• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رمضان المبارک کی ستائیس تاریخ کو لاہور دریائے راوی کے مغربی کنارے آباد بستی ’’شاہدرہ ‘‘ میں بدنصیب ماں باپ اپنے چار معصوم اور نوعمر بچوں سے محروم ہو گئے یہ بچے رات کو سوتے میں کمرے کے اندر شارٹ سرکٹ کے باعث بھڑک اٹھنے والی آگ میں جل کر ہلاک ہوئے۔ بچوں کے والدین شب بیداری کے لئے قریب مسجد میں چلے گئے تھے،بچوں کو ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں سوتا چھوڑ گئے اور جاتے ہوئے باہر سے دروازے کی کنڈی چڑھا دی۔ بیرونی دروازے کو بھی باہر سے تالا لگا دیا۔ رات کسی وقت بجلی کی تاروں میں خرابی کی وجہ سے شعلہ بھڑکا جس سے پردوں نے آگ پکڑلی بدقسمتی سے یہ سب اسی کمرے میں ہوا جہاں بچے سو رہے تھے ، آگ کی تپش سے اگر وہ جاگ گئے ہوں، تب بھی وہ کمرے سے باہر نہیں نکل سکتے تھے کیونکہ دروازے کے باہر کنڈی لگی ہوئی تھی اس طرح معصوم بچے اس دہکتے تنور میں پھنس کے رہ گئے ۔جب آگ کے شعلے دور سے نظر آنے لگے تو اہل محلہ مدد کو آئے مگر پہلی رکاوٹ بیرونی دروازے میں لگا ہوا تالا تھا جب تک مدد گار تالا توڑ کے اندر آئے اس وقت تک بچوں والا کمرہ شعلوں میں بدل چکا تھا۔ نزدیک ترین آگ بجھانے والے انجن ناکارہ تھے نہ ان میں پٹرول تھا نہ ہی وہ بغیر دھکا لگائے اسٹارٹ ہو سکتے تھے۔ چنانچہ ریسکیو 1122کو اطلاع دی گئی ان کے آنے تک مکان اور مکین راکھ ہو چکے تھے ۔ ذرائع ابلاغ کے زیر اثر وزیر اعلیٰ پنجاب جائے وقوعہ پر پہنچے بچوں کے والدین اور عزیز واقارب سے اظہار افسوس کیا، مالی امداد کا اعلان ہوا اور یقین دلایا گیا کہ ریسکیو عملے کے بروقت نہ پہنچنے پر ان کا احتساب کیا جائے گا ۔ اگرچہ والدین کا دکھ ناقابل بیان اور نقصان ناقابل تلافی ہے پھر بھی اس حادثے میں ہونے والے نقصان کے اصل ذمہ دار بچوں کے والدین خود تھے، جو کم عمر بچوں کو رات بھر کے لئے تنہا چھوڑ گئے اور ان کے بچ نکلنے کے رستے میں نادانستہ رکاوٹیں بھی کھڑی کر گئے ۔ یہ ناگہانی واقعہ باپ کی مجرمانہ غفلت کا نتیجہ ہے، انہیں لازماً قانون کے سامنے جوابدہ ہونا چاہئے تھا مگر ایسا کچھ نہیں ہوا، الٹا ریسکیو عملے کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔
اب آئیے قصور کے واقعہ کی طرف، بچوں کی حفاظت اور رکھوالی کی پہلی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ ان پر نظر رکھیں اور کسی مصیبت میں پھنس جانے سے بچائے رکھیں پھر بھی اگربچہ کسی مشکل کا شکار ہو جائے تو اسے اس مشکل یا مصیبت سے نکالے ،خود بے بس ہو جائے تو اپنے دوستوں عزیزوں کی مدد طلب کرے۔ انٹرنیٹ اور جیو گرافک چینل پر تین واقعات نظر سے گزرے ۔ہمارے گھروں میں رہنے و الی چھوٹی چڑیا نے جھاڑی میں انڈے دے رکھے ہیں ایک بڑا سانپ انڈے کھانے کے لئے جھاڑی کی طرف آتا ہے تو منی سی معصوم چڑیا بے چین ہو کر اس پر حملہ آور ہوتی ،سانپ کے سر پر چونچ مارتی، پنجے سے ٹھوکر لگا کرتیزی سے اوپر اٹھتی کہ سانپ اس کو دبوچ نہیں سکتا یہ عمل بہت تیزی اور تواتر سے دہراتی ہے حتیٰ کہ سانپ زچ ہو کر بھاگ نکلتا ہے ۔ دوسری فلم میں ایک ہرن کا بچہ شیر کے گھیرے میں آتا ہے تو ہرنی شیر پر حملہ آور ہوتی ہے اور شیر کو سینگوں پر لیتی ہے یہاں تک کہ شیر بھاگ نکلتا ہے ۔تیسرے واقعہ میں تین شیر بھینس کے بچے کو گھیر لیتے ہیں، بچے کو خطرے میں دیکھ کر اس کی ماں شیروں پر حملہ آور ہوتی ہے ، ساتھ ہی زور سے ڈکراتی جا رہی ہے ، قریب ہی ایک ریوڑ آواز سن کر بھاگتا ہوا جائے حادثہ پر پہنچ جاتا ہے ، ریوڑ کے بھینسے شیروں پر حملہ کر دیتے ہیں، شیر بھاگ نکلتے ہیں لیکن ایک بدقسمت شیر بھینسے کے سینگ کی زد میں آ جاتا ہے بھینسا اسے دوسرے بھینسے کی طرف اچھال دیتا ہے۔ چند منٹ میں شیر مردہ پڑا ہے اور ریوڑ اپنے بچے کو لیکر روانہ ہو جاتا ہے ۔ ان تینوں واقعات میں ممتا اپنے انڈے اور بچوں کی حفاظت کرتی ہے، سانپ چڑیا پر حملہ آور ہوتا تو وہ کبھی مقابلہ نہ کرتی اڑ جاتی یا اس کا نوالہ بنتی۔ ہرن ہمیشہ شیر کا نوالہ بنتے ہیں لیکن بچے کی سلامتی کے لئے وہ بھی میدان میں اتر آتی ہے ۔ قصور کے واقعہ میں ملوث ملزمان کو ٹیلی وژن پر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ان میں کوئی ’’نو‘‘ گزا ہے نہ فولاد کا بنا ہوا ۔ ساڑھے پانچ فٹ کے عام سے غیر متاثر کن لوگ، سنتے ہیں کہ ان اوباش نوجوانوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد پچیس تھی متاثرہ بچوں کی تعداد سینکڑوںمیں ہے وہ چار دیہات تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں پچاس سے زیادہ وہ لوگ ہیں جن کے نام خود ملزمان نے بتائے تھے اور ان کے والدین اس قدر بزدل اور بے حمیت تھے کہ اپنے بچوں کے نام متاثرین کی فہرست سے نکلوانے کے لئے پولیس کو بھاری رشوت پیش کر آئے ۔غیرت مر جائے تو پھر کونسی عزت ہے جس کو بچانے کےلئے پولیس کو رشوت کی پیشکش کی گئی۔ چار گائوں کے سینکڑوں جواں مرد مل کے ایک ہرن کی جرات اور ایک چڑیا کی غیرت اور بھینس کی عقل جتنا مظاہرہ بھی نہ کر سکے۔ ان جواں مردوں کے بارے میں کیا رائے قائم کی جائے جو گھر کی عورتوں کو ساتھ لیکر ملزموں کے گھروں میں جاکر ناکردہ گناہوں کی معافی اور رحم کی بھیک مانگتے رہے۔
ہم ایسے بے بساط ہیں کہ ہر بساط پر
کھیلے بغیر ہار گئے مات ہوگئی!
ایسے ہی بے ہمت اور بزدل تھے آپ کے نوجوانوں کے آتشِ انتقام بجھ چکی تھی تو وہ رقم جو اپنے بچوں کے متاثرین کی فہرست سے نکلوانے کے لئے دی ہے وہ پولیس مقابلے پر خرچ کر دی ہوتی تو یہ بدقماش پولیس کے ہاتھوں انجام کو پہنچ جاتے یا ’’کرائے کے غنڈے‘‘ حاصل کر لئے ہوتے جو ناموس کے ان دشمنوں کے جبڑے چیر دیتے ہڈیوں کو سرمہ کرتے کہ ان کی بدمعاشی ناک کے رستے نکل گئی ہوتی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا چاہئے کہ وہ ایسے لوگوں کو اولاد نہ دے جو جرات، بہادری اور دلیری سے عاری ہوں جو اپنی اولاد کی حفاظت اور رکھوالی کے قابل نہ ہوں۔ہر سانحہ، المیے اور جرم کے پیچھے کہیں نہ کہیں پولیس کا ہاتھ ضرور رہا ہو گا۔یہاں جو کچھ بھی جرم ہے یہ پولیس کے ظلم یا حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہے ۔انہی کے فیضانِ نظر سے معمولی مجرم مشاق اور پختہ کار بنتے ہیں ۔چند برس ہوتے ہیں لاہور شہر میں ایک نفسیاتی مریض نے ایک ایک کرکے 100بچوں کو اغوا کیا انہیں قتل کرکے تیزاب کے ڈرم میں پھینک کر ان کے جسم اور ہڈیوں کو گلا دیا کرتا 100بچے کئی مہینوں تک اغوا ہو کر قتل ہوتے رہے مگر پنجاب پولیس اور ان کے خفیہ ادارے اس کا پتہ لگانے میں ناکام رہے ۔حتیٰ کہ مجرم خود ہی منظر عام پر آگیا ۔اب لاہور کے نواح میں جو صوبائی دارا لحکومت ہے اور تمام اداروں کے صوبائی دفاتر یہاں کام کرتے ہیں ان کے بغل میں قصور جیسے حساس اور سرحدی قصبے میں گزشتہ چھ سال سے ایک گھنائونا کھیل کھیلا جا رہا ہے کئی دیہات میں بے چینی کے بعد ہا ہا کار مچ گئی لیکن پنجاب کی سپیشل برانچ، گڈ گورنس والے خادم اعلیٰ
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے
باغ تو سارا جانے ہے!
پولیس، مقامی سیاست دان، خفیہ ادارے، صوبائی حکومت جو ہے سو ہے کیا اب بھی افتخار چوہدری اگر چیف جسٹس ہوتے اس دلفگار واقعہ پر عدلیہ اسی طرح بے حس اور بے بس نظر آتی ؟
تازہ ترین