• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حجاب اُٹھ چکا، ریحام خاں سیاست میں پوری طرح ’’اِن ‘‘ ہیں اور ناقدین کو ایک اور موقع مل گیا ہے۔ ’’نیا پاکستان ، نئی سیاست ، نئے چہرے‘‘کپتان کا نعرہ تھا۔ وہ خاندانی (موروثی سیاست) کو پاکستان کے بیشتر سیاسی عوارض کا سبب ٹھہراتا۔ سیاسی موقع پرستوں اور ابن الوقتوں کو ہدفِ ملامت بناتا۔ وہ خود کو اسٹیٹس کو کا مخالف اور تحریکِ انصاف کو تبدیلی کی علمبردار قرار دیتا۔ لیکن یہ 30اکتوبر2011 کو مینارِ پاکستان پر منعقد ہونے والے ’’سونامی جلسے‘‘ سے پہلے کی باتیں ہیں۔ وفاق میں زرداری /گیلانی حکومت کی بیڈ گورننس اور آئے روز کے کرپشن اسکینڈلز کے باعث پیپلز پارٹی کی ہوا اُکھڑ چکی تھی۔ قاف لیگ کواس کے ’’خالق‘‘ کی وردی اُترتے ہی سیاسی یتیمی نے آلیا تھا۔ پھر سیاسی ضرورت کے تحت، زرداری نے قاف لیگ کو (جسے وہ قاتل لیگ قرار دیتے رہے تھے) کولیشن پارٹنر بنا لیا اور قاف لیگ کی تحلیل کا عمل سست پڑ گیا لیکن تحفظ اور عافیت کا یہ عرصہ مختصر تھا۔ آئندہ انتخابات کے لئے موقع پرستوں کو نئے ٹھکانے کی تلاش تھی جن کے لئے مسلم لیگ(ن) میں بہت زیادہ گنجائش نہیں تھی۔ اس نے اپنے حصے کے موقع پرست سمیٹ لئے، اِن میں بیشتر وہ تھے، جو 12اکتوبر 1999 سے پہلے میاں صاحب سے وفاداری کا دم بھرتے رہے تھے۔ اب ان کے لئے یہ کہہ کر دروازہ کھول دیاگیا کہ صبح کے بھولے شام کو واپس آگئے ہیں ۔ جن کے لئے مسلم لیگ(ن) میں جگہ نہ تھی، انہوں نے تحریکِ انصاف کا رُخ کیا۔ اس میں کچھ حصہ، جنرل پاشا کا بھی تھا۔ اس دور کی عسکری قیادت اور کپتان ، دونوں سے قربت کے دعویدار بزرگ کالم نگار نے ابھی دوہفتے قبل لکھا،’’ جہاں تک جنرل پاشا کا تعلق ہے، یہ ثابت ہوچکا کہ عمران خاں کے وہ ہمدرد تھے، سادہ لوح آدمی اس بات کو چھپاتانہیں تھا۔ 2013 کے اوائل میں جب صدر زرداری نے اِن سے پوچھا کہ وہ خود کس کو ووٹ دیں گے؟ جنرل نے فوراً کہا، عمران خاں کو۔ ہمایوں اختر کو انہوں نے پی ٹی آئی میں شامل ہونے کا مشورہ دیا تھا‘‘۔ (ان ہی دِنوں چوہدری برادران نے جنرل کیانی سے ملاقات میں باقاعدہ ثبوت و شواہد پیش کئے کہ جنرل پاشا کس طرح قاف لیگ والوں کو پی ٹی آئی کی طرف بھیج رہے ہیں)۔
اخبار نویسوں سے ملاقات میں، ایک سوال پر کپتان کاجواب تھا، کرپٹ معاشرے میں فرشتے کہاں سے لاؤں؟کپتان کوElectables کی ضرورت تھی چنانچہ موروثی سیاست اور اسٹیٹس کو کی ایک سے بڑھ کر ایک ، علامت کپتان کی ٹیم کا حصہ بنتی چلی گئی۔ اِن میں شاید ہی کوئی ہو، جس نے ماضی میں کم از کم چار، پانچ پارٹیاں نہ بدلی ہوں۔ بیشتر کو شاید اپنی گزشتہ سیاسی وابستگیوں کی صحیح تعداد یاد کرنے کے لئے ذہن پر خاصا زور دینا پڑے۔
