• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خبردار، انتہائی مایوسی کے عالم میں عمران خان خطرناک راہ اپنا سکتے ہیں۔
اُنھوں نے 2013 ء کے انتخابات میں شکست کھائی اور بجا طور پر تسلیم کیا کہ وہ آزادانہ اور منصفانہ تھے ۔ تاہم ایک سال بعد اُنھوں نے کئی ایک افراد اور اداروں پر انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے اور اُنہیں احتساب کے لئے سپریم کورٹ کے جوڈیشل کمیشن کے سامنے کھینچ لائے ۔ جب فاضل جج صاحبا ن نے اُن کے الزامات کو بے بنیاد قرار دے کررد کردیا تو خاں صاحب نے اُن پر سخت تنقید کی اور گلیوں میں احتجاجی مظاہرے کیے ۔ وہ چار ماہ تک اسلام آباد میں کنٹینر پر کھڑے ہوکر وزیر ِ اعظم، حکمران جماعت، پارلیمنٹ اور سیاسی نظام کو آڑے ہاتھوں لیتے اورگاہے اسٹیبلشمنٹ کو مداخلت کی دعوت دیتے رہے تاکہ کوئی نادیدہ ہاتھ موجودہ نظام کی بساط لپیٹ کر اُنہیں چور دروازے سے اقتدار پر بٹھاجائے ۔جب ایسا نہ ہوا تو اُنھوں نے طریق ِ کار تبدیل کرتے ہوئے پنجاب کے شہروں میں قصبوں میں احتجاجی مظاہرے شروع کردئیے ۔ اُنھوں نے پی ٹی آئی کے ٹائیگرز کے جذبات کو بھڑکایا تاکہ حکومت طاقت کا استعمال کرے اور پھر اس کو جواز بنا کر مظاہروں کے دائرے کو بڑھا دیا جائے ۔ یہاں ایک مرتبہ پھر ناکامی خاں صاحب کے سرپر سایہ فگن رہی۔
اب اُنھوں نے پاناما لیکس کا بادبان اپنی کشتی پر لگالیا ہے تاکہ اس کے سہارے اپنی منزل تک پہنچ سکیں۔ اُنہیں نظر آرہا ہے کہ وہ اس ایشو کا تیل اپنی احتجاجی سیاست پر گراکر مطلوبہ شعلگی حاصل کرلیں گے۔ اس مرتبہ اُنھوں نے پارلیمنٹ کو ’’غیر آئینی ‘‘ قرار دیتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ اگر وزیر ِاعظم نے استعفیٰ نہ دیا تو وہ اسلام آباد کو بند کردیں گے۔باوجود اس حقیقت کے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان، سپریم کورٹ، لاہور ہائی کورٹ اور ایف بی آر بیک وقت پاناما لیکس کی تحقیقات کررہے ہیں، خاں صاحب نے کسی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنا فیصلہ سنا دیا ۔ یہ ایک خطرناک پیش رفت ہے جوسازش کی تھیوری، جس سے سول ملٹری تنائو کا تاثر گہرا ہوتا ہے ، کی حوصلہ افزائی اور نظام کو عدم استحکام سے دوچار کرتی دکھائی دیتی ہے ۔ اور ایسا اُس وقت ہورہا ہے جب بھارت کے ساتھ تنائو کی وجہ سے قومی سلامتی ایک بحران کی زد میں ہے ۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے اندرونی خلفشار کی بجائے قومی اتحاد کی ضرورت تھی ۔ اس مرحلے پر داخلی محاذآرائی ہماری اُن توانائیوںکو نقصان پہنچائے گی جو ہمیں عالمی دبائو کا سامنا کرنے کے لئے درکار ہیں۔
عمران خان محرم کے بعد اسٹریٹ پاور اور سول نافرمانی کے ذریعے اسلام آباد بند کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے نوجوان کارکنوں کوجوش دلا کردارالحکومت کی سڑکیں اور گلیاں بند کرسکتے ہیں، دکانداروں کو دھمکی دے کر کاروبار بند، اورمیٹرودیگر ٹرانسپورٹ کو معطل کرکے سرکاری دفاتر میںحاضری کم کراسکتے ہیں۔ اس کے جواب میں یقیناََ پولیس اور شہری انتظامیہ حرکت میں آئے گی اور اُس صورت میںتشدد اور خونریزی کو بھی خارج ازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا، اور اگر صورت ِحال ہاتھ سے نکل گئی تو ماڈل ٹائون کی طرح کا کوئی سانحہ ، جووزیر ِاعلیٰ پنجاب کے گلے کی ہڈی بن چکاہے، پیش آسکتا ہے ۔ عمران نے حتمی طور پر فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ اپنی جیالا فورس کو ’’غیر آئینی پارلیمنٹ‘‘ کا گھیرائو کرنے کے لئے اکسائیں گے۔ چنانچہ حکومت کو امن و امان کو کنٹرول کرنے کے لئے طاقت استعمال کرنا پڑے گی۔ اس پر عمران عدالتوں اور اہم اداروںکے سامنے دہائی دیں گے کہ ’’عوام ‘‘ کو حکومت کے ظلم و ستم سے بچایا جائے ۔
