• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایم کیو ایم کے اراکین کے سینیٹ اور اسمبلیوںسے استعفے دیناپارٹی کے نمائندوں کی طرف سے سیاسی اثاثوں کو دائو پر لگا کر قانونی احتساب سے بچنےکی آخری کوشش تصور کی جاسکتی ہے۔ اگر ایم کیو ایم کا سب سے بڑا مقصد استعفوں کا دبائو ڈال کر کراچی آپریشن کو ختم یا اس کی سمت کوتبدیل کرانا ہے تو شاید یہ حکمت ِعملی کام نہ دے کیونکہ کراچی آپریشن نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہونے کی وجہ سے فوجی قیادت کے کنٹرول میں ہے۔ اس لیے ایم کیوایم کے استعفے یا گلیوں میں احتجاج کی دھمکی صورت ِحال پر مطلق اثر انداز نہیں ہوگی۔ ایک ملک میں جس کا سیاسی کلچر اور بیانیہ سیاسی بصیرت اور دانائی کی جگہ چالبازی اور کرتب سے ماخذ ہو ( جیسے اک زرداری، سب پہ بھاری)وہاںہوسکتا ہے کہ یہ چال چنددن تک ایک ماسٹر اسٹروک قرار پائے، تاہم ان استعفوںسے سوائے اس کے اور کیا چیز ثابت ہوگی کہ برطانیہ اور پاکستان میں پڑنے والے شدید دبائو کے با وجود ا یم کیو ایم پر ا لطاف حسین کی آہنی گرفت موجود ہے اور یہ کہ مہاجروں کی نمائندگی کرنے والے دوسرے درجے کے رہنما فکر وعمل کی کوئی آزادی نہیں رکھتے ؟
یہاں ہم کچھ مفروضوں پر بات کرلیتے ہیں۔ پہلا یہ کہ کراچی آپریشن غیر ریاستی عناصر کے خاتمے کے لیے ہے جو یہاں سے منظم جرائم کے ذریعے رقم اکٹھی کرکے دہشت گردی کی کارروائیوں کو آگے بڑھاتے ، ریاست کی عملداری کو چیلنج کرتے اور پھر شہر کی وسیع آبادی میں چھپ جاتے ہیں۔ سوات آپریشن کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ تحریک ِ طالبان پاکستان کراچی کوایک ’’تفریح گاہ‘‘ کے طور پر استعمال کررہی تھی۔ گزشتہ چند برسوںسے فاٹا سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد گروہ منظم طریقے سے کراچی کی وسیع انڈرورلڈ سے اپنا حصہ وصول کرنے لگے تھے۔ ان وجوہ کی بنا پر کراچی کی صفائی آپریشن ضرب ِ عضب اور نیشنل ایکشن پلان کا حصہ بن گئی اور قومی سیکورٹی اداروں کے دل میں سوچ راسخ ہونے لگی کہ مذہبی دہشت گردوں کا خاتمہ کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی سے چلنے والے مافیا ز کو نظر انداز کردینے سے امن قائم نہیں ہوگا۔ عہدے پر ترقی ملنے سے پہلے موجودہ آئی ایس آئی چیف ڈی جی رینجرز سندھ تھے اور اُنھوں نے کراچی کے کرائم سرکٹ کو قریب سے دیکھا تھا۔ اب ڈی جی آئی ایس آئی، کور کمانڈر کراچی اور ڈی جی رینجرز یک جان ہوکر ایک ہی صفحے پر ہیں اور اُنہیں آرمی چیف کی مکمل تائید حاصل ہے۔ آرمی چیف متعدد بار واشگاف الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان کا مقصد ہر قسم کے دہشت گردوں کا صفا یا کرنا ہے۔ کیا ایم کیو ایم کے استعفوںسے فوج کا کراچی آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم کمزورپڑجائے گا؟یقینا فوج رائے عامہ کا خیال رکھتی ہے، تو کیا ایم کیو ایم کے حامیوں اور انسانی حقوق کے حلقوں ( جو ماروائے عدالت قتل پر نکتہ چیںہیں)کے علاوہ ملک بھر میں کراچی آپریشن پر اطمینان کا اظہارنہیں کیا جارہا ؟کیالوگ کراچی کی روشنیاں اور امن بحال ہوتے دیکھ کر خوش نہیں؟ دوسری بات یہ کہ جب کراچی آپریشن شرو ع کیا گیا(یا جب اس سے پہلے آپریشن ضرب ِ عضب کا آغاز کیا گیا)تو اُس وقت بہت زیادہ سیاسی اتفاق ِر ائے موجود نہیں تھا، لیکن فوج نے رائے عامہ کو دہشت گردی کے خلاف بیدار کیا۔ اس میں سیاسی قیادت کا کوئی کردار نہ تھا، وہ تو دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کی پالیسی اپنا کر فوج کی مرضی کے خلاف چلتے دکھائی دیتی تھی۔ اب بھی فوج ہی اس آپریشن اور بیانیے کو آگے بڑھارہی ہے۔ جب کراچی میں پی پی پی کو بھی آپریشن کی تمازت محسوس ہوئی تواس نے تھوڑا سا احتجاج کیا لیکن پھر پیچھے ہٹ گئی۔ چنانچہ اب ایم کیو ایم کے استعفے کس طرح اس آپریشن کا رخ موڑنے میں کامیاب ہوں گے؟
