• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
16دسمبر والے ملک میں 14اگست کے جشن ،یہ کمزور یادداشتوں کا نوحہ ہے ،غلاموں کے غلاموں کی خوش فہمی ہے یا بھانت بھانت کی بولیاں بولتے ہجوم کی بے حسی اور ڈھیٹ پن ،فیصلہ آپ کا اور فیصلہ کرتے ہوئےذہن میں رہے کہ گزرے 68سالوں کا سب سے بڑا سبق یہی کہ یہاں کسی نے کوئی سبق نہ سیکھا ۔ دل تو کر رہا تھا کہ اگست کے اس مہینے میں آج مری مُکی حکومتوں اور میٹومٹی ہوئی عوام کا ماتم کرتا مگر پھر سوچا وقت ضائع ہی کرنا ہے تو وہ تجربہ شیئر کر کے کروں کہ جس میں منوں ٹنوں سے بھی زیادہ عبرت۔ چند سال پہلے دو کتابیں شائع ہوئیں ،پہلی کتاب اپنے کمانڈو کی ’’ سب سے پہلے پاکستان ‘‘ جو اُس وقت شائع ہوئی جب مصنف پرویز مشرف کی گُڈی ہواؤں میں تھی جبکہ میاں نواز شریف اینڈ فیملی کے انٹرویوز پر مبنی سینئر صحافی سہیل وڑائچ کی کتاب ’’غدار کون ‘‘ اس وقت مارکیٹ میں آئی جب میاں صاحب کا مکمل ’’بوکاٹا ‘‘ ہوچکا تھا ۔ پہلے سے پڑھی دونوں کتابیں پچھلے ہفتے جب دوبارہ ہتھے چڑھیں تو اگلے ہی لمحے دماغ کا فیوز اڑگیا کہ وقت اور حالات یوں بھی بدل سکتے ہیں کہ کل کا طاقتور ترین پرویز مشرف اب ایک قیدی اورکل ہتھکڑیوں میں جکڑا نواز شریف آج وزیراعظم، یقینا آپ نے بھی یہ دونوں کتابیں پڑھی ہوںگی مگر باتیں پرانی اور صورتحال نئی مطلب پرانی فلم نئے پرنٹوں کے ساتھ دیکھیں، مزا نہ آیا تو پیسے واپس۔پہلے ملاحظہ ہو کہ اچھے وقتوں میں پرویز مشرف نے کیا کہا تھا !
*جنرل علی قلی کی خواہش تھی کہ جہانگیر کرامت مارشل لا لگادیں *جہانگیر کرامت سے زبردستی استعفیٰ لینے پر فوج میں بہت غم وغصہ پیدا ہوا *دو میجر جنرلوں کو فارغ کرنے سے انکار اور ایک صحافی کو غداری کے الزام میں کورٹ مارشل نہ کرنے پر نواز شریف ناراض ہوئے اور پھر کارگل پر ہمارے اختلافات عروج پر جاپہنچے * کارگل کی کارروائی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لئے بغیرہوئی یا فوج اتنی کمزور تھی کہ نواز شریف کو واشنگٹن جانا پڑا یا فوجی قیادت کو کارگل کا علم نہیں تھا یا کارگل کی وجہ سے ہم نیوکلیئر تصادم کے قریب تھے یا فوج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا یہ سب بے بنیاد اور لغو باتیں ہیں *میاں شریف اچانک بولے ’’ آج سے تم میرے بیٹے ہو اور میرے یہ دونوں بیٹے آئندہ تمہارے خلاف بولنے کی جرأت نہیں کریں گے * ستمبر 1999میں نواز شریف جب اپنے سسر کے جنازے میں شرکت کیلئے لاہور پہنچے تو ائیرپورٹ پر ہی اٹارنی جنرل نے انہیں ایک طرف لے جا کر کہا کہ فوج آج رات انہیں ہٹا نے والی ہے *نواز شریف کی خواہش تھی کہ ایک سال بعد مجھے آرمی چیف سے تبدیل کرکے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی بنا دیا جائے *ہمارے جہاز کا ایندھن ختم ہورہاتھا،ڈیڑھ سو زندگیاں خطرے میں تھیں اور ایک ایک لمحہ قیمتی تھا لیکن دوسری طرف صورتحال یہ تھی کہ ہمارا