• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت سالوں کے بعد اس مرتبہ پوری پاکستان قوم نے اپنا یوم آزادی غیر متوقع طور پر انتہائی غیر معمولی جوش و خروش کے ساتھ منایا ۔ پاکستانیوں کے اس انداز کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی قوم ایک نئے ڈگر پر چل پڑی ہے ۔ لوگوں میں ایسا جذبہ تھا ‘ جو ہم نے تحریک پاکستان کے دوران اور قیام پاکستان کے بعد ابتدائی سالوں میں دیکھا ۔ درمیان میں یہ جذبہ کہیں ماند پڑ گیا تھا ۔ بعض مواقع ایسے بھی آئے ‘ جب مختلف حکومتوں نے اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت بحال کرنے کی غرض سے جشن آزادی منانے کیلئے سرکاری مشینری اور وسائل کا بے دریغ استعمال کیا لیکن لوگوں میں ایسا جوش اور ولولہ پیدا نہیں کیا جا سکا ۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بھی اگر چہ پاکستان کے 69 ویں یوم آزادی کے موقع پراس سال روایتی تقریبات کا انعقاد کیا لیکن لوگوں کو متحرک کرنے کیلئے کوئی خصوصی مہم نہیں چلائی۔ اس دفعہ لوگ خود پاکستانی پرچم ہاتھ میں تھام کر اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے گھروں سے نکل آئے ۔ اس پر تمام سیاسی جماعتیں ‘ ریاستی ادارے ‘ میڈیا اور تجزیہ کار سب ہی حیرت زدہ ہیں ۔ اُنہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ کسی سرکاری مہم کے بغیر ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر‘گائوں اور گوٹھ میں جشن آزادی کے اس قدر زیادہ جلوس ہوں گے ۔ہر سڑک اور گلی میں بچے اور بوڑھے رقص کر رہے ہوں گے ۔ افسوسناک بات تو یہ تھی کہ آ زادی جمہوریت کے ذریعے ملی مگر کسی سیاسی پارٹی نے جشن آزادی کی کوئی تقریب منعقد نہیں کی۔
اس جشن آزادی پر کراچی ایک بدلا ہوا شہر نظر آیا ۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ پورا کراچی سڑکوںپر اُمڈ آیا ہے ۔ ہر طرف سے قومی ترانوںاور نعروں کی گونج سنائی دے رہی تھی ۔ 14 اگست کو کراچی کی سڑکوں پر سفر کرنا آسان نہیں تھا ۔ ساحل سمندر کی طرف جانے والے راستے بند کر دئیے گئے تھے ۔ ایسی صورتحال عموماََ نئے سال کی آمد پر پیدا ہوتی ہے لیکن اس سال 14 اگست کے موقع پر نوجوانوں کا رُخ ساحل سمندر کی طرف تھا ۔ اس کے علاوہ شہر کی تمام شاہراہوں پر پاکستانی پرچم تھامے نوجوانوں کا راج رہا ۔ ہر گلی اور محلے میں تقریبات منعقد ہو رہی تھیں ۔ لوگوں نے اپنے گھروں کو جھنڈیوں اور رنگ برنگی روشنیوں سے سجایا ہوا تھا ۔ ہر زبان اور ہر مسلک کے لوگ ایک ہی جذبے کے ساتھ گاڑیوں کے جلوسوں میں شہر کے مختلف علاقوں کا چکر لگاتے رہے ۔ طویل عرصے بعد کراچی میں قومی یکجہتی کا ایسا مظاہرہ دیکھا گیا ۔ ایک زمانہ ایسا بھی تھا ‘ جب مختلف لسانی یا فرقہ وارانہ گروہ کے لوگوں کے جلوس ایک دوسرے کے سامنے آتے تھے تو تصادم اور ٹکراؤ کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے لیکن اس مرتبہ کراچی کی شاہراہوں پر سب لوگ شیرو شکر تھے اور مل کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے ۔ ممتاز فرانسیسی مفکر اور فلسفی والٹیئر (Voltaire) نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’ آپ جو کہتے ہو ‘ میںاُسے رد کرتا ہوں لیکن میں آپ کی یہ بات کہنے کے حق کا مرتے دم تک دفاع کروں گا کیونکہ میرے نزدیک حقیقی آزادی یہی ہے کہ میں بات کرنے کے آپکے حق کا دفاع کروں ‘‘۔ اس مرتبہ کراچی کی سڑکوں پر یہی محسوس ہو رہا تھا کہ ہم حقیقی آزادی کا جشن منا رہے ہیں ۔ اس مرتبہ کراچی یکسر بدلا ہوا تھا ۔
