• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو کپتان کا لقب 1981میں بھارت کے خلاف بھارت میں کرکٹ سیریز کھیلنے پر دیا گیا پاکستان کرکٹ ٹیم کے علاوہ ان کے تمام جاننے والے دوست احباب سب ہی اُن کو کپتان کے نام سے پکارنے لگے ۔اب بھی ان کے انتہائی قریبی دوست و عزیز و اقارب ان کو کپتان کے نام سے پکارتے ہیں اس لئے مجھے بھی یہ نام پسند ہے اور جب میری اور عمران خان کے قریبی عزیزواقارب کے درمیان گفتگو ہوتی ہے تو ہم آپس میں خان صاحب کو کپتان ہی کہتے ہیں۔ جوڈیشل کمیشن کے تاریخی فیصلے کے بعد سیاسی جماعتیں ،میڈیا اوردیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے عمران خان پر بہت تنقید کی اور اُن کے دھرنے کو ملک کے لئے نقصان قرار دیا ۔ ہمارے مختلف کالم نگاروں نے اپنی مختلف رائے جوڈیشل کمیشن کو دیں میں تھوڑا ان سے مختلف پہلو پر بات کرنا چاہتا ہوں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کپتان محب وطن اور سچے پاکستانی ہیں اور جہاں انہوں نے پاکستان کا نام روشن کیا دُنیا میں پاکستان کرکٹ کا مقام انتہائی حد تک پہنچایا بھی کپتان نے ہی ہے ۔شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال جیسا معجزہ بھی کپتان کے ہاتھوں سرزد ہوا۔ شوکت خانم کینسر اسپتال کی تعمیر شروع کرنے سے پہلے جب عمران خان نے پاکستان اور بیرون ممالک کے ڈاکٹروں سے صلاح مشورہ کیا تو سوائے ایک ڈاکٹر نوشیر خان برکی کے علاوہ تمام ڈاکٹروں نے اس منصوبے کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی کینسر جیسے مرض کا فری علاج کرنا ممکن نہیں اور پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں تو اس کا تصور بھی ناممکن ہے۔ خان نے اس ناممکن کو ممکن کر دکھایا خان کو یہ اعتماد دنیائے کرکٹ سے حاصل ہوا۔ عمران خان کے کرکٹ ٹیم میں آنے سے پہلے پاکستان کرکٹ ٹیم جب گوروں کے دیس میں جاتی تو ان کی کوشش ہوتی کہ ہم کسی طرح اِن سے میچ ڈرا کرلیں اور سیریز برابر کرلیں لیکن عمران خان نے ٹیم میں یہ جذبہ پیدا کیا کہ ہم گوروں کو ان کے ملک میں ہرا سکتے ہیں اور یہ کرکے بھی دکھایا اسی طرح بھارت میں بھارت کو کرکٹ سیریز ہرانا تقریباً ناممکن تصور کیا جاتا تھا کیونکہ بھارت میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے علاوہ اُن کے ایمپائر بھی اُن کے ساتھ کھیلتے تھے لیکن کپتان نے بھارت کی کرکٹ ٹیم کو اُن کے ایمپائروں سمیت بھارت میں ہرایا ۔کسی شخص میں خود اعتمادی اُس کی سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے لیکن ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی نقصان کا باعث بن سکتی ہے مجھے یاد ہے 97 کے جنرل الیکشن سے پہلے کپتان کے بڑے بڑے جلسے دیکھ کر پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت خوف زدہ ہوگئی تھی اور انہوں نے کپتان کے ساتھ اتحاد کرنے کا فیصلہ کیا۔اس ضمن میں موجودہ وزیر داخلہ چوہدری نثار اور موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے میری اطلاع کے مطابق 13قومی اسمبلی کی اور 25سے 35صوبائی اسمبلی کی سیٹیں دینے کی پیشکش کی اور یہ ایک اچھی پیشکش تھی۔ عمران خان کو پارلیمانی سیاست میں قدم رکھنے کا ایک بھرپورموقع مل رہا تھا لیکن عمران خان کے دائیں بائیں رہنے والے لوگوں نے کپتان سے کہا کہ شیر کبھی کسی کا شکار نہیں کھاتا بلکہ اپنا شکار خود کرتا ہے اس لئے ہمیں سولو فلائٹ لینی چاہئے اُس الیکشن میں عمران خان اپنی سیٹ بھی ہار گئے ۔جنرل مشرف کی آمریت کے سایہ میں ہونے والے 2002کے جنرل الیکشن میں ایک سینئرصحافی سابقہ وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات محمد علی دُرانی نے عمران خان سے ملاقات کی اور اُن کو 15قومی اسمبلی کی اور 30کے لگ بھگ پنجاب اسمبلی کی سیٹوں کی آفر کی اور کہا کہ آپ جنرل مشرف کے زیر سایہ بننے والے کیپٹل الائنس کا حصہ بن جائیں انہوں نے کپتان کو یہ بھی بتایا کہ مختلف سروے رپورٹس کے مطابق آپ کا اِس سے نصف نشستوں پر کامیاب ہونا بھی ممکن نہیں لیکن جنرل مشرف کی خواہش ہے کہ آپ کو زیادہ سے زیادہ ACCOMMODATEکیا جائے لہذا ہم آپ کو یہ پیشکش کر رہے ہیں لیکن کپتان نے یہ پیشکش بھی یہ کہہ کر مسترد کردی کہ میں اس سے کہیں زیادہ نشستیں جیت سکتا ہوں ۔