’’سیاست میں نئے چہرے‘‘، ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کا پسندیدہ نعرہ رہا ہے کہ نا تجربہ کاروں سے معاملہ کرنے اور انہیں اپنے ڈھب پر لانے میں آسانی رہتی ہے۔ نواب زادہ صاحب اس پر چِڑجاتے، ’’نئے چہرے فلموں میں ہوتے ہیں، سیاست میں نہیں‘‘۔ پھر وہ چرچل اور ڈیگال سے لے کر، قائداعظم اور گاندھی تک ایک سے بڑھ کر ایک، ’’پرانے ‘‘چہروں کی مثال لاتے۔ ’’موروثی سیاست‘‘ کے حوالے سے بھی اِن کے پاس دلائل کی کمی نہ ہوتی۔ اپنے برصغیر سے متعدد مثالوں کے بعد، وہ امریکہ کا رُخ کرتے۔ ایک مثال کینیڈی خاندان کی، صدر جان ایف کینیڈی قتل ہوئے تو اُن کے چھوٹے بھائی رابرٹ کینیڈی صدارتی اُمیدوار تھے، وہ بھی انتخابی مہم کے دوران قتل ہوگئے۔ ان کی جگہ ایڈورڈ کینیڈی کو لینی تھی لیکن ایک اسکینڈل نے ان کی راہ روک دی۔ نواب زادہ زندہ ہوتے تو جارج ایچ ڈبلیو بش(89-93) کے بعد 2001سے 2009تک جارج ڈبلیو بش(جونیئر) اور اب2016 کے انتخابات کے لئے اس کے چھوٹے بھائی جیب بش کی اُمیدواری کی مثال لاتے اور ہاں! کلنٹن کے بعد، ہیلری کلنٹن بھی تو ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ ’’موروثی سیاست‘‘ میں بذاتِ خود کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں۔ اگر وکیل کا بیٹا وکیل، ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر، پروفیسر کا بیٹا پروفیسر، انجینئر کا بیٹا انجینئر، فوجی کا بیٹا فوجی، تاجر کا بیٹا تاجر ہوسکتا ہے، تو سیاستدان کا بیٹا سیاستدان کیوں نہیں ہوسکتا؟بشرطیکہ وہ اوپر سے مسلط نہ ہو، سیاسی عمل کے ذریعے آگے آئے اور خاندانی اجارہ داری دیگر اہل افراد کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔ اب ریحام خاں سیاست میں آئی ہیں، تو اس پر اعتراض کیوں؟ کپتان ’’موروثی سیاست‘‘ کے خلاف اپنے مؤقف کو تو برسوں پہلے خیر باد کہہ چکا۔ کپتان کی کور کمیٹی کے اجلاس پر نظر ڈالیں ، کیسا کیسا موروثی سیاستدان آپ کو وہاں نظر آئے گا؟
