• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم بھی عجب شوریدہ سر لوگ ہیں، جس شاخ پر بیٹھتے ہیں، اس کو کاٹنے کے درپے ہوجاتے ہیں۔ کچھ اسی قسم کا رویہ ہمارا وطن عزیز پاکستان کے حوالے سے بھی ہے۔ جس کے بارے میں شکوک و شبہات ہی نہیں پھیلاتے، بددعائیں اور کوسنے دینے میں بھی ثانی نہیں رکھتے۔ نہ جانے ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ محض زمین کا ایک ٹکڑا نہیں، رسول عربیﷺ کے 18کروڑ غلاموں کی آخری پناہ گاہ ہے۔ آزادی ملے 68برس ہوگئے۔ اس کی قیمت ہم نے کیا چکائی تھی، نئی نسل کو شاید علم بھی نہ ہو۔ تقسیم ہند کے نتیجے میں نوع انسانی کی سب سے بڑی ہجرت رو پذیر ہوئی۔ ایک کروڑ سے زائد انسانوں نے صدیوں سے آباد بھرے بھرائے گھر جوں کے توں چھوڑے اور نامعلوم منزلوں کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔ انسانی جان سے بڑھ کر قیمتی شے کوئی نہیں۔آزادی کی راہ میں کتنوں نے جانوں کے نذرانے پیش کئے؟ صحیح تعداد کسی کو بھی معلوم نہیں، محض اندازے ہیں، جو پانچ سے دس لاکھ کے درمیان ہیں۔ آزادی کا خراج ہماری مائوںِ بہنوں، بیٹیوں کو بے آبروئی کی شکل میں چکانا پڑا۔ حوا کی 75 ہزار بیٹیاں اغوا ہوئیں، لاتعداد نے عزت بچانے کیلئے کنوئوں میں چھلانگیں لگائیں اور بے شمار کو ان کے اپنوں نے اپنے ہاتھوں سے قتل کردیا کہ بلوائیوں کے ہاتھ نہ لگ پائیں۔جالندھر کے ایک نواحی گائوں کا کنواں معصوم عورتوں کی لاشوںسے منڈیر تک بھر گیا تھا جن میں ایک لاش میری ماں کی جواں سال سہیلی اور ہم جماعت رابعہ کی بھی تھی جس کے ذکر پر وہ آخری دم تک بے حد دکھی ہوجاتیں۔ قافلے پر حملہ ہوا اور بھگدڑ مچی تو عفت مآب بیبیوں کے پاس یوں بے بسی کی موت مرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
میری ماں تحریک آزادی کی سرگرم کارکن تھیں۔ مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیارپورکے سادات سے تعلق تھا۔ زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھیں، مگر شعور کی دولت سے مالا مال۔ دو قومی نظریہ اور تحریک پاکستان کی ابتدائی سدھ بدھ مجھے ان کی گود میں ہی ملی۔ اکثر اپنی ہندو سہیلی اور کلاس فیلو شکنتلا کا قصہ سنایا کرتی تھیں جو بے پناہ محبت اور یگانگت جتانے کے باوجود بعض باتوں پہ بہت پختہ تھی۔مثلاً یہ کہ غیرمحسوس طریقے سےاپنی مسلمان سہیلی کو رسوئی یعنی باورچی خانے کا رخ نہیں کرنے دیتی تھی۔ کچن میں ہوتی تو دیکھتے ہی بھاگ آتی اور سہیلی کا ہاتھ تھام کر دوسرے کمرے میں لے جاتی تھی۔ اور کس طرح مسلمان سہیلی کا استعمال کردہ گلاس شکنتلا کے ہاتھ سے اتفاقاً گرکر ٹوٹ گیا تھا اور کس طرح اسکول میں ہندو لڑکیاں اپنا کھانا مسلمان سہیلیوں سے بچاکر رکھتی تھیں۔ مبادا ان کا ہاتھ لگنےسے بھرشٹ ہوجائے۔ اور کئی بار ایسا ہوا کہ مسلمان لڑکی نے دانستہ یا نادانستہ کسی ہندو لڑکی کے کھانے کو چھو لیا تو اس نے حیلےبہانے اسے کھانے سے گریز کیا اور اکثر صورتوں میں پھینک دیا، اور کس طرح مسلمان لڑکیاں ہندو ہم جماعتوں کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتیں اور انہیں فاقہ کشی پر مجبور کردیتیں۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں پڑتا کہ یہ باتیں میری ماں نے پہلی بار مجھے کب سنائی تھیں لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ اس وقت ابھی میں نے اسکول جانا شروع نہیں کیا تھا اور یہ باتیں میرے نزدیک محض قصے کہانیاں تھیں لیکن جوں جوں شعور بڑھتا گیا اور تاریکی چھٹتی گئی تو ان بظاہر قصے کہانیوں کہ تہہ میں پوشیدہ ہندو ذہنیت کھلنے لگی اور بچپن کی سنی سنائی یہی داستانیں دو قومی نظریہ کو سمجھنے میں معاون و مددگار ثابت ہوئیں۔
پاکستان بنا تو میری عمر صرف 8مہینے تھی۔ دنیا و مافیہا سے بے خبر ایک بیمار بچہ، میری ماں مجھے لے کر سفر ہجرت پر روانہ ہوئیں تو بھرے بھرائے گھر سے کچھ بھی نہ اٹھایا۔ صرف چند کپڑے اور کمبل لیا کہ بیمار بچے کے کام آئےگا۔ پھر کسی کے کہنے پر شادی کے زیورات بھی ایک پوٹلی میں باندھ لئے۔ قافلہ پیدل روانہ ہوا۔ سفر کی صعوبتیں اور آسمان سے مسلسل برستا پانی ، ذرا بدمزہ نہ ہوئیں، خود پانی میں بھیگیں مگر بچے کو خشک تولئے میںلپیٹ کر سینے سے لگائے رکھا۔ ایک جگہ بلوائیوں نے قافلے پر ہلہ بول دیا اور بہت کشت و خون ہوا۔ ایک ناہنجار نے معصوم پر بھی کرپان تانی تو ممتا بے کل ہوگئی، تڑپ کر بولی، مجھے ماردو میری جمع پونجی لے لو میرے بیٹے کو کچھ نہ کہنا اور دوسرے ہی لمحے زیورات سے بھری پوٹلی بلوائی کی جھولی میں الٹ دی ۔ خدا خدا کرکے قیامت کا یہ سفر کٹا ارض پاک پر قدم رکھا تو اللہ کا شکر بجالائیں۔
ہمارا کنبہ قبیلہ مہینوں والٹن لاہور کے مہاجر کیمپ میں مقیم رہا۔ بابائے قوم حضرت قائداعظم کیمپ کے معائنے کیلئے تشریف لائے، تو میری ماں بھی استقبالی ہجوم میں شامل تھیں۔ بتایا کرتی تھیں کہ قائداعظم کی آمد کا کوئی باقاعدہ اعلان نہیں ہوا تھا، اکتوبر کی کوئی تاریخ تھی کہ دوپہر سے ذرا پہلے غلغلہ اٹھا کہ قائداعظم تشریف لائے ہیں، جنہیں دیکھنے کیلئے لٹے پٹے، فاقہ زدہ، بےگھر، بے در مہاجر والہانہ انداز میں لپکے آئے اور لمبی لمبی دوطرفہ قطاریں لگ گئیں۔ مہاجرین کی حالت زار دیکھ کر قائد کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ بولے Don't Worry سب ٹھیک ہوجائے گا۔ میری ماں کے پاس سے گزرے تو گود میں اٹھائے بچے نے ہمک کر دونوں بازو پھیلادیئے، قائد نے تبسم فرمایا۔ معصوم کے رخسار کو تھپتھپایا اور آگے بڑھ گئے۔ قائد کے معجزاتی لمس کا یہ واقعہ میری ماں اکثر سنایا کرتیں اور میں ان سے بالتحقیق پوچھتا کہ وہ رخسار کونسا تھا۔ تھپتھپا کر بتاتیں کہ یہ دائیں والا تھا اور پھر ایک بڑا عجیب واقعہ ہوا ، دسمبر 1997 میں مجھے چہرے کا فالج ہوگیا، جسے عرف عام میں لقویٰ کہتے ہیں، حملہ شدید تھا، چہرے کا دایاں حصہ خاصہ متاثر ہوا۔ ڈاکٹر نے اظہار تشویش کیا کہ دائیں رخسار کے کمزور پڑنے کا احتمال ہے۔ میں نے کہا ہرگز نہیں، ایسا انشا اللہ نہیں ہوگا۔ ڈاکٹر حیران تھا، پوچھنے لگا، اس قدر یقین کے ساتھ کیونکر کہہ رہے ہو؟ عرض کیا اس رخسار کو قائد کے پرعزم معجزنما ہاتھ نے چھوا ہوا ہے اور میراایمان ہے کہ یہ کمزور نہیں پڑسکتا اور اللہ کے فضل و کرم سے ایسے ہی ہوا، میرا دایاں رخسار آج بھی بائیں سے زیادہ صحت مند ہے۔
تازہ ترین