• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی میں امن و امان کی صورت حال بہت بہتر ہوئی ہے ۔ لوگوں میں خوف ختم ہو رہا ہے ۔ تقریباً تین عشروں کے بعد سے شہر اعصاب شکن صورت حال سے نکل رہاہے اور یہاں زندگی معمول پر آرہی ہے ۔ ان تین عشروں میں دو نسلیں جوان ہوئی ہیں ۔ اُنہوں نے پہلے والا پر امن کراچی نہیں دیکھا تھا۔ نئے حالات اُن کیلئے اگرچہ غیر متوقع ہیں لیکن انتہائی خوش گوار حیرت کاباعث ہیں ۔ اس کاکریڈٹ یقیناً پاک فوج،کور کمانڈر لیفٹننٹ جنرل نوید مختار، پاکستان رینجرز سندھ کے ڈی جی میجر جنرل بلال اکبر ، کراچی پولیس کے سربراہ غلام قادر تھیبو اور سیکورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کو جاتا ہے ۔ پاک فوج کی موجودہ قیادت کو لوگ خاص طور پر حالات کی بہتری کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں ۔
حالات کی بہتری انتظامی کامیابی ہے لیکن مستقبل میں کراچی کیلئے سیاسی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں ۔ گزشتہ 30‘ 35 سال سے متحدہ قومی موومنٹ بلا شرکت غیرے اس شہر پر سیاسی طور پر بالا دستی کی حامل رہی ہے اور یہاں کے شہریوں کی نمائندگی کا حق ادا کرتی رہی ہے ۔ لیکن اس وقت ایم کیو ایم اپنے مشکل ترین حالات سے گزر رہی ہے ۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین خود کہہ کر رہے ہیں کہ اُن کے ساتھی اُنہیں چھوڑ کر جا رہے ہیں ۔ ایم کیو ایم کے رہنمائوں اور کارکنوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئی ہیں ۔ شہرکے حالات بھی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں ۔ ’’ مائنس الطاف حسین ‘‘ فارمولے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں ۔ کراچی کی سیاست میں ایم کیو ایم شاید وہ کردار ادا نہیں کرسکے گی ‘ جو پہلے ادا کرتی رہی ہے اس لئے کراچی میں ایک ایسا سیاسی خلاء پیدا ہونے کی پیش گوئی کی جارہی ہے ‘جسے ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اگر پُر نہ کر سکیں تو کراچی وار لارڈز (WAR LORDS) اور مافیاز کے ہاتھوں میں جا سکتا ہے اور صورت حال پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو سکتی ہے ۔
پاکستان پیپلز پارٹی ، جو کبھی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی ، سکڑتی جا رہی ہے ۔ 1970 ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کراچی کی سب سے زیادہ نشستیں لینے والی جماعت تھی لیکن اب وہ اس شہر میں اپنا سیاسی اثر و رسوخ ختم کر چکی ہے ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے طویل عرصے سے کراچی کے دیہی علاقوں خصوصاً بلوچی اور سندھی بولنے والی آبادی کے علاقوں میں کچھ عرصے تک پیپلز پارٹی نے اپنے وجود کو برقرار رکھا لیکن وہاں بھی اُس کیلئے کافی مشکلات پیدا ہو گئی ہیں ۔ پیپلز پارٹی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ ہنگامی بنیاد پر کراچی میں پیدا ہونے والے سیاسی خلاء کو پُر کر سکے ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کا بھی کراچی میں کوئی سیاسی وجود نہیں رہا ہے ۔ اس شہر میں یہ پارٹی صرف ڈرائنگ رومزتک محدود ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) نے بھی اس شہر میں اپنا سیاسی اثر و رسوخ بڑھانے کی کوئی شعوری کوشش کبھی نہیں کی ۔ سندھ کی قوم پرست جماعتیں بھی اُن علاقوں میں سیاسی جڑیں نہیں پکڑ سکی ہیں ‘ جہاں سندھی بولنے والے اکثریت میں رہتے ہیں ۔ پختونوں کی بھی اس شہر میں بڑی آبادی ہے ۔ ایک وقت ایسا بھی آرہا تھا ‘ جب عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی ) اس شہر میں سیاسی طور پر پیش قدمی کر رہی تھی مگر یہ پارٹی بھی مختلف اسباب کی وجہ سے نہ صرف اس شہر میں اپنا ’’مومینٹم‘‘ (Momentum) ختم کر چکی ہے بلکہ اُن لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے ‘ جو اس سیاسی جماعت کی عوامی حمایت پر منفی اثرات ڈال رہے ہیں ۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان(جے یو پی ) بھی ایک زمانے میں اس شہر کی مؤثر سیاسی قوت تھیں ۔ حضرت علامہ شاہ احمد نورانی ، پروفیسر شاہ فرید الحق اور جے یو پی کے دیگر سینئر رہنمائوں کے انتقال کے بعد جے یو پی سنبھل نہیں سکی ہے اور اب کراچی میں اُس کا صرف نام باقی ہے ۔ جماعت اسلامی اگرچہ انتہائی منظم جماعت ہے اور اُس نے کراچی میں بد امنی کے دوران بھی ایک مرتبہ شہری حکومت بنائی ہے ۔ اُس کے باوجود بھی وہ اس قابل نہیں ہے کہ امکانی سیاسی خلاء کو اس طرح پُر کر سکے کہ کراچی میں سیاسی عمل پُر امن طور پر آگے بڑھ سکے ۔ کچھ عرصہ پہلے تک لوگ یہ اندازے لگا رہے تھے کہ پاکستان تحریک انصاف کراچی میں ایک متبادل سیاسی قوت کے طور پر اُبھرکر سامنے آئے گی اور اس وقت کے حالات کے مطابق ان کے اندازے درست بھی تھے ۔مگراب ایسی صورتحال نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے کراچی کے لوگوں کی نفسیات اور شہرکے سیاسی حرکیات (Dynamics) کو صحیح طور سمجھنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ایم کیوایم سے پہلے اگرچہ کچھ سیاسی جماعتیں کراچی میں بہت موثر تھیں لیکن کسی کو بھی وہ سیاسی حیثیت حاصل نہیں تھی جو ایم کیوایم کو حاصل رہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اردو بولنے والوں کو آپ سندھی کہیں مہاجر کہیں یا کوئی اور نام دیں مگر وہ ایک حقیقت ہیں۔ ایم کیو ایم ایک حقیقت ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سندھ اور خصوصاََ کراچی کی تعمیر اور ترقی میں اس آ بادی کا بڑا Contribution ہے اور اگر فوج کی نگرانی میں Census کرائی جائے تو غیر سندھی اگر سندھ میں نصف سے زیادہ نہیں تو برابر ضرور ہوں گے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اردو بولنے والوں کی اکثریت نے ایم کیو ایم کی طرف سے فوج اور رینجرز پر تنقید کو بہت برا سمجھا ہے یا55بیرونی ممالک بشمول ہندوستان کو مراسلہ بھیجنے پر ہر محب وطن اردو بولنے والے نے ناراضگی ظاہر کی ہے۔ کراچی اور سندھ کے لوگ افواج پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں آج جو بھی جہاں بھی کوئی کام ہو رہا ہے وہ فوج ہی کر رہی ہے۔