یہ الگ بات کہ سیاست میں ریحام خان کی آمدکو فقرے باز اور بذلہ سنج حافظ حسین احمد موروثی سیاست کی بجائے ازدواجی سیاست کا نام دیتے ہیں۔ حافظ صاحب کی بذلہ سنجی کے حوالے سے یاد آیا، اکتوبر 2002 کے انتخابات کے بعد، 17ویں ترمیم کے مسودے پر پارلیمانی جماعتوں میں مذاکرات جاری تھے۔ جنرل مشرف(اور قاف لیگ) کی نمائندگی بڑے چوہدری صاحب کر رہے تھے۔ ڈکٹیٹر کی وردی اُتارنے کے ٹائم فریم پر بحث طویل ہوگئی، تو چوہدری صاحب نے کہا، ’’وردی تے مٹی پاؤ‘‘ ۔ حافظ صاحب کی رگِ ظرافت پھڑکی، ’’چوہدری صاحب ! کیا بندے سمیت وردی پر مٹی ڈالنی ہے‘‘؟
ریحام خاں کو سیاست میں خوش آمدید کہتے ہوئے، کپتان سے طویل دوستی اور تحریکِ انصاف کی سیاست پر اتھارٹی ہونے کے دعویدار تجزیہ نگار کا کہنا ہے، چیئرمین کے بعد اب وہ پارٹی کی سب سے زیادہ اہم شخصیت ہیں۔ جہانگیر ترین، شاہ محمود اور پرویز خٹک سے بھی کہیں زیادہ۔ عمران خاں ایک بہت Ambitious آدمی ہیں اور ریحام خاں اِن سے بھی زیادہ۔ یقینی طور پر سیاست کو وہ اپنے شوہر سے زیادہ سمجھتی ہیں، جو یک رُخے آدمی ہیں اور ہر ایک پر اعتبار کر لیتے ہیں۔یہ تو سب جانتے ہیں کہ کپتان کا مزاج سیاست سے مطابقت نہیں رکھتا۔ مشیروں کے انتخاب میں ہر بار انہوں نے حماقت کا مظاہرہ کیا۔ لیکن ریحام خاں کا معاملہ مختلف ہے، آسانی سے وہ دھوکہ کھانے والی نہیں۔ جن لوگوں کا خیال یہ ہے کہ خاتونِ اوّل بن جانا محترمہ کی منزل ہے، وہ اِن کے خواب کو سمجھ نہیں سکے، اس سے کہیں زیادہ اور کہیں آگے۔ عمران خاں کی شریکِ حیات اور ہم سفر ہی نہیں، وارث بھی اب وہی ہیں۔ اور اس کے کوئی آٹھ، دس روز بعد ہی بزرگ تجزیہ نگار کو حیرت آمیز صدمے نے آلیا،’’ریحام خاں سیاست میں تازہ ہوا کا جھونکا ہیں، مگر اخبار نویسوں کے سامنے’’دوستی‘‘ کا فلسفہ بگھارنے کی انہیں کیا سوجھی؟ لیڈر بنو بی بی ، مفکر بننے کی کوشش نہ کرو۔ یہ آپ نے کیا کہا کہ دوستی میں مرد اور عورت کی تمیز نہیں ہوتی‘‘۔ ریحام خاں سے اچھی اُمیدیں وابستہ کرنے والا اخبار نویس انہیں یاد دلاتا ہے کہ ’’روایت پسند اس معاشرے میں(مرد اور عورت میں دوستی) ممکن ہی نہیں۔ریحام کے لئے اس بزرگانہ مشورے کے بعد، بزرگ کالم نگار کی کپتان سے مؤدبانہ درخواست کہ ’’اپنے کارکنوں کو جنون کی بجائے اب حکمت کا درس دیجئے۔ موبائل پر بیہودہ پیغامات مجھے ملتے ہیں۔ اِن میں سے ایک نے تو وتیرہ ہی بنا لیا ہیــ‘‘۔ براد ر محترم عطاء الحق قاسمی اور ہم جیسے توتحریک کے سوشل میڈیا کا ایک عرصے سے ہدف ہیں۔ جناب عرفان صدیقی بھی اپنا حصہ وصول کرتے رہے۔برسوں کپتان کی امیج بلڈنگ کرنے والا اس کا دوست بھی اب اختلاف کرنے کا مزہ چکھ رہا ہے۔ فاعبتروا یا اولی الابصار
تازہ ترین