پائلٹ جو بات ائیر ٹریفک کنڑول سے کرتا ،وہ پہلے ڈی جی سول ایوی ایشن کے اسٹاف افسر کو پہنچائی جاتی ،وہ یہ بات ڈی جی کے گوش گزار کرتا ،ڈی جی یہ بات ٹیلی فون کر کے ملٹری سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر کو بتاتا ،ملٹری سیکرٹری وزیراعظم کو آگاہ کرتا اور پھر اسی طرح مرحلہ در مرحلہ ہمیں جواب دیا جاتا *افراتفری میں وزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری کے کندھوں سے بیجز اتار کر جنرل ضیاء الدین بٹ کے کندھوں پر لگائے گئے *وزیراعظم ہاؤس میں ایک موقع پر صورتحال یہ ہوگئی تھی کہ گولیاں چلنے کے قریب تھیں اور اگر گولیاں چل جاتیں تو ہو سکتا تھا کہ سپاہیوں کے ہاتھوں جرنیل مارا جاتا*جب سب کو ایک کمرے میں بٹھا دیا گیا تو نواز شریف سخت پریشان جبکہ سیف الرحمن رو رہے تھے * جب باتھ روم کا دروازہ زبردستی کھلوایا گیا تو اندر شہباز شریف وہ تقریر ضائع کر رہے تھے جو میری ریٹائرمنٹ اور جنرل بٹ کے آرمی چیف بننے کے پلان کی کامیابی کے بعد میاں نواز شریف نے کرنا تھی ۔ اب اک نظر کریں کہ شاہی جلا وطنی کے دنوں میں میاں نواز شریف نے کیا کہا تھا!
* مجھے واجپائی کے ذریعے پتا چلا کہ ہماری فوج کیا کر رہی ہے *ائیر اور نیول چیفس حتیٰ کہ کورکمانڈر بھی کارگل کے حوالے سے لا علم تھے * پریشان مشرف اب چاہتے تھے کہ میں ان کو کارگل سے نکالوں * فوج کی وجہ سے مجھے کلنٹن اور ٹونی بلئیر کی باتیں سننا پڑیں *کلنٹن نے بتایا کہ کارگل کے مسئلے پر ایٹمی ہتھیاروں کی نقل وحرکت ہوئی تھی *میاں اظہر فوج سے ملے ہوئے تھے اور جنرل محمود سے ان کا مسلسل رابطہ تھا ۔ پرویز مشرف نجی محفلوں میں مجھے گالیاں دیا کرتے *ہمیں مسلسل اطلاعات مل رہی تھیں کہ فوج آنے والی ہے *صدر مشرف کے طیارے کا رخ موڑنے کا مقصد بغاوت کو روکنا تھا * جنرل مشرف کو ریٹائرڈ مان چکے جنرل عثمانی بعد میں مکر گئے *مجھے شیر شاہ سوری کہنے والے جنرل محمود چھڑی لہراتے آئے اور وزیراعظم ہاؤس پر قبضہ کر لیا *جر نیل پہلے سے اقتدار پر قبضہ کیلئے تیار تھے ورنہ چند گھنٹوں میں بغاوت ممکن نہ تھی *دو جرنیلوں نے منشیات سرکاری طور پر اسمگل کرنے کی تجویز دی مگر میں نے انکار کردیا۔ *فوجی حلف میں تبدیلی ضروری ہوگئی ہے *اگر فوج اقتدار میں نہ ہوتی تو مشرقی پاکستان کبھی الگ نہ ہوتا *غلط کام خفیہ ایجنسیاں کرتی ہیں اور نتائج حکومتوں کو بھگتنے پڑتے ہیں *آئی ایس آئی حکومت کے ماتحت کام نہیں کرتی *جب تک آئی ایس آئی کا سیاسی کردار ختم نہیں ہوگا ،سیاسی نظام مستحکم نہیں ہوسکتا ،آئی ایس آئی میں کوئی بھی افسر باوردی نہیں ہونا چاہئے *آرمی چیف خود کو بادشاہ یا سپر پرائم منسٹر سمجھتا ہے ۔
