• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سجاد میر، کلدیپ نائر کے تازہ آرٹیکل کا حوالہ لائے۔ ہندوستان کے ممتاز دانشور اخبار نویس نے لکھا،’’کشمیر اتنا بدل گیا ہے کہ اب پہچانا ہی نہیں جاتا۔ پانچ سال سے بھی کم عرصے میں، جب میں نے گزشتہ بار سرینگر کا وزٹ کیا تھا، وادی نمایاں طور پر بھارت دُشمن بن چکی ہے۔ سرینگر کے اندرونی علاقوں میں سبز پرچم لہراتے نظر آتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ کشمیریوں کی (ہندوستان سے) بیگانگی اب برگشتگی میں تبدیل ہوچکی ہے۔ کشمیر میں مجھے رواداری کے وہ مناظر کہیں نظر نہیں آئے جو قبل ازیں اس ریاست کا خاصہ تھے۔ اب تو ہندوؤں اور مسلمانوں میں سماجی تعلقات بھی بڑی حد تک منقطع ہوچکے ہیں۔‘‘یہاں کلدیپ نائر اپنی ذاتی مثال دیتے ہیں،’’ماضی میں یٰسین ملک مجھے اپنے گھر پر رات کے کھانے کے لیے مدعو کیا کرتے تھے(لیکن اس بار ایسا نہ ہوا) یٰسین ملک کہتے ہیں کہ وہ بھارتی شہری نہیں، لیکن ہمارے تعلقات قومیت کی بُنیاد پر تو نہیں تھے کہ یہ تلخی ذاتی مراسم کو بھی ختم کردے گی؟‘‘ ایک اور کشمیری لیڈر کی بات کرتے ہوئے کلدیپ نائر کا کہنا تھا، ’’ شبیر شاہ آج ایک یکسر بدلا ہوا شخص ہے۔ اب وہ بھارت کا بڑی شدت سے مخالف ہوچکا ہے‘‘۔
’’مسئلہ کشمیر: علاقائی امن و سلامتی کے لیے چیلنج‘‘ کے زیرعنوان اس سیمینار کا انعقاد الطاف حسن قریشی کے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل افیئرز(پائنا) نے ایک نجی یونیورسٹی کے تعاون سے کیا تھا۔ خیر مقدمی خطاب میں الطاف صاحب کا کہنا تھا، مقبوضہ کشمیر میں تحریکِ آزادی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی، پاکستان میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اہلِ پاکستان ، خصوصاً یہاں کی نوجوان نسل، حقائق سے باخبر ہو۔ برسوں پہلے ہماری وزارتِ اطلاعات و نشریات، مقبوضہ کشمیر اور ہندوستان میں کشمیر سے متعلق شائع ہونے والی خبروں اور مضامین کو باقاعدگی سے مانیٹر کرتی اور صحافیوں اور دانشوروں کو اس سے آگاہ کرتی رہتی۔
جناب مسعود خاں کا شمار پاکستان کے ممتاز سفارت کاروں میں ہوتا ہے۔ وزارتِ خارجہ میں وہ نہایت اہم ذمہ داریوں پرفائز رہے۔ فارن آفس کے ترجمان اور ہندوستان میں پاکستان کے ہائی کمشنر کی حیثیت سے ان کی خدمات بھی سفارتی تاریخ کا اہم باب ہیں۔ ان کا کلیدی خطبہ(Keynote address) ان کے سفارتی مقام و منصب کے شایانِ شان تھا۔ اُنہوں نے سوال اُٹھایا، مسئلہ کشمیر آج تک حل نہیں ہوا تو کیا یہ ریاستِ پاکستان کی ناکامی ہے کہ یہاں کی حکومتیں اس حوالے سے اپنے فرائض کماحقہٗ ادا نہ کرسکیں یا عالمی برادری اپنے اپنے مفاد کی بنا پر مصلحتوں کا شکار رہی یا اس کے ذمہ دار خود اہلِ جموں وکشمیر بھی ہیں جن کے کچھ افراد ہندوستان کے ساتھ تعاون کرتے رہے۔ مسعود خاں کے بقول اس کا اصل ذمہ دار ہندوستان ہے جس کی ہٹ دھرمی اس مسئلے کے حل میں رکاوٹ بنی رہی۔