• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ہاں بے معنی جملے اور لفظ ہر کوئی استعمال کرتا نظر آتا ہے۔ مگر مسئلہ اس وقت بنتا ہے جب ہمارے نیتا ایسی باتیں پارلیمان میں کرتے ہیں۔ آج کل پاکستانی حکومت مقبوضہ کشمیر کے معاملہ پر بڑی یکسو نظر آتی ہے۔ ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جمہوریت کی قلعی کھول رہی ہے تو دوسری طرف اپنے داخلی محاذ کو مضبوط تر بنا رہی ہے۔ ہمارے ہاں مسئلہ کشمیر کے حل کا صرف ایک ہی طریقہ بتایا جاتا ہے کہ وہاں پر لوگوں کی رائے لی جائے کہ وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور اس سلسلہ میں ہمارا کردار کیا ہوسکتا ہے۔ بھارت صرف مقبوضہ کشمیر کی وجہ سے جنگی جنون میں مبتلا نہیں ہے اس کےبعض دیگر محرکات بھی ہیں۔
عرصہ دراز کے بعد پیپلز پارٹی کے نوجوان رہنما پوری تیاری کے ساتھ پاکستان کے سیاسی دنگل میں نمودار ہوئے ہیں۔ خوش گفتار نوجوان نے بات کرنےکا ڈھنگ کافی حد تک بدل لیا ہے۔ وہ زیرک ضرور ہیں مگر چست نہیں، اس کے اتالیق ہر وقت اس کے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ جب بلاول زرداری بھٹو قومی یک جہتی کے حوالہ سے اجلاس میں آئے تو وزیر اعظم نواز شریف نے خود ان کا استقبال کیا۔ اس وقت ان کے ساتھ پارٹی کے تمام مقبول رہنما تھے۔ اجلاس کے بعد اخباری نمائندوں سے بات چیت میں وہ کافی پراعتماد نظرآئے۔ ان کی پشت پر قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے رہنما خورشید شاہ تھے۔ جن کے چہرے پر تفکر زیادہ تھا۔ پھر اگلے روز ہی جب ہماری اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا تو وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر بلاشبہ قوم کے جذبات کی عکاس نظر آئی۔ اس وقت قومی اسمبلی کی گیلری میں بلاول بھٹو اجلاس کی کارروائی دیکھنے کے لئے خود موجودتھے۔ اسپیکر ایاز صادق نے خصوصی گل دستہ ان کی نذر کیا اور ان کو خوش آمدید کہا۔ اس اجلاس میں سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے قائد جناب اعتزاز احسن بہت خاموش سے نظر آئے۔ سب لوگوں کا خیال تھا کہ مقبوضہ کشمیر، جمہوریت اور ملکی حالات پر سیر حاصل بحث ہوگی۔ مگر خورشید شاہ کی کوشش رہی کہ میاں صاحب پر مثبت تنقید ہی کافی ہے۔ میاں نواز شریف اپنی عمر کے تبصرہ پر ذرا سے ناراض بھی نظر آئے پھر اس اجلاس میں تحریک انصاف کے کپتان عمران خان کی عدم موجودگی پر بھی بات ہوئی۔ اشرافیہ اور سیاست دان کپتان عمران خان کی اس روش کو پسند کی نظر سے نہیں دیکھتے مگر جمہوریت میں ایسی ہی چالیں اس کے حسن میں اضافہ کرتی ہیں۔
