• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج میں یہاں پردیس میں بیٹھ کر پاکستان کے یوم آزادی کے حوالے سے اپنے اور اپنے اردگرد یورپ میں آبسنے والے ہم وطنوں کے خیالات اور تاثرات بیان کرنا چاہوں گا کہ میں تاریکی میں گم شدہ ایک ایسا فرد ہوں جو تاریک بھول بھلیوں میں شاید 68برسوں ہی سے اپنی راہ تلاش کررہا ہے مگر ہوتا یوں ہے کہ ڈور کا سرا ہی نہیں ملتا۔ میں گزشتہ کئی برسوں سے خواب دیکھ رہا ہوں، ایک ہی خواب اور وہ ایک خواب بھی نیند کے گھیرے میں ہے اور وطن عزیز کی فضا ہے کہ غربت کے بوجھ تلے سیاہی میں اور سیاہ ہوتی چلی جارہی ہے اور میں اس دن کا منتظر ہوں جب کوئی ہاتھ دیئے کی لو بڑھائے گا اور چار سو روشنی پھیلے گی، مقدروں، نصیبوں اور فصیلوں کی روشنی جو وعدوں اور اعلانوں کی مدہم روشنی پر چھاگئی۔ میری دعا ہے کہ یہ 14اگست دکھوں کی ان کہی ان دیکھی شکلوں سے نجات کی آخری 14اگست ہو اور تاحیات والیان کشور حسین شادباد خوشی اور مسرت کے علاوہ باقی سارے حروف بھول جائیں۔
گزشتہ برس انہی دنوں کی بات ہے کہ میں انڈیا آفس لائبریری لندن گیا وہاں پر پاکستان کے کل اور آج کے بارے میں بہت سی کتابیں رکھی ہیں! آپ تاریخ کے اوراق پلٹنا چاہیں تو نہ صرف کتابیں بلکہ کمپیوٹر بھی آپ کی مدد کرتا ہے وہاں میں نے جو پڑھا وہ کچھ یوں تھا۔
’’لارڈ مائونٹ بیٹن 13اگست کی سہ پہر کو دہلی سے کراچی پہنچا، اسی شام محمد علی جناح نے اس کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔ مائونٹ بیٹن کی ایک جانب مس فاطمہ جناح اور دوسری جانب بیگم رعنا لیاقت علی بیٹھی تھیں۔‘‘مائونٹ بیٹن لکھتا ہے ’’یہ دونوں دہلی میں ہونے والی نصف شب کی رسومات کا ذکر کرکے میرا مذاق اڑاتی رہیں کہ ایک ذمہ دار حکومت کو اتنے اہم معاملے میں جوتشیوں کے کہنے پر نہیں چلنا چاہئے۔‘‘ چونکہ 14اگست 1947ء کو رات کی تقریب سے پہلے دو معتبر جوتشیوں نے اپنے مذہبی طریقے کے مطابق پنڈت نہرو کو راج سنبھالنے کیلئے تیار کیا تھا اور یہ کہ قدیم ہندوستان میں جب کوئی راجہ مہاراجہ سنگھاسن پر بیٹھا تھا تو منفرد اور مقدس جوتشی اور پجاری اسی قسم کی رسوم ادا کرتے تھے۔ اس لئے 14اگست کی شام یہ رسوم پنڈت نہرو کی رہائش گاہ پر انجام دی گئیں۔15اگست کی صبح کو قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر حلف اٹھایا۔ حلف ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سر عبدالرشید نے لیا، کوئی مذہبی تقریب نہ ادا کی گئی حلف کی عبارت سادہ مگر پروقار تھی۔ یہ عبارت اس سے بھی زیادہ سادہ اور مختلف تھی جو برطانوی حکومت نے تجویز کی تھی۔ برطانوی حکومت نے ہندوستان اور پاکستان کے گورنر جنرلوں کیلئے حلف نامے کی یکساں عبارت تجویز کی تھی، پٹیل اور نہرو نے یہ عبارت من و عن منظور کرلی، لیکن مسٹر جناح نے اس سے اتفاق نہ کیا اور اپنے لئے علیحدہ عبارت تجویز کی جس کی برطانوی حکومت نے توثیق کردی اور 15اگست کو مسٹر جناح نے اسی عبارت پر حلف اٹھایا۔متن یہ تھا۔ ’’میں محمد علی جناح باضابطہ اقرار کرتا ہوں کہ میں پاکستان کے آئین کی جو کہ قانوناً نافذ ہے کا سچا وفادار اور اطاعت گزار رہونگا اور یہ کہ میں شہنشاہ معظم شاہ جارج ششم اس کے وارثوں اور جانشینوں کا بطور گورنر جنرل پاکستان وفادارر ہونگا۔‘‘
اس میں مسٹر جناح نے پاکستان کے آئین سے وفاداری کو شامل کیا اور اسے اولیت دی۔ اس کے بعد شہنشاہ معظم کی وفاداری فقط بطور گورنر جنرل شامل کی مگر ’’بطور محمد علی جناح‘‘ صرف آئین کی وفاداری اور اطاعت گزاری کا عہد کیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ قائداعظم کاروبار حکومت میں آئین کی بالادستی کو اولیت دیتے تھے۔ 15اگست کو محمد علی جناح نے پاکستان کی پہلی کابینہ کے وزیروں کا حلف بھی اسی عبارت پر لیا تھا اس میں لفظ ’’باضابطہ اقرار کرتا ہوں‘‘ کی جگہ حلف اٹھاتا ہوں کردیا گیا تھا۔ آئین ساز اسمبلی کے پہلے صدر کی حیثیت سے قائداعظم نے اپنی پہلی تقریر کرتے ہوئے پاکستان کی آئین سازی کا سنگ بنیاد ان الفاظ کے ساتھ رکھا تھا۔ ’’خواہ آپ کا تعلق کسی مذہب ذات یا عقیدے سے ہو اس کا امور مملکت سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ آپ دیکھیں گے کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے، مذہبی اعتبار سے نہیں کہ یہ ہر فرد کا ذاتی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی اعتبار سے کہ وہ ایک قوم کے شہری ہیں۔ یہ قائداعظم کی پہلی پالیسی تقریر تھی اس میں انہوں نے واضح طور پر امور مملکت اور سیاست کو مذہب سے بالکل جدا کردیا تھا اور اسے ہی رواداری کہتے ہیں۔
تازہ ترین