حکومت کے پاس واضح آپشنز موجود ہیں۔ ایک تو یہ کہ حکومت ایک طرف ہٹ جائے اور خاں صاحب کو من موجی کرنے دے، جیسے انھوںنے دھرنوں کے ’’سابق دور‘‘ میں چارماہ تک کیا تھا۔ اس دوران اُن کے جوشیلے کارکنوں کو کچھ نہ کہا جائے ، اور امید رکھی جائے کہ وہ ہنگامے کرتے کرتے تھک کر گھر چلے جائیں گے۔ اس دوران ملک کا جتنا بھی نقصان ہوتا ہے ، ہونے دیا جائے ۔ یا پھر حکومت ملک کی خاطر توانا فیصلہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے اہم رہنمائوں کو حراست میں لےلےاورہلکی طاقت استعمال کرتے ہوئے ہجوم کو منتشر کر دے ۔ اب پہلا آپشن صورت ِحال کو بگاڑ سکتا ہے ۔ سابق دھرنا بڑی حد تک پرامن اور ایک جگہ پر محدود تھا۔ شرکا کی طرف سے تشدد کی کوشش نہیں کی گئی، چنانچہ اسلام آباد بندنہ ہوا۔ اگرچہ شہریوں اور کاروباری حلقوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا لیکن کوئی ناشگوار واقعہ بہرحال پیش نہیں آیا۔ تاہم اس مرتبہ ’’اسلام آباد کو بند کرنے ‘‘ کی دھمکی ظاہر کرتی ہے کہ گلیوں میں طاقت کا استعمال کیا جائے گا اورپولیس اور بپھرے ہوئے مظاہرین کے درمیان جھڑپیں دیکھنے میں آئیں گی، کیونکہ حکومت دارالحکومت کو پی ٹی آئی کے حوالے نہیں کرسکتی ۔ ایسا کرنے سے اس کے ہاتھ سے عملداری نکل جائے گی۔ چنانچہ عمران خان کی توقع کے مطابق تشدد کی چنگاری بھڑکنے کا خدشہ موجو د ہے۔
حکومت کے پاس دستیاب دوسرا آپشن بھی کم پریشان کن نہیں۔ماضی میں ایسی صورت حال کا تدارک کرنے کے لئے پیش بندی کے طور پر حکومت گرفتاریاں کرتی تھی۔ 1980 کی دہائی میں ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران اور1990 کی دہائی میں بے نظیر بھٹو کے لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کے دوران گرفتاریاں عمل میں آئی تھیں، لیکن یہ سیاسی گرفتاریاں اس لئے کامیاب رہیں کیونکہ اُس وقت اسٹیبلشمنٹ یا تو حکومت کی حامی ہوتی تھی، یا کم از کم کھل کر اپوزیشن کا ساتھ نہیں دیتی تھی۔ اس مرتبہ صورت ِحال مختلف ہے ۔ اس وقت وزیر ِاعظم اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تنائو کا تاثر موجود ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ عمران خان کی تحریک کا روح ِ رواں یہی تنائو ہے ۔ چنانچہ وہ احتجاجی تحریک چلا کر اگر نواز شریف کو گھر نہیں بھیج سکتے تو بھی انہیں کمزور کرکے اپنا مقصد حاصل کرسکتے ہیں۔
ان حالات میں اگر حکومت احتجاجی مظاہرین اور قائدین کو قبل ازوقت گرفتار کرتی ہے اور حالات بگڑ جاتے ہیں تو میڈیا اور عدالتیں حکومت کو آڑے ہاتھوں لیں گے۔ درحقیقت دیگر سیاسی جماعتوں، جیسا کہ پی پی پی اور ایم کیو ایم، جنھوں نے عمران کا اس کوشش میں ساتھ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے ، پر بھی دبائو آجائے گا کہ وہ ’’گرفتارشدہ رہنمائوںاور عوام‘‘ کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے طور پر پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کردیں۔ اس سے سیاسی بحران مزید گہرا ہوجائے اور اسلام آباد میں بات ’’تخت یا تختہ ‘‘ تک پہنچ جائے گی۔طبل جنگ بج چکا ، وزیر ِاعظم ، نواز شریف کے لئے ضروری ہے کہ وہ جلدی سے کوئی جوابی حکمت ِعملی وضع کرلیں،بحران کے سائے سر پر منڈلا رہے ہیں۔ ایک طرف پاناما لیکس ہیں اور دوسری طرف مشرقی اور مغربی سرحدوں پر عسکری دبائو، ملک بحران کی حالت میں ہے۔ یہ موسم ِ سرما یقیناََ بہت پریشان کن ثابت ہوگا۔



.
تازہ ترین