اس سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ پورے سندھ کی طرح کراچی میں بھی منتخب بلدیاتی ادارے موجود نہیں ہیں۔ایسی صورت حال میں کراچی میں خلا پیدا ہونے والا ہے، بلدیاتی ادارے کشن (Cushion) یا ’’شاک ایبزوربر‘‘ کا کام دیتے ہیں ۔منتخب مقامی حکومتوں میں ایسی قیادت موجود ہوتی ہے جو متبادل سیاسی قیادت کا کام کرسکتی ہے۔مقامی حکومتوں میں لوگ نچلی سطح پر عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آتے ہیں اور ان کا عوام کے ساتھ بہت گہرا رابطہ ہوتا ہے۔ان میں یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ وہ بالائی سطح پر پیداہونے والے سیاسی خلاء کو پرکرسکتی ہے۔کراچی کے امکانی حالات میں نچلی سطح پرسیاسی قیادت کی عدم موجودگی بھی ایک تشویش ناک امرہے اور اس بات کو اس تناظرمیں دیکھاجائے کہ اوپرکی سطح پر سیاسی جماعتیں اس خلاء کو پرکرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہیںاور نہ ان میں Capacityہے۔
اگرسندھ میں بلدیاتی انتخابات ہوجاتے تو ان کا پورے صوبے کے عوام کو فائدہ ضرورہوتااورکراچی کے ممکنہ سیاسی بحران پر قابوپانے میں بھی مددملتی ہے۔کراچی لگ بھگ تین کروڑآبادی کا شہرہے۔ایک وقت تھاجب یہ شہرجنوبی ایشیاء کے شہروں میں سب سے زیادہ شہری منصوبہ بندی والاشہرتھااورخطے کے بعض بڑے شہروں کیلئے رول ماڈل تھا مگر اب یہ شہرمسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے اور بہت حدتک ’’ناقابل انتظام‘‘ہوچکا ہے۔شہرمیں پبلک ٹرانسپورٹ نہیں ہے،پانی کی شدید قلت ہے، بجلی کی لوڈشیڈنگ کے ساتھ ساتھ بجلی کے بلوں کی مدمیں شہریوں سے اضافی رقوم کی جبری وصولی نے یہاں کے باشندوں کی فرسٹریشن میں اضافہ کردیا ہے۔انفراسٹرکچرتباہی کا شکار ہے، صٖفائی کا کام تواس شہرمیں بندہوچکاہے۔ٹریفک کے نظام کا کوئی وجود نہیں ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں بھی مریضوں کیلئے دوائیں اور کھانے تک مخیر حضرات پہنچا رہے ہیں۔ سرکاری شعبے کے تعلیمی ادارے خصوصاََ اسکولز صرف رسمی طور پر موجود ہیں۔تمام بڑے خیراتی اسپتال بھی یہی مخیرحضرات چلارہے ہیں اور سرکاری اسپتالوں کے بعض ادارے اور شعبے بھی انہی مخیرحضرات کی بدولت چل رہے ہیں۔ایمبولینس اور میت گاڑیاں بھی نجی شعبوں کے ادارے مہیاکرتے ہیں۔کراچی میں روزانہ لاکھوں افرادکو خیراتی اداروں کی طرف سے تین وقت کا کھانا مہیا کیا جاتاہے۔فلاحی اداروں کی ان سرگرمیوں سے لوگوں کے دکھوں اور مسائل کا کسی حدتک مداواہوتا ہے۔ سیاسی حکومتیں اور سیاسی جماعتیں اس شہرکو سنبھالنے میں ناکام رہی ہیں۔ اب جبکہ کراچی میں ایک امکانی سیاسی خلاء کی وجہ سے جوبڑابحران پیداہوسکتا ہے اور مضبوط مافیا گروپس اور وار لارڈزجومسائل پیداکرسکتے ہیں، ان سے نمٹنے کیلئے سیاسی قوتیں تیار نہیں ہیں۔اس پرفیض احمدفیض کی دعایاد آرہی ہے کہ
آیئے ہاتھ اٹھائیں، ہم بھی
ہم جنہیں رسم دعایادنہیں
ہم جنہیں سوزمحبت کے سوا
کوئی بت، کوئی خدایاد نہیں۔۔۔۔
حرف حق دل میں کھٹکتا ہے جوکانٹے کی طرح
آج اظہارکریں اور خلش مٹ جائے۔۔۔۔
تازہ ترین