اسی کتاب میں دوگھنٹوں کے آرمی چیف جنرل بٹ نے بتایا کہ پرویز مشرف 17اور 18ستمبر 1999کی رات مارشل لاء لگانے والے تھے مگر چوہدری نثار اور شہباز شریف سے ان کی ملاقات کے بعد معاملہ ٹل گیا۔ پرویز مشرف کے قول وفعل کے تضاد کے حوالے سے جنرل بٹ نے کہا کہ ایک مرتبہ افطار کے وقت پرویز مشرف نے کھجور اٹھا کر کہا This is the nearest i can go to religionمگر دوسری طرف اپنے چیف انسٹرکٹر جنرل جاوید ناصر کو خوش کرنے کیلئے مشرف روزانہ ان کی امامت میں نماز پڑھتے ۔’’غدار کون ‘‘ میں جنرل بٹ نے ایک بڑے پتے کی بات بھی کردی کہ ’’میری قوم بھیڑ بکریوں کا ریوڑ ہے اور جب تک یہ بھیڑ بکریاں انسان نہیں بنیں گے یہاں کے حالات بدلنے والے نہیں‘‘۔ اسی کتاب میں نواز شریف کے اُس وقت کے ملٹری سیکرٹری بریگیڈئیر جاوید ملک نے بتایا کہ جنرل محمود کی موجودگی میں ان پر تشدد ہوا حالانکہ وہ وردی میں تھے ۔
لیکن کیا کسی کے وہم وگمان میں بھی تھا کہ کل قید کرنے والا آج خود قیدی اور کل کا جلا وطن آج پورے وطن کا مالک، کوئی سوچ بھی سکتا تھا کہ کل پرویز مشرف جس نواز شریف کو آنے نہیں دے رہے تھے آج وہی نواز شریف اُسی پرویز مشرف کو جانے نہیں دیں گے ،اہلِ نظر کیلئے تو عبرت ہی عبرت اور سیکھنے والوں کیلئے تو سبق ہی سبق۔ مگر اس دیس میں جہاں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے گھر سے 100میل پر گزشتہ 10سالوں سے بچوں سے جنسی زیادتیاں ہوتی اور ویڈیوز بنتی رہیں اور جہاں ایک دہائی سے شہباز شریف کے ہیڈ کوارٹر کی ناک تلے یہ گھناؤنا کھیل کھیلا جاتا رہا اور کسی کو خبر تک نہ ہوئی وہاں کیا عبرت اور کیا سیکھنا سکھانا، یہ بات بھی لکھ لیں کہ اس’’ قصوری واردات‘‘ پر کسی عزت مآب سے کسی عدل کی توقع نہ رکھیں ایک تو یہ سب واویلا اور بڑھک بازی فرضی اور دوسرا یہ تب تک ہی ہے کہ جب تک کوئی اگلا سانحہ یا حادثہ نہیں ہو جاتا اور پھر بھلا وہاں کسی کو انصاف کیا ملے گا کہ جہاں اب گدھے کی کھال بیچنے پر اس لئے پابندی لگنے والی ہے کہ اقبال کے شاہین کھال کے ساتھ ساتھ گدھے کا گوشت بھی بیچ دیتے ہیں یعنی اب اگلے مرحلے میں ماہ ِرمضان پر اس لئے پابندی لگا دی جائے گی کہ اس مہینے میں مہنگائی ڈبل ہوجاتی ہے اور مسجدوں کی تعمیر اس لئے روک دی جائے گی کہ یتیموں اور بیواؤں کے پلاٹ محفوظ رہ سکیں ، یہ تو وہ ملک کہ جہاں چمکتا دمکتا بلاول بھٹو جب اک سیلابے ہوئے غریب کو جپھی ڈالتا ہے تو اس وقت بلاول نے جو کوٹ پہنا ہوتا ہے وہ اس غریب کی عمر بھر کی کمائی سے بھی زیادہ قیمتی ۔ کیا ملک تھا اورکہاں پہنچا دیا ہم نے ۔مجھے تو یقین ہے کہ روزِ قیامت پاکستان علامہ اقبال کو روک کر ضرور پوچھے گا کہ حضور سوئے ہوؤں کیلئے میرا ہی خواب دیکھنے کی کیا ضرورت تھی اور اگر خواب دیکھ ہی لیا تھا تو کیا آگے بتانا ضروری تھا ، اچھا ہوتا کہ آپ کو اس رات نیند ہی نہ آتی اور پھر پاکستان قائداعظم کو بھی روک کر یہ لازمی کہے گا کہ قبلہ آپ کے ناشکرے،جلدباز اور جھگڑالو جانشینوں نے جو میرا اور آپکا حشر کیا اس سے تو لگتا یہی ہے کہ آپ نے ساری جدوجہد صرف نوٹوں پر اپنی تصویر چھپوانے کیلئے ہی کی تھی۔
تازہ ترین