• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں سیاست کمزور اور جمہوریت مضبوط ہوتی نظر آ رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں متحدہ قومی موومنٹ جو مہاجرین کے حوالے سے اپنی پہچان کرواتی ہے، اس نے متحد ہو کر قومی وصوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ سے استعفے دے دیئے۔ یہ بڑے حوصلے کا کھیل ہے اور اب سیاست کے ظرف کو آزمایا جائے گا۔ عام تاثر تو یہی ہے کہ ’’مک مکا‘‘ کا فارمولا جو جناب سابق صدر جنرل مشرف نے رائج کروایا تھا، بہت ہی کامیاب سیاسی فارمولا بن چکا ہے۔ اس فارمولے نے نظریہ ضرورت کی جگہ لے لی ہے۔ پہلے جنرل مشرف کے دور میں جب احتساب کے نام پر انقلاب لانے کی کوشش کی جا رہی تھی تو نظریہ ضرورت کو مدنظر رکھا گیا۔ پیپلز پارٹی کے مخدوم امین فہیم جو سابق جنرل مشرف کے ذاتی دوستوں میں شمار کئے جاتے ہیں، انہوں نے حالات کے جبر کو مدنظر رکھ کر سابق صدر کو دوست کی حیثیت میں قبول کیا۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی بھی چاہتی تھی کہ وہ فوج کے ساتھ رابطے میں رہے۔ امین فہیم کی دوستی دونوں فریقوں کے لئے قابل قبول تھی۔ بے نظیر نے بعد میں بین الاقوامی ثالثی کے لئے ’’مک مکا‘‘ فارمولے کو حیثیت اور اہمیت دی اور اپنی وطن واپسی ممکن بنائی۔
پھر ملک میں سابق صدر جنرل مشرف نے مغربی جمہوریت کے کھیل کو فروغ دیا جس میں بین الاقوامی دوستوں کی نیازمندی سے بیرون ملک پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کو واپس لانے کے لئے بات چیت شروع کی گئی۔ اس بات چیت میں متحدہ کو خاص حیثیت حاصل رہی۔ اس خطے میں کراچی کے ساحل کو بڑی اہمیت حاصل ہے، کراچی میں امن کی صورت میں سیاسی کھلاڑیوں کی حیثیت ختم ہو جاتی۔ اسی کے کارن کراچی مسلسل بدامنی اور بدانتظامی کا شکار ہے اور جب بھی کراچی میں امن کے لئے کوششیں ہوتی ہیں ہماری سیاسی اشرافیہ بے چین اور بے کل ہو جاتی ہے۔ اور آج کل کی کیفیت بھی کچھ ایسی ہی نظر آ رہی ہے۔ کراچی پر حالیہ دنوں میں متحدہ کی گرفت کمزور ہوتی نظر آرہی ہے پھر پیپلز پارٹی کو اپنی حیثیت کا اندازہ ہو چکا ہے۔ ان کے سابق صدر بہت ہی اچھا کھیل کر بھی نیک نامی نہیں کما سکے۔ پیپلز پارٹی اندرونِ خانہ بہت ہی کمزور ہو چکی ہے اور کوئی ایسا لیڈر دستیاب نہیں جو اس ڈوبتی اور ٹوٹتی پارٹی کو سہارا دے سکے۔ بیچارے نوجوان بلاول زرداری کو پرانی تلوار سے نئی سیاست کا سپہ سالار بنایا جا رہا ہے۔ تجربے کی کمی اور ہمت کا فقدان اس نوجوان کی کمزوری ہے ایسے میں جوا کھیلنا مناسب نہیں۔
پاکستان کے جمہور کو اس منافقت کی سیاست اور قیادت نے بہت ہی مایوس کیا ہے۔ اگر جمہوریت کی یہ شکل ہے تو کوئی بھی اس پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں مگر ہماری اشرافیہ اور سیاسی گروہ اس بدنام زمانہ جمہوریت پر بہت یقین رکھتے ہیں۔ اس جمہوریت سے کوئی بھی خوش نہیں مگر یہ سکہ رائج الوقت ہے اور چل رہا ہے۔ سب اپنی اپنی قیمت لگا رہے ہیں اور اس سے ہی جمہوریت کے حسن میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہماری پاکستانی جمہوریت اصل میں نظریہ ضرورت کی پیداوار ہے۔ نظریہ ضرورت کو متروک کرنے کی کوشش اور جمہور کو نظرانداز کرنے کی منصوبہ بندی کے نتیجے میں جمہوریت کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ یہ سیاسی قبضہ گروپوں کا کھیل ہے جس میں سب سے برا سلوک پاکستانی عوام سے ہو رہا ہے۔ ان کے ووٹوں سے جمہوریت کے لئے سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور منافع سیاستدان اور اشرافیہ ہڑپ کر رہی ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ یہ جمہوری نظام اور کھیل منافع کا نہیں ہے یہ تو وقت کی ضرورت ہے۔ ہمارے سیاستدان نقصان برداشت نہیں کر سکتے وہ کہتے ہیں جان جائے عزت جائے ملک جائے مگر مایا نہ جائے اور مال بنتا رہے اور لوگ اچھی امید کے ساتھ اپنا حال برباد کرتے رہیں اور بے حیثیت ہوتے رہیں۔ سابق صدر پاکستان اور پیپلز پارٹی کے نگران آصف علی زرداری نے پانچ سال میں جمہوریت کے لئے بہت سی سرمایہ کاری کی اور ان کو اندازہ تھا کہ منافع کے نتیجہ میں اگلے پانچ سال خاموشی سے گزر جائیں گے۔ پھر جن کے ساتھ مل کر یہ عوامی سرمایہ کاری کا کھیل کھیلا گیا وہ حیران تھے کہ سابق صدر نے سب کچھ بچا بھی لیا اور کما بھی لیا۔ کراچی اور سندھ میں ان کی کمائی اب بھی جاری ہے۔ جو لوگ ان کے کھیل میں شامل تھے وہ اب ان کی نیت پر شک کر رہے ہیں اور شک اور شبہ ہی اس جمہوریت کے لئے سب سے خطرناک ہے۔ یہ سازش کو جنم دیتا ہے اور مفاد کا کینسر جمہوریت کے تمام اصولوں کو مشکوک کر کے کھیل ہی کو برباد کر دیتا ہے اور شاید اسی وجہ سے سیاستدان جب بے بس ہوتے ہیں تو ان کا منصوبہ ہوتا ہے نہ کھیلیں گے اور نہ ہی کھیلنے دیں گے۔ اب متحدہ کے استعفے اس جمہوریت میں اپنے وقت کے حوالے سے بہت ہی اچھا کھیل پیش کر رہے ہیں۔ وہ استعفوں کی وجہ میں کسی فریق کا نام نہیں لیتے، وہ اپنی بے چارگی کا احساس یہ کہہ کر دلواتے ہیں کہ ’’ہم کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے‘‘ اور نہ ہی اس ڈر کا بتاتے ہیں کہ ان کو دیوار کے پار بھی کیا جا سکتا ہے۔ ایسے میں استعفے ہی ان کی جنگ میں کام آ سکتے ہیں۔ اس وقت ہماری جمہوریت کسی بھی استعفے کو قبول نہیں کر سکتی ہے۔ یہ ایک ایسا خوفناک جرثومہ ہے جو بہت ہی تیزی سے پھیل سکتا ہے اور اگر یہ پھیل گیا تو جمہوریت کا دھڑن تختہ ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ تو اس وقت پوری کوشش ہو گی کہ ’’نظریہ ضرورت‘‘ کو فارمولا ون مان کر اور ’’مک مکا‘‘ کو قانونی حیثیت دے کر اس بحرانی کیفیت سے نکلا جائے۔ اس سلسلے میں فریقین اپنے باہمی اختلافات کو نظر انداز کرنے پر رضامند ہو رہے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں سب سے کمزور فریق احتساب ہو گا کیونکہ جمہوریت کے محل کو بچانے کے لئے رجوڑے میں ’’احتساب‘‘ کی نیکی برباد کرنا ضروری ہے۔ اس کے لئے قانون کی من مانی تشریحات بھی منظر عام پر آ سکتی ہیں اور ایسے میں کوئی من چلا اعلیٰ عدالت کی گھنٹی بجا سکتا ہے۔ اب کی بار عدالت سیاسی اشرافیہ کے گندے کپڑے دھونے کو تیار نہ ہو۔
خیر سے جمہوریت کا خوبصورت چہرہ تو بے نقاب ہونے سے رہا، اس کا چہرہ دکھانے کی ضرورت بھی نہیں، مگر جمہوریت کے نام پر جو کھیل شروع ہو چکا ہے وہ ملکی اداروں کے لئے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے؟ متحدہ قومی موومنٹ کے ہاتھ میں ترپ کا پتہ ہے۔ دوسرے فریق اب اپنے پتے بدلنے کو تیار ہیں مگر چال چلنے سے پہلے سب ایک دوسرے کو یقین دلا رہے ہیں کہ جو مال اس وقت دائو پر لگا ہے وہ برباد نہ ہو جائے پہلے مال بچائو پھر جمہوریت کا سوچنا۔ سو کھیل بہت ہی دلچسپ ہوتا جا رہا ہے اور مجھے یقین ہے کہ جمہوریت کی عظمت کے لئے متحدہ اپنا مفاد تو قربان نہیں کرے گی مگر استعفوں کا ہتھیار حسب سابق پھر کسی وقت کے لئے محفوظ کر لے گی اور سیاست اور رقابت کا یہ کھیل جمہوریت کی اسٹیج پر چلتا رہے گا۔
کہنے والے اور سننے والے بہت ہیں زبان خلق کو نقارئہ خدا والا محاورہ جمہوریت کے دامن میں بے حیثیت ہو چکا ہے۔ کیا 2015ء تبدیلیوں کا سال ہے؟ کیا یہ عوام کو موقع دے گا کہ وہ ایک بار پھر لوگوں کو بدلنے کا موقع دیں۔ عوام بے چارے تو اپنی قسمت بدلنے سے رہے۔ پرانی قیمت پر چاکری ان کے مقدر میں لکھی جا چکی ہے اور جمہوریت کا بہترین تحفہ عوام سے انتقام ہے کہ وہ جمہوریت پر یقین کیوں نہیں رکھتے۔ جمہوریت ایک اچھا تماشا ہے اور جمہور اچھے تماشائی۔
تازہ ترین