلط نہیں کہہ رہے ہیں۔ تحفظ پاکستان آرڈیننس اور نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ کے بعد ایف آئی اے، نیب اور دیگر وفاقی اداروں کو ملک بھر میں کچھ خصوصی اختیارات حاصل ہوگئے ہیں جن کا مقصد دہشت گرد تنظیموں اور دہشت گردوں کو جاری فنڈنگ کو روکنا، دہشت گردوں کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کو گرفت میں لانا ہے۔ لیکن ان اختیارات کو استعمال کرنے کیلئے بھی کچھ حدود متعین ہیں۔ یہ بات بھی مدِنظر رہنی چاہئے کہ کرپشن کا ہر معاملہ دہشت گردی سے جڑا ہوا نہیں ہوتا ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد سے لوگ اس ملک کو لوٹ رہے ہیں اور کرپشن پاکستانی معاشرے کے رگ و پے میں سرایت کرچکی ہے لیکن ہر کرپٹ آدمی دہشت گرد نہیں ہوتا ہے ۔ بے شمار لوگ پاکستان کو لوٹ کر مغربی ممالک میں اپنے اثاثے اور جائیدادیں بناکر بیٹھے ہیں اور عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن وہ ان کارروائیوں سے بچے ہوئے ہیں جو کچھ مبینہ کرپٹ لوگوں کے خلاف آج دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر ہو رہی ہیں۔
18 ویں آئینی ترمیم کے بعد اینٹی کرپشن سے متعلق امور صوبوں کو منتقل ہو گئے ہیں۔ آئین کے مطابق صوبوں کو حقیقی صوبائی خود مختاری دینے کے لئے ضروری ہے کہ صوبوں میں احتساب کے اداروں کو مضبوط کیا جائے ۔ 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کی طرف سے یہ مطالبہ بھی کیا جارہا ہے کہ وفاقی سطح پر نیب کو ختم کیا جائے اور اس ادارے کی صوبوں کی سطح پر ازسرِنو تشکیل کی جائے لیکن جب تک یہ مکمل نہیں ہوتا تب تک نیب اور وفاقی اداروں کو موجودہ قوانین کے تحت اپنے دائرے میں رہ کر اپنے فرائض انجام دینا چاہئیں۔ وزیراعلیٰ سندھ کا یہ مؤقف بھی غلط نہیں ہے کہ اگر کوئی گناہ سر زد ہوتا ہے تو پہلے اُس کی ایف آئی آر درج ہونی چاہئے۔ کسی سرکاری ادارے کے دفتر چھاپہ مارنے سے قبل اس ادار ے کی اتھارٹی کو آگاہ کرنا لازمی ہے اور دفتر کا ریکارڈ قبضے میں لینے کے لئے بھی کوئی قانونی طریقہ ہوتا ہے لیکن رینجرز کے بعد ایف آئی اے اور نیب نے سندھ میں جو کارروائیاں کی ہیں ان کے حوالے سے سندھ حکومت اور متعلقہ اداروں کے سربراہان بے خبر رہے اور انہیں میڈیا کے ذریعہ پتہ چلاکہ فلاں دفتر پرکسی وفاقی ادارے نے چھاپہ مارا ہے۔ اس پر سندھ حکومت نے احتجاج کیا ہے تو اُسے یہ کہہ کر مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ سندھ حکومت کرپٹ ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف اب تک ہونے والے ٹارگٹڈ آپریشن میں سندھ حکومت نے مثالی تعاون کا مظاہرہ کیا ہے۔ آپریشن کی حکمت عملی اپیکس کمیٹی طے کرتی ہے اور سندھ حکومت اُس پر مکمل عمل درآمدکویقینی بنانے کی کوشش کرتی ہے ۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی حکمت عملی طے کرنے میں سندھ سمیت وفاقی اور دیگر صوبائی حکومتوں کا کوئی کردار نہیں ہے ۔ جمہوری حکومتیں صرف اس حکمت عملی پرعمل درآمدکرنے والے ادارے بن گئی ہیں ۔اگر دہشت گروں کوفنڈنگ روکنے کے نام پرکرپشن کے خلاف اس طرح کی مہم چلائی گئی اور منتخب حکومتوں کا دائرہ تنگ کر دیا گیا تو آپریشن بھی متاثر ہوسکتا ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کی فوج اور دیگر سیکورٹی ادارے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں انتہائی اہم کردار اداکررہے ہیں اور موجودہ فوجی قیادت کے عزم کی وجہ سے اس جنگ میں خاطر خواہ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ سیاسی قوتیں بھی انتہائی نیک نیتی کے ساتھ اس جنگ میں اپنے اداروں کے شانہ بشانہ اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ پاکستان کے عوام بھی اس جنگ میں حکومت اور سیکورٹی اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں ۔ دہشت گردوں کے خلاف مختلف آپریشنز میں سوات اور دیگر علاقوں سے لاکھوں افراد نے نقل مکانی کی اور بے شمار مصائب کا سامنا کیا۔ پوری قوم اس جنگ میں متحد ہے۔ کوشش کی جائے کہ یہ اتحاد اور ہم آہنگی برقرار رہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ اور کرپشن کے خلاف مہم کو اس طرح گڈ مڈ نہ کیاجائے کہ سویلین حکومتوں کی اتھارٹی متاثر ہو اور وہ اپنی عمل داری قائم کرنے میں مشکلات محسوس کریں۔ سندھ میں وفاقی اداروں کی کارروائیوں سے سندھ کی بیورو کریسی میں مایوسی اور خوف و ہراس پیدا ہوا ہے اور اس کا سندھ حکومت پر اعتماد ختم ہو گیا ہے ۔ سندھ حکومت کے افسران اور اہل کار یہ سمجھتے ہیں کہ سندھ حکومت انہیں تحفظ نہیں فراہم کر سکتی ہے اور نہ ہی قانونی طور پر انہیں کوئی تحفظ حاصل ہے ۔ لہٰذا ان قوتوں کے ساتھ معاملات طے کئے جائیں یا ان حلقوں کی اتھارٹی مانی جائے ، جن کے آگے حکومت سندھ بھی بے بس ہے ۔ اگر کوئی شخص یا ادارہ دہشت گردوں کی مالی معاونت یا سرپرستی کر رہا ہے اور ہمارے سیکورٹی اور احتساب کے اداروں کے پاس ٹھوس شواہد بھی موجودہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ اس حوالے سے سویلین اتھارٹی کو اعتماد میں لیں اور پھر قانونی طریقہ کار کے مطابق کارروائی کریں تاکہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن ہم آہنگی کے ساتھ آگے بڑھ سکے ۔ غلط فہمیوں اور بد اعتمادی کی صورت حال میں یہ خدشہ موجود ہے کہ آپریشن مخالف قوتیں آپریشن کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کریں اور آپریشن کو نقصان ہو۔ اس صورتحال سے بچنا چاہئے۔