• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
COMEBACK(کم بیک) کا سادہ اردو ترجمہ تو ’واپس آنا‘ ہی ہوتاہے لیکن فلمی دنیا ،سیاست اورصحافت میں اس اصطلاح کے معنی اورمفہوم خاصے وسیع ہوجاتے ہیں۔اپنی صحافتی زندگی کے فلیش بیک پر نظر ڈالوں تومجھے وہ دن یاد آرہاہے جب میں روزنامہ جنگ لاہور سے رخصت ہواتھا ۔آج لگ بھگ 14سال بعد اس ادارے سے دوبارہ وابستہ ہوا ہوںتو اپنی کہانی بھی ارنسٹ ہیمنگ وے جیسی لگتی ہے جس سے مشہور ناول( The Old Man and the Sea ) منسوب ہے۔ اپنے ارادوں اور فیصلوں کے حوالے سے جیمز جوائس کے ناول( Ulyssess)کے ہیرو کے کردار سے بھی متاثر ہوں جس نے اپنے آپ کو پُر خطر مسافتوں پر روانہ کرلیاتھا۔ اپنی زندگی کے اسکرین پلے اور درج بالا کہانیوں میں فرق یہ ہے کہ دونوں کے ہیروز اولڈ تھے جبکہ میں نے بھر ی صحافتی جوانی میں بن بانس لیاتھا۔ ان چودہ برسوں میں کیاکھویاکیاپایا اس کا تذکرہ ہوتارہے گا ۔ برقی اور اخباری صنعت کا ایماندارانہ تجزیہ کیاجائے تو مارکیٹ میں براجمان پچانوے فیصد کارکن روزنامہ جنگ اور جیو سے تربیت یافتہ ہیں۔ انہی میں سے بعض نے صحافت کی قدیم روایات اورجدید تقاضوں سے ہم آہنگ مربوط اور مکمل نظام کا چربہ تیار کرتے ہوئے دوسرے اداروں کی بنیاد رکھی۔ یہ حقیقت ہے اور اسے جھٹلایانہیں جاسکتاکہ’’ صحافتی اسٹاک ایکسچینج‘‘ اور گلشن کے کاروبار میں پیشہ ورانہ مقابلہ ،مسابقہ اور خوشحالی اسی کے دم قدم سے ظہور پذیر ہوتی رہی ۔میر تقی میر نے کہاتھاکہ
جلوہ ہے مجھی سے لب ِ دریائے سخن پر
صد رنگ مری موج ہے ،میں طبع ِ رواں ہوں
اپنے صحافتی سفرکا تذکرہ کروں تو میرے صحافتی ’’کولمبس‘‘ حامد میر ہیںجوپنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں میرے کلاس فیلوتھے۔ یہ 88کا زمانہ تھا ، اخبار کی دنیا میں ’’جنگ‘‘ سب سے اچھا ادارہ سمجھا جاتا تھا جو اپنے ورکرز کوبہتر معاوضہ ادا کرنے میں شہرت رکھتا تھا وگرنہ دوسرے اخبارات سے وابستہ کارکن صحافی ،ناشتہ ،لنچ اورڈنر داتا کی نگری میں واقع درویشوں کے مزارات سے لنگر کھاکر کیاکرتے تھے ۔میری پہلی تنخواہ سکہ رائج الوقت جو مقرر ہوئی دوسرے اخبارات سے وابستہ بہت سے سینئرز سے زیادہ تھی۔یہ وہ زمانہ تھا جب ایڈیٹر کی تنخواہ پانچ سے سات ہزار روپے ماہانہ تھی اورموقر اخبارات کے مدیران کے پاس بھی ففٹی سی سی موٹرسائیکل اور اسکوٹر ہوا کرتاتھا۔ ان دنوں صحافت ایک طرف سیاست میں بھی بلُٹ پروف گاڑیوں کا رواج نہیں ہوا کرتاتھا لیکن اس وقت بھی کہنہ مشقوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق رہتے تھے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بعض شوقین مزاج دھان پان گاڑیوں میں ڈیزل انجن رکھواکر Hybrid Cars بنائے اپنے پیشہ ورانہ فرائض سرانجام دینے میں مصروف ہوتے جن کے بارے میں ایسی اطلاعات سننے کو ملتیںکہ مضافات سے واپس آتے ہوئے گاڑی میں آگ بھڑک اٹھی ۔نابغہ روزگاروں کی ان دونسلی (Hybrid)گاڑیوںمیں آگ تو لگتی رہی مگر خوش قسمتی سے صحافی اور صحافت دونوں ہی ’’ستی ‘‘ ہونے سے محفوظ رہے۔
