گزشتہ سالوں کی بہ نسبت اس سال پاکستان کا 68 واں یوم آزادی ملک بھر میں بڑی جوش و خروش اور شان و شوکت سے منایا گیا۔ عوام نے اپنے گھروں و عمارتوں کو قد آور پرچموں اور رنگ برنگی قمقموں سے سجایا۔ قونصلر کارپس سندھ کے ڈین اور یمن کے اعزازی قونصل جنرل کی حیثیت سے گورنر، وزیراعلیٰ سندھ اور کمشنر کراچی کی جانب سے مزار قائد پر پرچم کشائی اور جشن آزادی کی تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا جس میں، میں نے اپنے بھائی اشتیاق بیگ جو سندھ میں مراکش کے اعزازی قونصل جنرل ہیں، کے ہمراہ شرکت کی۔ ہمارے ساتھ ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر، کراچی میں نیوی کے کمانڈر وائس ایڈمرل سید عارف حسینی، امریکہ، روس، چین، جرمنی، سوئٹزرلینڈ، انڈونیشیا، فرانس، کوریا، جاپان اور خلیجی ممالک کے قونصل جنرلز بھی تقریب کے خصوصی مہمانوں میں شامل تھے۔ تقریب میں کراچی کے اسکولوں کے طلباء و طالبات ملی نغمات پیش کررہے تھے۔ کچھ دیر بعد گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد، وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور کمشنر کراچی شعیب صدیقی سندھ کابینہ کے وزراء کے ہمراہ پنڈال میں آئے جن کا میں نے مختلف ممالک کے قونصل جنرلز سے تعارف کرایا اور انہوں نے اپنے اپنے ممالک کی جانب سے پاکستان کی یوم آزادی کی مبارکباد پیش کی جس کے بعد قومی ترانے میں پرچم کشائی کی گئی اور مزار قائد پر حاضری دی گئی۔ ’’آپریشن ضرب عضب‘‘ اور ’’کراچی آپریشن‘‘ کی کامیابی کے باعث کئی سالوں کے بعدقوم نے مزار قائد پر پرچم کشائی اور جشن آزادی کی اتنی بڑی تقریب دیکھی جس میں شہر کے مختلف مکتبہ فکر کی شخصیات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ میں نے اپنے ساتھ بیٹھے ڈی جی رینجرز کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ آج کئی سالوں کے بعد مزار قائد پر پروقار تقریب دیکھنے کو ملی ہے جس کا تمام تر سہرا پاک فوج، رینجرز اور پولیس کو جاتا ہے جس نے سینکڑوں جانوں کا نذرانہ دیکر قوم کو تحفظ اور امن فراہم کیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ سندھ رینجرز کے پبلک ریلیشن ڈپارٹمنٹ سے مجھے روزانہ کراچی آپریشن کی تفصیلات بذریعہ ایس ایم ایس ملتی رہتی ہیں جنہیں میں بزنس کمیونٹی کے لیڈرز سے شیئر کرتا رہتا ہوں جس سے بزنس مینوں کے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے۔
قارئین! پاکستان کے 68ویں یوم آزادی کے موقع پر آج میں پاکستان کی ترقی کا ایک جائزہ پیش کرنا چاہوں گا کہ اس عرصے میں ہم نے کیا کھویا کیا پایا۔ اللہ تعالیٰ کی یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ پاکستان ایک آزاد و خود مختار ملک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ زیرو سے شروع کرنیوالے اس سفر سے پاکستان آج دنیا کی 46 ویں بڑی معیشت ہے۔ اسلامی دنیا کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت پاکستان کے پاس انتہائی تربیت یافتہ اور جدید اسلحے سے لیس دنیا کی پانچویں بڑی فوج ہے جبکہ جیٹ فائٹر، آبدوزیں، میزائل اور دیگر جنگی ساز و سامان نہ صرف ملکی ضروریات کے مطابق تیار کئے جارہے ہیں بلکہ انہیں ایکسپورٹ کرکے بھی قیمتی زرمبادلہ حاصل کیا جارہا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت حکومت چلانے کیلئے اخراجات 80کروڑ روپے اور آمدنی صرف 45کروڑ روپے تھی اور کمی کو پورا کرنے کیلئے محب وطن مخیر حضرات سے مدد لی جاتی ہے۔ آج پاکستان کے ریونیو2.5 کھرب روپے (ڈھائی ہزار ارب روپے) سے زائد ہے۔ میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ آزادی کے بعد سرکاری دفاتر میں مطلوبہ اسٹیشنری بھی دستیاب نہ تھی۔ کراچی جو اس وقت ملک کا دارالخلافہ تھا، میں لوگوں کی آمد و رفت کا ذریعہ ٹرام ہوتی تھیں۔ 1947ء میں ایک ہزار افراد کیلئے صرف ایک گاڑی جبکہ آج اتنے ہی افراد کیلئے 52 گاڑیاں دستیاب ہیں۔ پاکستان آلودگی سے پاک سی این جی سے چلنے والی گاڑیوں کے استعمال میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ آزادی کے بعد صرف4ہزار صارفین کو ٹیلیفون کی سہولتیں دستیاب تھیں اور ٹیلیفون کنکشن کیلئے 10 سال سے زائد کا عرصہ درکار ہوتا تھا لیکن آج 10کروڑ سے زائد افراد کو فون کی سہولتیں دستیاب ہیں اور پاکستان موبائل فون کے استعمال میں دنیا کا نواں بڑا ملک بن چکا ہے۔قیام پاکستان کے وقت عوام ٹی وی کی نشریات دیکھنے سے قاصر تھے لیکن آج ملک میں 100سے زائد مقامی اور بین الاقوامی چینلز ہر گھر میں دستیاب ہیں۔ قدرت نے پاکستان کو معدنی دولت سے مالا مال کیا ہے۔جیولوجیکل سروے کے مطابق ہمارے ملک میں 6 لاکھ مربع کلومیٹر کے رقبے میں معدنی ذخائر موجود ہیں جن میںسے کوئلے، تانبے، سونے، قدرتی گیس، تیل، ماربل، قیمتی پتھر، گرنائیڈ، نمک اور چونے کے ذخائر قابل ذکر ہیں۔ بلوچستان کے علاقے ریکوڈیک میں دنیا کے پانچویں بڑے تانبے کے 22 ارب پائونڈ اور سونے کے 13 ملین اونس کے ذخائر پائے جاتے ہیں جن کی مجموعی مالیت 500 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان میں تھر اور لاکھڑا کے مقام پر دنیا کے تیسرے بڑے کوئلے کے 185 ارب ٹن کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ سندھ میں تھر کے مقام پر 90 فٹ گہرے کوئلے کے ذخائر وہ زیر زمین کالی دولت ہے جس کے ذخائر سعودی عرب اور ایران کے تیل کے مجموعی ذخائر سے زیادہ ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں قدرتی گیس کے ذخائر عطا کئے ہیں اور اس وقت ہم 40 ارب کیوبک فٹ قدرتی گیس اپنی صنعتی، کمرشل اور گھریلو صارفین کو گیس پائپ لائن نیٹ ورک کے ذریعے مہیا کررہے ہیں جو ہماری مجموعی توانائی کا 50% ہے۔اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو چاروں موسم عطا کئے ہیں اور ملک میں دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی نظام پایا جاتا ہے۔ ہماری زمین زرخیز ہے جس کی وجہ سے پاکستان دنیا بھر میں کینو کی پیداوار میں پہلے، چنے کی پیداوار میں دوسرے، کپاس، چاول، کھجور اور خوبانی کی پیداوار میں چوتھا بڑا ملک ہے۔ اسی طرح پاکستان مچھلی، دودھ اور گنے کی پیداوار میں پانچویں، گندم کی پیداوار میں چھٹے، خشک میوہ جات، پیاز اور آم کی پیداوار میں ساتویں، قیمتی پتھروں اور سنگ مرمر کی پیداوار میں آٹھویں، چینی اور حلال گوشت کی پیداوار میں نویں جبکہ سیمنٹ اور چاول کی پیداوار میں بارہویں نمبر پر ہے۔اقوام متحدہ کی فوڈ اور ایگری کلچر آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ گھی پیدا کرنیوالا ملک ہے جبکہ ملک میں دنیا کے سب سے بڑے نمک کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ پاکستان دنیا میں معدنی ذخائر رکھنے والا امیر ترین لیکن اسے استعمال کرنے میں غریب ترین ملک ہے۔ ملک میں دنیا کے کوئلے کے چوتھے بڑے جبکہ سونے (100 ارب ڈالر) اور تانبے (27 ارب ڈالر) کے پانچویں بڑے ذخائر موجود ہیں لیکن 6 دہائیاں گزرنے کے باوجود بدقسمتی سے ہم ان قدرتی نعمتوں کو زمین سے نکال کر فائدہ نہیں اٹھاسکے۔ ملک میں دنیا کے تمام بڑے ٹیکسٹائل برانڈز تیار کئے جاتے ہیں۔ چین جو چند سال قبل تک فٹ بال بنانیوالا سب سے بڑا ملک تھا، اب پاکستان فٹ بال بنانے میں سرفہرست ہے۔ اسی طرح پاکستان خطے میں سیمنٹ ایکسپورٹ کرنیوالا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر جس میں اسٹیل، سیمنٹ، آٹو موبائل، شوگر، فرٹیلائزر، ٹیکسٹائل، ویجی ٹیبل گھی، صنعتی کیمیکل،پیٹرولیم پروڈکٹس، آٹو پارٹس، بجلی کے پنکھوں کی صنعت شامل ہیں نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔پاکستان کی ترقی بتاتے ہوئے میں ان چند اقدامات کا بھی ذکر کرنا چاہوں گا جن سے ہماری معاشی ترقی کو نقصان پہنچا اور جس کی وجہ سے ہم خطے میں دوسرے ممالک کی طرح ترقی نہیں کرسکے۔ان میں قیام پاکستان کے بعد جاگیرانہ اور وڈیرانہ نظام کا جاری رہنا، صنعتوں اور اداروں کو سرکاری تحویل (نیشنلائزیشن) میں لینا، ایٹمی دھماکے کے بعدفارن کرنسی بینک اکائونٹس منجمد کرنا، طویل عرصے تک ڈکٹیٹرز کی حکمرانی اور جنرل ضیاء کا پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینا شامل ہیں۔ سیاستدانوں نے ہمیں ایک قوم بنانے کے بجائے لسانی، فرقہ وارانہ اور مختلف مذہبی فرقوں میں بانٹ دیا ہے جس نے ملک میں دہشت گردی کو فروغ دیا ہے۔ قارئین! شخصیات غلطیاں کرسکتی ہیں لیکن ملک ان غلطیوں کا متحمل نہیں ہوسکتا جو اسے کئی دہائیوں پیچھے لے جائیں۔ اس کے باوجود ہمیں پاکستانی ہونے کے ناطے اپنے ملک کی ترقی کے سفر پر فخر کرنا چاہئے۔ آیئے آج ہم تجدید عہد وفا کریں کہ بابائے قوم کے ملک کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لاکھڑا کرینگے۔پاکستان کو آزاد، خود مختار اور معاشی طور پر مضبوط بنانے کیلئے موجودہ قیادت کو قائداعظم کے سنہری اصولوں اتحاد، تنظیم اور یقین محکم کو اپنانا ہوگا، بصورت دیگر آنیوالی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کرینگی۔