2002کے جنرل الیکشن میں کپتان میانوالی سے اپنی ایک قومی اور ایک صوبائی اسمبلی کی نشست پر خود ہی کامیاب ہوسکے بعد ازاں صوبائی سیٹ چھوڑنے کے بعد اُن کے بہنوئی حفیظ اللہ نیازی نے وہاں سے الیکشن لڑا تو کپتان اُس سیٹ سے بھی ہاتھ دُھو بیٹھے اُس فیصلے کے پیچھے بھی اُن کے دائیں بائیں کے لوگوں کی مشاورت شامل تھی ۔2008کے جنرل الیکشن سے قبل جب کپتان ڈیرہ غازی خان جیل میں تھے تو میرے ساتھ کپتان سے تعلق رکھنے والی ایک اہم شخصیت نے ڈیرہ غازی خان جیل میں اُن سے ملاقات کی اور جیل میں اُن کی کسی سے یہ واحد ملاقات تھی۔ اُس ملاقات میں اِس اہم شخصیت نے خان کو کہا کہ آپ کے دائیں بائیں سے مجھے یہ اطلاعات مل رہی ہیں کہ آپ الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کا سوچ رہے ہیں جو سیاسی طور پر ٹھیک فیصلہ نہ ہو گا میرے سامنے اُس شخصیت کو کپتان نے یقین دلایا کہ اگرپیپلز پارٹی الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کرے گی تو تحریک انصاف بھی الیکشن میں بھرپور حصہ لے گی اُس ملاقات سے چند روز بعد مجھے اپنی صحافتی مصروفیات کے باعث امریکہ جانا پڑا وہاں پر میں نے ٹی وی پر ایک پریس کانفرنس میں کپتان کو اپنے کاغذاتِ نامزدگی پھاڑتے ہوئے اور الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے دیکھاواپس آیا تو معلوم ہوا کہ کپتان کے اُس وقت کے دائیں بائیں والوں نے خان کو کہا کہ یہ الیکشن غیر آئینی ہے اور سپریم کورٹ اس الیکشن کو غیر آئینی قرار دیدےگی لہذا ہمیں اس کا حصہ نہیں بننا چاہئے جس کے بعد کپتان نے یہ فیصلہ کیا اور وقت نے ثابت کیا کہ وہ کپتان کی ایک سنگین غلطی تھی ۔قسمت کی دیوی کپتان پر پھر ایک دفعہ مہربان ہوئی اور2013کے الیکشن میں PTIایک بھرپور اور بڑی سیاسی جماعت بن کر اُبھری اِس الیکشن میں اگرچہ کپتان کی جماعت اُن کی توقع کے مطابق کامیابی نہ حاصل کرسکی لیکن ووٹوں کے اعتبار سے دوسری بڑی جماعت بن گئی اور خیبر پختونخوا کی حکومت بھی اُن کے حصے میں آئی۔ اُس وقت کپتان کے دائیں بائیں رہنے والوں نے کپتان کو یقین دلادیا کہ 2013کے الیکشن میں اُن کے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے اور اُن کی کامیابی کو منظم دھاندلی سے شکست میں بدل دیا گیا ہے جس کے بعد کپتان نے بھرپور تحریک چلائی 126دن کا دھرنا دیا اس دھرنے کے بعد حکومت نے کپتان کی خواہش پر چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں ایک جوڈیشل کمیشن بنایا جس نے کپتان کے الزامات کا بغور جائزہ لیا کپتان کے دائیں بائیں والے ہر پیشی کے بعد کپتان سے کہتے رہے کہ فیصلہ اُن کے حق میں آئے گا لیکن ایسا نہ ہوا جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے بعد کپتان کو اپنے دائیں بائیں رہنے والوں کے حوالے سے ازسرِنو غور کرنے کی ضرورت تھی اور اہم تبدیلیاں اور فیصلے کرنا چاہئے تھے لیکن کپتان نے ایک بار پھر اپنے دائیں بائیں رہنے والوں کے موقف کو اپنا موقف جانا اور جو ڈیشل کمیشن کے فیصلے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ تو قبول لیکن اُنہوں نے اپنا کام ادھورا چھوڑ دیا ہے حالانکہ کپتان کی ٹیم نے جوڈیشل کمیشن کے سامنے ادھورے گواہ ادھورے ثبوت پیش کئے اور حقیقی معنوں میں کپتان کی ٹیم نے ادھورا کام کیا ۔ اب کپتان کے دائیں بائیں والے پھر سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں جِن سے کوئی خیر کی اُمید نہیں کی جاسکتی اللہ کپتان کو اِن سے بچائے (آمین(
تازہ ترین