اینکر پرسن کے ظہور سے پہلے کی صحافت مختلف ہوا کرتی تھی لیکن آج رجحانات بدل چکے ہیں۔موسیقی کے میدان میں جہاں یویوہنی سنگھ نوجوانوں کا فیورٹ ہے ٗ آستینیں چڑھاکر قوالوں کے سُرسے ٹاک شوز کرنے والے اینکرپرسنز بھی مارکیٹ میں مہنگے سمجھے جاتے ہیں۔ کسی مزاح نگار نے کہاتھاکہ ’’ بچہ انترے سے رونا شروع کرتاہے‘‘۔موسیقی کی زبان میں انترے سے مراد اونچے سُر ہوتاہے۔ قوال حضرات عموماََ اونچے سُروں سے ہی قوالی کیاکرتے ہیں ۔ نیچے سُروں سے قوالی کرنے والے غیر مقبول اور ٹھنڈے قوال کہلاتے ہیں۔ کلاسیکی موسیقی میں خیال یعنی راگ گانے والے گائیک ،پنڈت اور خان صاحبان کہلاتے ہیں جبکہ قوال درجہ دوم قسم کے فنکار خیال کئے جاتے ہیں ۔ جس زمانے میں جنرل حمید گل اینڈ کمپنی نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف آئی جے آئی بنائی تھی لاہور کے بھانڈوں نے اس ’’کلاسیکل سازش‘‘سے متعلق عظیم لطیفہ تخلیق کیاتھا۔ایک بھانڈ دوسرے سے سوال کرتاہے ،بی بی کے خلاف آئی جے آئی میں 9سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوگئی ہیں،اس اتحاد کے بارے میں تمہاراکیاخیال ہے ؟دوسرا بھانڈپنجابی میں ’’ سارے قوال مل کے لتامنگیشکر دے ہتھی پے گئے نیں‘‘( سارے قوال مل کر لتامنگیشکر سے جھگڑ رہے ہیں )۔ اس زمانے کے بھانڈوں نے جمہوریت کے ساتھ ہونے والی سازش کو لطیفوں اور جگتوںمیں بے نقاب کردیا تھا لیکن آج کے ’’لوک فنکار ‘‘ یہ نہیں بتارہے کہ عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جانے سے انکار کیوں کیا؟؟ نجم سیٹھی صاحب نے اس ضمن میں یہ بیان کیاہے کہ عمران کو کسی نے اجلاس کا بائیکاٹ کرنے کا مشورہ دیاہے۔سیاست کی کلاہ کو سمجھنے والے کلاکاروں کا کہنا ہے کہ کپتان کی طرف سے ’بائیکاٹ ‘اورپھر بعدازاں اسلام آباد کو’ بند‘کرنے کی دھمکی سنگین صورت حال اختیار کرسکتی ہے ۔
مرزا نے کہاتھاکہ
دل میں پھر گریہ نے اک شور اٹھایاغالب
آہ جو قطرہ نہ نکلاتھا، سو طوفاں نکلا
برقی میڈیا پر تو خبر بہت جلد باسی ہوجاتی ہے تاہم سماجی میڈیا پر لوگ اب بھی شیخ رشید اور عمران خان کی 30ستمبر کی تقریروں کی لسی میں پانی ڈال رہے ہیں۔سیاسی اختلاف رائے کوئی بری بات نہیںلیکن ہمارے ہاں یہ ذاتی دشمنی اور گالی گلوچ کا روپ دھار جاتی ہے۔ سیا سی اختلاف رائے کا اظہار کرتے ہوئے اڈا پلاٹ کے جلسے میں شیخ رشید نے جس قسم کا لب ولہجہ اختیار کیااس نوع کی باتیں آج کے اسٹیج ڈرامہ میں نام نہاد کامیڈینز عین اس وقت کرتے ہیں جب ڈانس آئٹم سے پہلے تھیٹر کا ’’درجہ حرارت‘‘ بڑھانا مقصودہو۔لہجے اور لفظ کے بارے میںمشاق احمد یوسفی کہتے ہیں کہ لہجہ لفظ کو نیامزاج دیتا ہے، تازہ توانائی، تیور اور کاٹ بخشتا ہے ۔لہجہ لفظ کا اعتبار ہے ۔لہجہ لفظ کا سمپورن ٹھاٹ ہے۔ یہ زیور نہیں حرف کی حرمت اور دم عیسی کی حرارت ہے۔یہ محرم رازِ نہاں خانہ دل ہے ۔لہجہ نیتوں کا امین ہے ۔لہجہ آدمی کی پہچان ہے ۔لہجہ خود آدمی ہے۔ شیخ رشید نے اڈا پلاٹ کے جلسے میں بلاول بھٹو سے ’راجہ‘ کا خطاب دوبارہ واپس لینے کے ساتھ اعلان کیاکہ کپتان براہ راست مودی کا پوسٹ مارٹم کرے گا۔لیکن عمران نے اڈا پلاٹ کو مودی کے لئے آپریشن تھیٹر بنانے کے بجائے صرف اظہار ِ افسوس ہی کیا ۔افسوس اپنوں سے کیاجاتاہے اورغیروں سے سخت لہجے میں بات کی جاتی ہے۔ کپتان نے مودی کے بجائے میاں صاحب کے لئے سخت زبان استعمال کی۔ اس پر اظہار ِ افسوس ہی کیاجاسکتا ہے کہ وہ کسے اپنا اور کسے غیرسمجھتے ہیں؟


.
تازہ ترین