• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جمعرات کے روز پارلیمنٹ کا اجلاس مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک جاندار مشترکہ حکمت عملی بنانے کے لئے بلوایا گیا تھا اس وقت شدید ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگیا جب ماضی کی دو حریف پارٹیاں پی پی پی اور ن لیگ پاناما پیپرز کی تحقیقات کے حوالے سے اٹھائے گئے سوالات پر آپس میں اس طرح الجھ پڑیں کہ ایوان میں کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی اور یوں لگتا تھا کہ یہاں ہر شخص کو جو جی میں آئے کہنے کی آزادی ہے یہ شور شرابا اس وقت شروع ہوا جب سینیٹر اعتزاز احسن کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ قومی اتحاد اور یکجہتی کی خاطر پاناما پیپرز میں بالواسطہ طور پر آنے والے اپنے نام کو صاف کرائیں اس پر مسلم لیگ ن کے سینیٹر شاہد اللہ بھڑک اٹھے اورانہوں نے پی پی پی کے رہنما اعتزاز احسن پر خالصتان موومنٹ کو کچلنے کے لئے بھارتی حکومت کو سکھ باغیوں کی فہرستیں فراہم کرنے اور راجیو گاندھی کی اسلام آباد میں آمد کے موقع پر وفاقی دارالحکومت سے کشمیر کے حوالے سے لگائے گئے سائن بورڈز ہٹا دینے کا الزام لگایا ۔بس پھر کیا تھا دونوں طرف سے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کی جانے لگی معاملہ کچھ فری فار آل کا سا ہوگیا جس میں پی پی پی کی خواتین ارکان اسمبلی بھی میدان میں آگئیں اور حکومت مخالف نعرے لگانے شروع کردیئے۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ملک کو بھارت کی جانب سے مختلف قسم کے الزامات اور جنگ کی دھمکیوں کا سامنا ہے ہم اپنے روایتی حریف کا سیاسی سفارتی اور معاشی محاذ پر مقابلہ کرنے کے لئے کوئی ٹھوس اور موثر حکمت عملی طے کرنے کے لئے منعقد کردہ اجلاس کو قومی اتحاد کی بجائے انتشار کا مظہر کیوں بنا رہے ہیں باہمی توتکار کا یہ منظر پیش کرنے والے ہمارے قابل احترام سیاسی رہنما خود ہی فیصلہ کریں کہ وہ 18 کروڑ پاکستانی عوام کے سامنے جو مثال پیش کررہے ہیں اس سے ملک و قوم کو کیا فائدہ اور کیا نقصان پہنچا؟

.
تازہ ترین