بلوچستان میں بھی اس یوم آزادی پر صورت حال قدرے مختلف تھی ۔ کچھ سال پہلے وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار محمد اسلم رئیسانی یوم پاکستان کے موقع پر پاکستان کا جھنڈا نہیں لہرا پا ئے تھے لیکن اس دفعہ کوئٹہ میں بھی ماحول بہت بہتر تھا اور لوگ پاکستانی پرچم ہاتھ میں تھام کر سڑکوں پر تھے ۔کوئٹہ میںبہت سالوں بعد یوم آزادی کی بڑی تقریب منعقد ہوئی ، جس میں بعض ایسے لوگ بھی شامل ہوئے ،جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ فراری تھے اور انہوں نے ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شمولیت اختیار کر لی ہے ۔سرکاری دعوے اپنی جگہ لیکن حالات میںتبدیلی نمایاں ہے ۔ اسی طرح سوات ، وزیر ستان اور دیگر قبائلی علاقہ جات میں بھی جشن آزادی پورے جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا ‘ جہاں پہلے کوئی پاکستان کا پرچم بھی نہیں لہرا سکتا تھا۔ خیبر پختونخوا ، پنجاب ، سندھ ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی لوگ غیر متوقع طور پر گھروں سے نکل آئے اور اُنہوں نے اپنی دِلی خوشی کے ساتھ جشن آزادی منایا ۔
آزادی بہت بڑی نعمت ہے ۔ آزادی انسان کی رُوح ہے ۔ اِس کی قدر کرنے والی قومیں ہی عزت اور وقار حاصل کرتی ہیں ۔ جنوبی افریقہ کے عظیم حریت پسند رہنما نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ ’’ کسی کے آزاد ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ان زنجیروں کو توڑ دے ،جن میں وہ جکڑا ہوا تھا بلکہ آزادی کا مطلب ایسی زندگی گزارنا ہے ‘ جس میں دوسروں کی آزادی کا احترام اور تحفظ کیا جائے ۔ ‘‘نیلسن منڈیلا کے اس بیان کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس مرتبہ یوم آزادی کے موقع پر لوگ کسی سرکاری مہم کے بغیر اپنی مرضی اور خوشی سے اتنی بڑی تعداد میں سڑکوں پر کیو ں نکل آئے ۔ امن و امان کی بہتر صورت حال اس کا بنیادی سبب ہے ۔ لوگوں میں خوف ختم ہوا ہے ۔ لوگوں کو احساس ہوا ہے کہ اُن کی جان و مال اور عزت محفوظ ہے ۔ جہاں لوگوں کی آزادی کا احترام کیا جاتا ہو اور جہاں وہ خود کو محفوظ تصور کرتے ہوں ‘ وہاں وطن سے فطری محبت کا کھل کر اظہار ہوتا ہے ۔ انسان کا مٹی سے رشتہ ماں جیسا ہوتا ہے ۔ وطن تحفظ کا احساس ہے ۔ وطن محبت کا احساس ہے ۔ اس مرتبہ جشن آزادی کی ایک خاص بات یہ تھی کہ لوگوں نے ثقافتی طور پر یہ جشن منایا ۔ ہر جگہ مشاعرے ، موسیقی کی محفلیں اور دیگر ثقافتی پروگرام منعقد ہوئے ۔ جشن آزادی میں لوگوں کی شرکت روحانی طور پر تھی ۔اس دفعہ وہ مصنوعی ماحول نہیں تھا، جس میں حکمرانوں کے ذاتی یا گروہی مفادات کی تکمیل کیلئے حب الوطنی کے جذبے کو استعمال کیا جاتا تھا ۔ شاید اسی لئے خلیل جبران نے کہا تھا کہ اگر حب الوطنی ذاتی یا گروہی مفاد کیلئے ہو تو میں غدار کہلانا پسند کروں گا ۔ پاکستانی قوم کی حب الوطنی ہر مفاد سے بالاتر ہے ۔ جشن آزادی پر سب سے زیادہ جوش و خروش کا مظاہرہ اُن لوگوں نے کیا ،جنہیں شاید اس ملک میں وہ کچھ نہیں ملا ہے ‘ جو ہر ریاست کے شہریوں کا بنیادی حق ہوتا ہے ۔ اس مرتبہ پاکستان کے لوگوں نے کمال کر دیا اور انہوں نے بتا دیا کہ اگر اُنہیں پرُ امن ماحول میں میسر کیا جائے تو اُن کی وطن سے محبت لازوال ہے اور اُن کی آزادی نا قابلِ تنسیخ ہے ۔ پاکستان کے مخصوص مفادات رکھنے والے طبقات اور گروہوں نے عوام کو ہمیشہ خوف میں مبتلا رکھا ۔ اُنہوں نے اپنے مفادات کے تحت لوگوں کی حقیقی آزادی کو سلب کئے رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ فیض کو یہ کہنا پڑا کہ ’’ یہ وہ سحر تو نہیں ‘ جس کا انتظار تھا ‘‘اور ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی کتاب کا عنوان ’’ آزادی موہوم ‘‘ دینا پڑا ۔ لوگوں کو خوف و دہشت کے ماحول سے نجات ملی تو انہوں نے یہ واضح کر دیا کہ وہ اپنے وطن اور اپنی آزادی سے کس قدر محبت کرتے ہیں اور وہ آزادی موہوم کی بجائے حقیقی آزادی چاہتے ہیں ۔ لوگوں کے اس جذبے سے ہمارے حکمرانوں کو سبق حاصل کرنا چاہئے اور اس مرتبہ 14 اگست کے جشن آزاد ی کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کو ایک حقیقی خود مختار ملک بنانے کیلئے جرات مندانہ پالیسیاں وضع کرنی چاہئیں ۔
تازہ ترین