اس اجلاس میں جناب خورشید شاہ ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر بھی بہت مہربان نظر آئے۔ انہوں نے وزیراعظم میاں نواز شریف کو مشورہ دےدیا کہ وزیر خزانہ کو وزارت خارجہ کا بھی وزیر مقرر کردیا جائے۔ وزیر خزانہ کے اقدامات کی وجہ سے بزنس مین کمیونٹی اور ہمارے کسان ایک عجیب مشکل کاشکار ہیں۔ وزیر خزانہ آمدنی کے لئے انکم ٹیکس کو سب سے بڑا ہدف خیال کرتے ہیں مگر وہ انکم ٹیکس کی بجائے سرکاری ٹیکس کے حصول پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ اس ہی سلسلے میں آج کل حکومت کی خوشنودی کے لئے ایک اشتہار بہت نظر آ رہا ہے۔ ’’جو لوگ ٹیکس نہیں بھرتے ان کو ملک سے شکایت کا کوئی حق نہیں۔‘‘
ہماری دانست میں یہ ایک بے معنی جملہ ہے جس کا کوئی مطلب نہیں نکلتا۔ اس ملک کے 20 کروڑ عوام میں سے اگر فرض کرلیں کہ 10 لاکھ لوگ انکم ٹیکس دیتے ہیں تو کیا باقی ملک کے لوگ اپنی شکایات کے سلسلے میں نظر انداز کئے جا سکتے ہیں۔ ویسے تو اس ملک کا ہر وہ شہری جو پیسہ خرچ کرتا ہے وہ ٹیکس دینے والوں میں شامل ہے مگر یہ جملہ ہماری نوکر شاہی کے زرخیز ذہن کی پیداوار لگتا ہے۔ کتنے ہی سرکاری افسروں کاٹیکس ان کا محکمہ کاٹتا ہے مگر ان کو فائلر نہیں مانا جاتا۔
ایک نئی بات جو اشرافیہ اور سیاسی حلقوں میں گردش کر رہی ہے وہ یہ کہ سی پیک منصوبے سے آئی ایم ایف کے قرض کو اتارا جائے گا اور دوسرے یہ کہ 2013کے انتخابات میں بھارتی سرمایہ داروں نے سرمایہ کاری کی تھی اور اب ورلڈ بنک کی جو رپورٹ منظر عام پر آئی ہے اس کے مطابق گزشتہ تین سال میں پہلی دفعہ ہمارے ہاں سے رقوم بھارت منتقل کی گئی ہیں۔ اس معاملے پر سرکار مکمل خاموش ہے۔ اسٹیٹ بنک دوسرے ضروری کاموں میں مصروف ہے۔ وزارت خزانہ ایسے معاملوں پر توجہ دینا پسند نہیں کرتی اور نہ ہی ہماری حزب اختلاف اس معاملہ کو اہم خیال کرتی ہے۔ پھر ایسے معاملات سے جمہوریت کی رفتار پر بھی اثر پڑسکتا ہے۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس کے پہلے دن کے بعد بلاول بھٹو ایک دفعہ پھر اخباری نمائندوں سے بات چیت میں غیر سنجیدہ سے نظر آئے۔ کیونکہ اس ہی دن خبر آئی تھی کہ ان کے والد اور سابق صدر آصف علی زرداری نے فرمایا کہ ’’ملک عزیز سے اچھی خبریں آنے کو ہیں‘‘۔ اس ہی وجہ سے بلاول نے پیش گوئی کر دی کہ 2018 میں ہماری حکومت ہوگی اور وزیراعظم نواز شریف پاناما کی وجہ سے جیل میں ہوں گے۔ یہ ان کا اس بات چیت میں آخری جملہ تھا۔ اس موقع پر خورشید شاہ کچھ پھیکے پھیکے سے لگے جبکہ اعتزاز مسکرا رہے تھے۔
کیا اس جملے کا کوئی خاص مطلب نکالا جاسکتا ہے۔ یا اسے بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے کہ جس میں خادم اعلیٰ پنجاب نے کہا تھا کہ وہ زرداری کو لاہور اور لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔ اس سے جمہوریت کے حسن کا پتہ چلتا ہے اور معلوم پڑتا ہے جمہوریت بہترین انتقام ہے مگر کس سے؟ ابھی تک تو انتقام کا نشانہ عوام ہی بن رہے ہیں۔


.
تازہ ترین