• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایم کیو ایم کے ارکان پارلیمنٹ کا استعفیٰ ۔ حقیقت کیا ہے

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم ) کے ارکان سینیٹ، قومی اور سندھ اسمبلی کے استعفوں کے مضمرات اور اثرات پر متعدد سیاسی اور غیر سیاسی حلقے مختلف آراء کا اظہار کر رہے ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟ اسے جاننے کے لئے معاملات کو وسیع تر تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایم کیو ایم کے ارکان نے اپنے استعفوں کے 19 اسباب بیان کئے ہیں، جو انہوں نے تحریری طور پر استعفوں کے ساتھ منسلک بھی کئے ہیں۔ 19میں سے 13 اسباب میں کراچی میں دہشت گردی کے خلاف ہونے والے ٹارگٹڈ آپریشن کے حوالے سے شکایات کی گئی ہیں اور یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس ٹارگٹڈ آپریشن میں ایم کیو ایم کے رہنمائوں اور ارکان کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ آپریشن غیرجانبدار نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کے متعدد کارکن لاپتہ ہیں اور بعض لاپتہ کارکنوں کی لاشیں ملی ہیں۔دیگر اسبابمیں سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ مبینہ زیادتیوں کا ذکر ہے۔ اسباب کے 14 ویں نکتے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان، وفاقی وزیر خواجہ آصف، سینئر سیاست دان محمود خان اچکزئی، جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن اور سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی فوج پر کھلے عام تنقید کی ہے۔ اس کے باوجود اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسمبلیوں میں چونکہ اُن کی بات نہیں سُنی جانتی ہے لہٰذا اِن اسمبلیوں میں بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
یہ تو ایم کیو ایم کا مؤقف ہے۔ دوسری سیاسی جماعتیں خصوصاً پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت ایم کیو ایم کے استعفوں کو دوسرے تناظر میں دیکھ رہی ہے۔ اُن کا خیال یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے اس اچانک فیصلے سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوگا اور سیاسی ادارے کمزور ہوں گے۔ اگرچہ اِن دونوں سیاسی جماعتوں کی قیادت نے یہ سبب نہیں بتایا کہ ایم کیو ایم سیاسی عدم استحکام کیوں پیدا کرنا چاہتی ہے، آیا وہ کسی کے کہنے پر ایسا کر رہی ہے یا اس کے پس پردہ کچھ دیگر اسباب ہیں؟ دونوں سیاسی جماعتوں کی یہ کوشش ہے کہ ان استعفوں کی وجہ سے سیاسی بحران پیدا نہ ہو۔ اس لئے دونوں حکمران جماعتوں کے قائدین یہ چاہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے ارکان استعفی واپس لے لیں۔ پاکستان تحریک انصاف اور بعض دیگر سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کا مؤقف یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ سیکورٹی اداروں پر دباؤ ڈالنے کے لئے یہ حربہ استعمال کیا ہے تاکہ ایم کیو ایم کی قیادت کے خلاف لندن میں چلنے والے مقدمات کے حوالے سے حکومت پاکستان وہ معاونت فراہم نہ کرے جو اسکاٹ لینڈ پولیس کو درکار ہے۔ اس کے علاوہ کراچی میں بعض امکانی کارروائیوں کا تدارک کیا جاسکے۔ یہ ان سیاسی جماعتوں کا مؤقف ہے، جس سے کوئی بھی اتفاق کرسکتا ہے اور اختلاف بھی کر سکتا ہے۔ کچھ لوگ در پردہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بعض قوتیں ایم کیو ایم کے منتخب ارکان کا فارورڈ بلاک بنانے اور اُن میں سے بعض ارکان پر دباؤ ڈال کر اُن کی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کررہی تھیں۔ اس صورتحال سے بچنے کے لئے ایم کیو ایم کی قیادت نے اپنے ارکان سے استعفیٰ دلوا کر اُن قوتوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ ایم کیو ایم کے ارکان کی سیاسی وفاداریاں تبدیل نہیں کی جاسکتی ہیں۔ کراچی میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جو ٹارگٹڈ آپریشن کے حوالے سے رینجرز اور پولیس کے جاری کردہ اعداد و شمار کی روشنی میں یہ کہتے ہیں کہ اس ٹارگٹڈ آپریشن میں رینجرز اور پولیس کے ساتھ مقابلوں میں زیادہ تر وہ لوگ مارے گئے، جنہیں ایم کیو ایم کے مخالف تصور کیا جاتا ہے۔ اس آپریشن میں ایم کیو ایم کی اُن مخالف قوتوں کا صفایا ہو چکا ہے جو کبھی ایم کیو ایم کو مزاحمت دینے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایم کیو ایم ٹارگٹڈ آپریشن کے خلاف باتیں کرکے یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ آپریشن میں اُس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہو رہی بلکہ مبینہ طور پر زیادتیاں ہو رہی ہیں ۔ کچھ دیگر لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے سیاسی تنہائی سے نکلنے کے لئے یہ اقدام کیا ہے کہ سیاسی بحران سے بچنے کے لئے سیاسی قوتیں اُس کے ساتھ دوبارہ سیاسی رشتہ جوڑیں۔ بہرحال جتنے منہ، اتنی باتیں۔ بہت سی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ لیکن حقائق کو مزید وسیع تر تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اس امر سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اگر ایم کیو ایم ارکان استعفیٰ واپس نہیں لیتے (تادم تحریر انہوں نے واپس نہیں لئے تھے) تو ملک میں بڑا سیاسی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کراچی میں دہشت گردی کے خلاف جاری ٹارگٹڈ آپریشن بھی متنازع بن سکتا ہے، جس پر پہلے کسی نے اعتراض نہیں کیا تھا۔ موجودہ حالات میں پاکستان کسی سیاسی بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے اور نہ ہی یہ بات ملک کے مفاد میں ہے کہ آپریشن متنازع بن جائے۔ سندھ میں بڑا سیاسی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ سندھ اسمبلی کے 168 کے ایوان میں ایم کیو ایم کے ارکان کی تعداد 51 ہے۔ ایم کیو ایم کے 24 ارکان قومی اسمبلی کی نشستیں بھی سندھ سے ہیں۔ اس قدر زیادہ نشستوں پر ضمنی انتخابات کوئی آسان کام نہیں ہے۔ سندھ میں پہلے ہی بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، جو آئندہ نومبر یا دسمبر میں ہو سکتے ہیں۔ فوری طور پر ضمنی انتخابات کا نہ ہونا بھی سندھ میں سیاسی بے چینی کا سبب بن سکتا ہے۔ دوسری طرف ایسے حالات پیدا کرنے سے بھی گریز کرنا چاہئے‘ جن میں رینجرز اور دیگر سیکورٹی اداروں کی غیرجانبداری کے بارے میں سوالات کئے جانے لگیں۔ پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے دہشت گردی کے خلاف حالیہ جنگ میں خود بھی بہت قربانیاں دی ہیں اور ان کی کوششوں کی وجہ سے حالات بہت بہتر ہوئے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ایم کیو ایم کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ ایم کیو ایم کا یہ مطالبہ تو بالکل جائز ہے کہ آپریشن کی نگرانی کے لئے مانیٹرنگ کمیٹی قائم کی جائے۔ مانیٹرنگ کمیٹی کی تشکیل پر تمام سیاسی جماعتوں اور سیکورٹی اداروں نے اتفاق کیا تھا۔ سیاسی استحکام کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی مکمل کامیابی تک اسے جاری رکھنا ضروری ہے۔
تازہ ترین