1971کے سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد معاہدۂ شملہ میں سیز فائر لائن کو لائن آف کنٹرول کا نام دیتے ہوئے، مسئلہ کشمیر کو’’دوطرفہ‘‘ معاملہ قرار دے دیا گیا (یوں کشمیر ایک عالمی مسئلے سے دو ملکوں کے مابین’’مقامی مسئلہ‘‘ بن گیا، جسے دونوں ملکوں نے باہم مذاکرات کے ذریعے حل کرنا تھا) لیکن ہندوستان نے دوطرفہ مذاکرات کو بھی نتیجہ خیز نہ ہونے دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کشمیر کی آزادی کے لیے چار جنگیں لڑیں۔ (1971 میں ملک کا آدھا حصہ کٹوادیا)۔ کشمیر کی آزادی کے لیے ہم نے ’’غیر روایتی‘‘ طریقے بھی اختیار کئے، جو عالمی قوانین سے متصادم نہیں تھے۔ ہندوستانی وزیرِ خارجہ نٹورسنگھ نے ایک ملاقات میں خورشید محمود قصوری سے کہا تھا، ہم پاکستان کو داد دیتے ہیں کہ اس نے ہندوستان کے تمام تر عالمی اثرو رسوخ کے باوجود مسئلہ کشمیر کو تمام عالمی فورمز پر زندہ رکھا۔ پاکستان کے ممتاز سفارت کار کا کہنا تھا، 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں کشمیر ہمارے ریاستی ایجنڈے میں سرِفہرست تھا، پھر معاملہ بدل گیا۔ آج پاکستانی میڈیا میں کشمیر کو کتنی جگہ اور کتناوقت ملتا ہے؟ کشمیر پر پاکستان میں آخری بڑی کتاب کب لکھی گئی؟ پاکستان کی دانش گاہوں میں کشمیر پر کتنی فکری کاوش ہورہی ہے؟ تاہم مسعود خاں کو اعتراف تھا کہ وزیراعظم نوازشریف نے برسوں بعد جنرل اسمبلی کے 2013 اور2014 کے سالانہ اجلاسوں میں بڑی جرأت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو اُٹھایا۔ اُنہوں نے گزشتہ دِنوں اوفا(روس) میں وزیراعظم مودی سے ملاقات میں بھی کشمیر پر بات کی۔ کشمیر پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا پیغام بھی بلند آہنگ اور دوٹوک ہے۔مسعود خاں کا کہنا تھا، پاکستان اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے علاوہ سلامتی کونسل میں بھی مسئلہ کشمیر کو پوری شدت سے اُٹھائے، بلوچستان سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں ہندوستانی مداخلت کے ٹھوس شواہد پیش کئے جائیں۔ اُنہوں نے میڈیا کے سبھی شعبوں (پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل ) کے بھرپور استعمال اور کشمیری بیواؤں ، یتیموں اور دیگر متاثرین کے لیے خصوصی فنڈ کے قیام پر بھی زور دیا۔ کشمیری نوجوانوں کے لیے ان کا پیغام تھا کہ وہ ماضی میں کھوئے رہنے یا اپنی اُمیدوں کومستقبل بعید تک لے جانے کی بجائے، ’’آج اورابھی‘‘ کے جذبے سے سرشار ہوں۔
گلگت، بلتستان کے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمٰن برسوں لاہور میں رہے ، یوں وہ خود کو ’’لاہوریا‘‘ بھی قرار دیتے ہیں۔ اُنہوں نے ایک اہم نکتہ اُٹھایا، گلگت/بلتستان والوں نے اپنے زورِ بازو سے آزادی حاصل کی، وہ پاکستان سے الحاق کے حامی تھے اور اب بھی وہاں علیحدگی کی نہیں، پاکستان سے الحاق کی تحریک ہے۔ غلطی یہ ہوئی کہ اِسے کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کا حصہ بنادیا گیا۔ تب ’’حکمت‘‘ یہ تھی کہ استصواب ہوگا تو گلگت بلتستان، ہندو آبادی والے جموں کو بیلنس کردے گا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے حوالے سے پاکستان کے اسی اصولی مؤقف کی بناء پر گلگت بلتستان آج بھی آئینی طور پر پاکستان کا پانچواں صوبہ نہیں۔ گلگت، بلتستان کے منتخب لیڈر نے یہاں ایک اور اہم بات بھی کی، یاسین ملک کے ہاں مقبوضہ کشمیر کی حریت قیادت کے ساتھ ایک ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے اِن کا کہنا تھا کہ کشمیری قیادت میں یہ احساس بہت گہرا ہے کہ کشمیر میں ’’عسکریت پسندی‘‘ سے تحریکِ آزادی کو نقصان پہنچا۔ اسی سے ہندوستان کو، عالمی سطح پر پراپیگنڈہ کرنے کا موقع ملا۔ اِن کا کہنا تھا، وزیراعظم نوازشریف کی حکومت نے اِن دو برسوں میں سفارتی محاذ پر مسئلہ کشمیر پر فعال کردار ادا کیا ہے۔ جنرل اسمبلی میںوزیراعظم نوازشریف کی تقاریرکی گونج عالمی محاذ پر بہت دور تک اور بہت دیر تک موجود رہی۔ اِن کا کہنا تھا، ایک مستحکم جمہوری پاکستان ہی کشمیر کاز کے لیے مؤثر کردار ادا کرسکتا ہے۔ اُنہوں نے تحریکِ آزادی کے بیس کیمپ آزاد کشمیر میں گڈگورننس کے قیام پر بھی زور دیا۔ یہاں اُنہوں نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹس کا بھی ذکر کیا، جن میں آزاد کشمیر کی حکومتوں کو کرپٹ ترین قرار دیا گیا تھا۔
’’عسکریت پسندی‘‘ کے حوالے سے ممتاز کشمیری دانشور ارشاد محمود بھی حافظ حفیظ الرحمٰن کے ہم خیال تھے۔ ’’آج کشمیر میں تحریکِ آزادی، ایک نئے رنگ اور نئے ڈھنگ کے ساتھ نئے مرحلے میں ہے۔ آزاد کشمیر کے اولین صدر سردار ابراہیم کے صاحبزادے خالد ابراہیم نے کشمیر کی تحریک کو پاکستان کی بقا اور تکمیل کی جدوجہد قرار دیا۔ رشید ترابی نے پاکستا ن میں کشمیریوں کے لیے مخصوص نشستوں پر انتخاب کو شفاف اور آزادانہ و منصفانہ بنانے پر زور دیا۔
عطاء الحق قاسمی کی نظم’’تمہارے رستے میں روشنی ہو‘‘ نے سیمینار کے ماحول کو اِک خاص رنگ دے دیا تھا، جذبوں اور ولولوں سے جگمگاتا ہوا رنگ۔ اس سے پہلے اپنی ’’فی البدیہہ‘‘ تقریر میں اِن کا کہنا تھا کہ کشمیر پر قرار دادیں، سیاستدانوں کے دور میں منظور ہوئیں۔ واجپائی بس پر بیٹھ کر لاہور آیا، تب بھی یہاں ایک جمہوری حکومت تھی۔ حافظ حسین احمد کا کہنا تھا، مسئلہ کشمیر کو کسی اور نے نہیں، نوجوان کشمیریوں نے اپنے خون سے زندہ رکھا ہے۔ بریگیڈیئر نادر میر نے کشمیر پالیسی میں تسلسل پر زور دیا۔ آصف احمد علی کے خیال میں کشمیر کا ’’کمپرومائز‘‘ حل ہی ممکن ہے، جس سے تینوں فریقوں کی فیس سیونگ ہوجائے۔ جناب ایس ایم ظفر نے خطبۂ صدارت میں مسئلہ کشمیر پر ’’سفارتی جارحیت‘‘ کی تجویز پیش کی۔ ان کا کہنا تھا، کشمیر میں گزشتہ تحریکوں کو ’’پراکسی وار‘‘ کہا جاسکتا تھا، لیکن اب یہ کشمیریوں کی اپنی تحریک ہے، وہاں کی داخلی تحریک۔ خود کشمیری قیادت کا کہنا ہے کہ انہیں پاکستان سے مجاہدین کی نہیں، یہاں سے سیاسی و سفارتی تائید و تعاون کی ضرورت ہے۔
کشمیر ایک سنگین انسانی مسئلہ ہے، وہاں بچوں اور نوجوانوں پر جو بیتی، خواتین کے ساتھ جو شرمناک سلوک روا رکھا گیا، اس حوالے سے محترمہ عمرانہ مشتاق ، ڈاکٹر پروفیسر سعدیہ بشیر اور فاطمہ احمد کی دلگداز شاعری بھی اس سیمینار کی ایک خاص بات تھی۔
تازہ ترین