تیسری بات یہ کہ مرکزی جماعتوں کے کراچی میں مفادات میں یکسانیت کا فقدان ہے۔ پی پی پی کے پاس سندھ حکومت ہے، چنانچہ یہ کراچی کے مفلوج ہونے کے خلاف ہے۔لیکن چونکہ رینجرز اور فوج ، نہ کہ سندھ حکومت،سیکورٹی کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں تویہ انہوںنے فیصلہ کرنا ہے کہ اگر ایم کیو ایم اس لڑائی کو کراچی کی گلیوں میں لے گئی تو کیا وہ صورت ِحال سے نمٹ سکتے ہیں؟
آپریشن کے نتیجے میں کمزور ہوتی ہوئی ایم کیو ایم کا سیاسی فائدہ پی ٹی آئی کوہوگا۔ اس لیے پی ٹی آئی بے دھڑک ہوکر کراچی آپریشن کی حمایت جاری رکھے گی۔ پی ایم ایل (ن) کا براہ ِ راست کراچی کی سیاست میں کوئی اسٹیک نہیں، اس کی توجہ مرکز میں حکومت کو مستحکم کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کراچی کو مفلوج ہونے سے بھی بچانا چاہتی ہے۔ چنانچہ یہ فوج سے مشاور ت کرنے کی پالیسی اپنائے گی۔ اس وقت پی ایم ایل (ن) اپنے اقتدار کے ستائیس ماہ پورے کرچکی جبکہ تیئس ماہ باقی ہیں۔ اسے دوبارہ انتخابی کامیابی ملنے کا دارومدار بنیادی طور پر تین باتوں پر ہے۔۔۔ دہشت گردی اور توانائی کے بحران پر قابوپانا اور معیشت کو مضبوط کرنا۔ دہشت گردی سے لڑنا مکمل طور پر فوج کی ذمہ داری ہے۔ اگر فوج اس میں حاصل ہونے والی کامیابی کو مستحکم کرتے ہوئے امن وامان قائم کردیتی ہے تو پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری آئے گی، لہذااس کی معیشت بہتر ہوگی۔ چنانچہ پی ایم ایل بہتر سمجھے گی کہ فوج دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرے۔انتخابی معرکے میں پی ایم ایل (ن) کی توجہ کراچی یا سندھ پر نہیں بلکہ پنجاب پر ہوگی۔ اس وقت جو چیز پی ایم ایل (ن) کو نقصان پہنچا سکتی ہے ، وہ فوج کے ساتھ کسی بھی قسم کا تنائو ہے، خاص طور پر جس کا تعلق نیشنل ایکشن پلان اور کراچی سے ہو۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کراچی آپریشن کی بھرپورحمایت کرتے ہوئے پی ایم ایل (ن) کو اس کے روایتی سیاسی حربوں کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنارہی ہے۔
اس طرح کراچی پر ویٹو طاقت فوجی کمان کے ہاتھ رہے گی، جو میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے اس بیانیے کو آگے بڑھا سکتی ہے کہ سیاسی طاقت کا مطلب مادر پدر آزادی اور جرائم اور دہشت گردی کی سرپرستی نہیںہوتا۔
اس سیاسی اور سیکورٹی مساوات میں فیصلہ کن عامل آرمی چیف کا عزم ہے۔ اگر آرمی چیف کا یہ فیصلہ کہ انھوں نے ملک بھر سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے تو کیا وہ کراچی آپریشن کو ادھورا چھوڑدیںگے؟۔ اگر ایم کیو ایم کی طرف سے دیے گئے استعفوں کی وجہ سے ان حلقوں میں دوبارہ انتخابات کرانے پڑجائیں تو کیا آسمان گر پڑے گا؟فرض کریں فوج کوئی مائنس ون فارمولہ تجویز نہیں کرتی اور نہ ہی اس کی دلچسپی کسی نئی ایم کیو ایم کی تخلیق میں ہے تو ایم کیو ایم کے پاس بہترین موقع یہ ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے دوبارہ اُن نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے اسمبلیوں میں آجائے۔اگر ایم کیو ایم تمام نشستیں جیت جائے گی تو کیا ہوگا؟ کیا یہ آپریشن ایم کیوایم کی انتخابی کامیابی میں استعمال کیے جانے والے مشکوک ذرائع کی وجہ سے ہورہا ہے؟کیا ایم کیو ایم کو ووٹروںکی طرف سے ملنے والے اعتمادکو یہ سمجھا جائے کہ ووٹر وں نے اسے ہرطرح کااختیار دے رکھا ہے ، اور یہ کہ اس سے کوئی باز پرس نہیںہونی چاہیے؟اگر ایم کیو ایم انتخابات میں ایک دو نشستیں ہارجاتی ہے اور پی ٹی آئی یا جماعت ِاسلامی یا حقیقی جیت جاتی ہیں توپھر استعفے دینے کا ایم کیو ایم کو کیا فائدہ ہوگا؟ اگر یہ انتخابات لڑنے کی بجائے گلیوں میں لڑنے کا فیصلہ کرے تو کون جانتا ہے کہ 2018 تک الطاف حسین کے خلاف مقدمات کا کیا نتیجہ برآمدہواور اس وقت ایم کیو ایم کہاں کھڑی ہو؟
قانونی نقطہ ٔ نظر سے دیکھیں تو قومی اسمبلی کےا سپیکر اور چیئرمین سینیٹ کی طرف سے ضا مندی سے دئیے گئے استعفے قبول نہ کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔ جب ایک ممبر اپنے ہاتھ سے استعفیٰ دے دیتا ہے تو پھر اسے قبول نہ کرنے کا کیا جواز باقی رہ جاتاہے؟
تازہ ترین