• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موجودہ بجٹ میں حکومت کے 50 ہزار روپے سے زائد کیش بینکنگ ٹرانزیکشن پر 0.3% ودہولڈنگ ٹیکس وصول کرنے کے خلاف پاکستان کی تاجر برادری نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے مذاکرات میں ناکامی کے بعد یکم اگست کو ملک بھر میں شٹرڈائون ہڑتال کی جس کو مختلف سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی۔ اسی سلسلے میں ایک دوسری ملک گیر ہڑتال 5 اگست کو کی گئی۔ میرے بے شمار قارئین نے ودہولڈنگ ٹیکس عائد کئے جانے کے فوائد اور نقصانات جاننے کیلئے مجھ سے درخواست کی ہے کہ میں غیر جانبدار موقف بیان کروں۔
قارئین! میں ہمیشہ سے معیشت کو دستاویزی شکل اور نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرکے ملکی ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کا حامی رہا ہوں۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے دور حکومت میں یونیورسل سیلف اسسمنٹ اسکیم کے اعلان کے بعد ٹیکس دہندگان کی بڑی تعداد ٹیکس نیٹ سے باہر ہوگئی جس کی وجہ سے پاکستان میں ملکی مجموعی پیداوار (GDP) میں ٹیکس دہندگان کی شرح کم ہوکر صرف 9.5% رہ گئی ہے جو خطے میں سب سے کم ہے۔ اس وقت سری لنکا کی جی ڈی پی میں ٹیکس دہندگان کی شرح 15% ہے۔ حکومت نے اپنی مختلف پالیسیوں میں آئندہ 5 سالوں میں جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح کو 1.5% سالانہ بڑھاکر 15% کرنے کا ہدف رکھا ہے لیکن بدقسمتی سے ہم یہ ہدف حاصل نہیں کرسکے ۔ ٹیکس حکومتی ریونیو ہوتا ہے جسے حکومت انفرااسٹرکچر کے ترقیاتی منصوبے، سوشل سیکٹر میں تعلیم و صحت کی بنیادی سہولتیں اور پینے کے صاف پانی جیسی ضروریات زندگی فراہم کرکے ایک عام آدمی کا معیار زندگی بہتر بنانے کیلئے استعمال کرتی ہے۔ امریکہ اور یورپ کے جن ممالک میں ٹیکس دینے کی شرح 50% سے زیادہ ہے، وہاں حکومت فلاحی ریاست کا کردار ادا کرتی ہے اور بیروزگاری کی صورت میں لوگوں کو سوشل سیکورٹی کی شکل میں مالی امداد اور رہائش فراہم کرتی ہے اور لوگ ان سہولتوں کوعوض بخوشی ٹیکس دیتے ہیں لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے ٹیکس کلچر کا فروغ نہیں ہوا جس کی ایک وجہ عام آدمی کا حکومت اور ٹیکس وصول کرنے والے ادارے ایف بی آر پر عدم اعتماد ہے۔ اس کے علاوہ ٹیکس وصولی کے نظام میں پیچیدگیوں اور کرپشن کی وجہ سے تاجر ہراساں ہونے سے بچنے کیلئے خود کو ٹیکس نیٹ میں رجسٹرڈ نہیں کرواتا۔ ملک میں ٹیکس کے کلچر کو فروغ دینے کیلئے ہمیں ٹیکس کے وصولی نظام کو سہل بناکر اس میں کرپشن اور ہراساں کرنے کے عنصر کو ختم کرنا ہوگا۔ دوسری جانب ہمیں تاجروں کو یہ یقین دلانا ہوگا کہ ٹیکس کے دائرے میں شامل ہوکر حکومت ان کی ماضی کی مالی ٹرانزیکشن کے بارے میں پوچھ گچھ نہیں کرے گی لیکن آئندہ کیلئے انہیں اپنی تجارتی سرگرمیوں کو دستاویزی شکل دینا ہوگی۔
کل رات ایک عشایئے پر میں نے اپنے دوست وزیر مملکت برائے نجکاری محمد زبیر کو بتایا کہ میں نے ٹی وی انٹرویوز میں ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ ملکی معیشت دستاویزی کی جائے لیکن بدقسمتی سے اس وقت ملک میں جتنی دستاویزی معیشت ہے، اس سے زائد غیر دستاویزی معیشت (Undocumented Economy) پائی جاتی ہے اور حکومت کو یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ ہماری معیشت اور کاروباری سرگرمیوں میں غیر دستاویزی معیشت اہم کردار ادا کررہی ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ تاجر رہنمائوں اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے عہدیداران سے مذاکرات کے دوران انہوں نے اپنے خدشات بتائے ہوئے کہا کہ اگر وہ 30 ستمبر کی دی گئی ڈیڈ لائن تک اپنے ٹیکس گوشوارے جمع بھی کروادیں تو بعد میں ایف بی آر ہماری پرانی ٹرانزیکشن اور مالی ذرائع کے بارے میں ریکارڈ طلب کرے گی جبکہ چھوٹے تاجروں کے پاس ریکارڈ نہ رکھنے کی وجہ سے مطلوبہ معلومات فراہم کرنا ممکن نہیں ہے جو ان کیلئے ایک نیا پینڈورا باکس کھول دے گا۔میں نے وزیر موصوف کو تجویز دی کہ تاجروں کی اس جائز تشویش پر حکومت کو چاہئے کہ وہ جمع کروائے گئے ٹیکس گوشواروں پر ایمنسٹی اسکیم کا کوئی اعلان کرے جس کے مطابق تاجروں کی ڈیکلیئرڈ کی گئی گزشتہ تین سالہ ٹرانزیکشن پر کوئی آڈٹ یا سوال جواب نہیں کیا جائے گا۔ کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر نے بتایا کہ حکومت نے انہیں اس اہم مسئلے پر مذاکرات میں شامل نہیں کیا بلکہ انہوں نے حکومتی جماعت کی تاجر تنظیموں کو بلاکر مذاکرات کئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ تاجر ٹیکس دینا چاہتے ہیں لیکن حکومت نے انتہائی سخت اقدامات سے تمام دروازے بند کردیئے ہیں۔ میں نے اپنے بے شمار کالمز میں اس بات پر زور دیا ہے کہ حکومت کا ٹیکس ریونیو کی وصولی کا انحصار زیادہ سے زیادہ بلاواسطہ (Indirect)ٹیکسز پر بڑھتا جارہا ہے۔ ٹیکس حقیقی معنوں میں سالانہ انکم پر عائد کیا جانا چاہئے جو دنیا میں انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس(VAT)، کسٹم ڈیوٹی وغیرہ کی شکل میں وصول کئے جاتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں مجموعی ٹیکسز کا 50% سے زیادہ ودہولڈنگ، ایڈوانس اور ٹرن اوور جیسے بلاواسطہ (Indirect)ٹیکسز کی شکل میں وصول کئے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر موبائل فون کے ایزی لوڈ یا پری پیڈ کارڈز خریدنے کی صورت میں مختلف ٹیکسز کی شکل میں حکومت 25% ٹیکس منہا کرلیتی ہے، امپورٹ اسٹیج پر ودہولڈنگ ٹیکس وصول کرلیا جاتا ہے، کمپنیوں کی سیلز پر سیلز ٹیکس کے علاوہ ایڈوانس اور ٹرن اوور ٹیکس بھی وصول کیا جاتا ہے اور اب بینکوں کی ٹرانزیکشن پر 0.3% ودہولڈنگ ٹیکس عائد کردیا گیا ہے۔ ان ٹیکسز کا کمپنی یا شخصی انکم سے کوئی تعلق نہیں اور خسارے کی صورت میں بھی ان ٹیکسز کی وصولی کی جاتی ہے۔ ہماری ملکی معیشت کے تینوں اہم شعبوں زراعت، سروس اور مینوفیکچرنگ میں ٹیکسوں کی ادائیگی غیر متوازن ہے۔ مثال کے طور پر زرعی سیکٹر کا جی ڈی پی میں 21% حصہ ہے لیکن اس سیکٹر کا ٹیکسوں کی ادائیگی میں حصہ جی ڈی پی کا صرف 1.2% ہے، مینوفیکچرنگ سیکٹر کا جی ڈی پی میں 18.7% حصہ ہے جبکہ ٹیکسوں کی ادائیگی میں اس کا حصہ سب سے زیادہ 62.2% ہے جو مینوفیکچرنگ سیکٹر پر ٹیکسوں کے اضافی بوجھ کی نشاندہی کرتا ہے، ملکی معیشت کے تیسرے اہم شعبے سروس سیکٹر کا جی ڈی پی میں سب سے زیادہ 53.3% حصہ ہے لیکن ٹیکسوں کی ادائیگی میں اس کا حصہ 28.4% ہے۔ وڈیرے، جاگیردار اور زمیندار جو زراعت سے کروڑوں روپے منافع کماتے ہیں، کی زرعی انکم پر کوئی ٹیکس وصول نہیں کیا جاتا کیونکہ زرعی ٹیکسوں کی وصولی صوبوں کی ذمہ داری ہے اور صوبوں میں فی الحال ان ٹیکسوں کی وصولی کا کوئی موثر نظام نہیں۔ اسی طرح سروس سیکٹر میں جس میں پروفیشنلز، ڈاکٹرز، انجینئرز، آرکٹیکٹ اور ریسٹورنٹ شامل ہیں، کی آمدنی بھی دستاویزی نہیں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے ایک عام تاجر ٹیکس نیٹ میں جانے کیلئے تیار نہیں۔ میں ایف بی آر کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے گزشتہ دہائی میں ٹیکسوں کی وصولی میں دگنا اور تین گنا اضافہ کیا ہے اور رواں مالی سال ہم نے 2.5 کھرب روپے سے زائد ٹیکس ریونیو کا ہدف رکھا ہے لیکن ساتھ ساتھ ہمیں اپنی صنعت اور ایکسپورٹس کو بھی مقابلاتی رکھنا ہے۔ موجودہ ٹیکس دہندگان پر اضافی ٹیکس عائد کرنے سے ان کی پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے ہماری ایکسپورٹس میں کمی آئی ہے، اس کے علاوہ صنعتیں جمود کا شکار ہیں اور نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایف بی آر نے نادرا کی مدد سے لائف اسٹائل کی بنیاد پر لاکھوں ایسے ٹیکس دہندگان کی نشاندہی کی ہے جو ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں، ان کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنا ایف بی آر کی اولین ترجیح ہونا چاہئے۔ ہمیں اپنے ٹیکس نظام میں اصلاحات لانا ہوں گی اور ٹیکس ریفارم کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد کرانا ہوگا تاکہ ملک میں ٹیکس کا جائز اور منصفانہ نظام بن سکے جس کا اطلاق ہر امیر و غریب اور بااثر افراد پر یکساں ہو بصورت دیگر تاجروں کی طرح معیشت کے دیگر سیکٹرز سے بھی حکومت کو اسی طرح کی مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور ٹیکس نیٹ میں غیر رجسٹرڈ تاجر ودہولڈنگ ٹیکس سے بچنے کیلئے غیر بینکنگ کیش ٹرانزیکشن اور ڈالرائزیشن کو فروغ دیں گے جس سے ملک میں غیر دستاویزی معیشت میں مزید اضافہ ہوگا۔
تازہ ترین