• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت ابھی تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں کے معاملے کو بمشکل نمٹا کر سکھ کا سانس بھی نہ لے پائی تھی کہ متحدہ قومی موومنٹ نے سینیٹ،قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی سے بیک وقت مستعفی ہو کراسے نئے گھن چکر میں ڈال دیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں پاکستان کی تخلیق کو ممکن بنانے والی مسلم لیگ "ن" کے لاحقے کے ساتھ اب اس نہج کو پہنچ چکی ہےکہ سیاسی بصیرت اور فہم و فراست ناپید۔ مفاہمتی سیاست کو جاری رکھنے کا دعویٰ کرنے والوں کے تدبرکا یہ عالم کہ گزشتہ اگست میں ایک اپوزیشن جماعت استعفے دے کر ایوان سے باہر گئی تو رواں اگست میں ایم کیو ایم کو انتہائی اقدام سے روکنے کی کوشش تک نہ کی گئی۔ جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم نے استعفوں کا فیصلہ اتنا اچانک کیا کہ ان کے ساتھ بات چیت کرنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔ منگل اور بدھ کی درمیانی شب ملکی میڈیا بریکنگ نیوز دیتا رہا کہ ایم کیو ایم کے ارکان پارلیمنٹ صبح استعفے متعلقہ اسپیکرز اور چیئرمین سینیٹ کو پیش کر دیں گے۔ میڈیا کی چیخ و پکار پر ساری قوم جاگ اور جان گئی لیکن اگر نیند سے بیدار نہ ہوئے تو ن لیگ کے بزرگ رہنما۔ یہاں مجھے وہ شعر یاد آ گیا کہ۔
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے۔۔جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے،باغ تو سارا جانے ہے۔
مسلم لیگ ن کی دور اندیشی بس یہیں تک موقوف نہیں بلکہ استعفوں سے قبل ایم کیو ایم کے پارلیمانی رہنما ڈاکٹر فاروق ستار قومی اسمبلی میں ایک گھنٹے تک دہائیاں دیتے رہے لیکن مجال ہے جو حکومتی بنچوں پر براجمان ارکان کے کانوں پر جوں تک رینگی ہو، کسی اہم قومی مسئلے پر کوئی سیاسی جماعت واک آئوٹ کرنے کا اعلان کردے تو اسے روکنے اور منانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن یہاں قومی اسمبلی کی چوتھی بڑی سیاسی جماعت پارلیمنٹ کو خیر آباد کہنے جا رہی تھی لیکن حکومتی نشستوں سے کسی نے ازراہِ تکلف بھی انہیں روکنے،سمجھانے یا بہلانے کی کوشش نہیں کی۔ حکمران جماعت کی شان بے نیازی کی حد تو یہ بھی دیکھی گئی کہ استعفے دینے کا اعلان کرنے کے بعد جس وقت ایم کیو ایم کے ارکان ایوان سے باہر جا رہے تھے تو ڈپٹی اسپیکر مرتضی جاوید عباسی باآواز بلند اگلا ایجنڈا آئٹم پڑھ رہے تھے۔ اس کے بعد متحدہ کے ارکان کے استعفوں کو وصول اور جھٹ پٹ ان کی تصدیق کرنے کے ذریعے جو "کارروائی"اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے ڈالی اس نے تو"سرداروں" کی "ذہانت" کو بھی مات دے دی۔ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے ترجمان محبوب گورمانی نے تو مزید پھرتی دکھاتے ہوئے ایم کیو ایم ارکان کے استعفوں کے نوٹیفکیشن سے متعلق اعلامیہ بھی تیار کروا دیا تاکہ وہ ــ’’کاروائی‘‘ مکمل ہونے پر فوری میڈیا کو جاری کرسکیں۔ حسب روایت جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تب حکمران جماعت کو ہوش آیا اور اب کمان سے نکلے ہوئے تیر کو مولانا فضل الرحمان کی بصیرت سے واپس ترکش میں ڈالنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ باخبر حلقوں نے بتایا کہ بیلا روس سے وطن واپسی پر وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اسپیکر قومی اسمبلی کے طرز عمل پرسخت نا پسندیدگی کا اظہارکیا اوراپنے چیمبر میں جب ان سے غیر معمولی عجلت کے بارے میں استفسار کیا تو اسپیکر نے تاویل پیش کی کہ وہ دولت مشترکہ کی پارلیمانی کانفرنس کی تیاریوں سے متعلق اجلاس کی صدارت کرنے جا رہے تھے کہ ایم کیو ایم کے ارکان، میڈیا نمائندوں سمیت ان کے چیمبر میں پہنچ گئے جس پر وہ سخت دبائو میں آگئے تاہم وہ استعفوں کی فوری تصدیق کرنے کے عمل کی کوئی خاطر خواہ وضاحت نہ کرسکے۔اس دوران وزیر اعظم نے انہیں پی ٹی آئی کے استعفوں کا حوالہ دے کر مہاجر کارڈ کے استعمال کے امکانات اور خدشات سے آگاہ کرتے ہوئے معاملے کی سنگینی کا احساس دلایا۔اس گو شمالی کے بعد اب اسپیکر’’ پلیز پراسس ‘‘کے الفاظ کی تشریح کے ذریعے اپنی غلطی کے ازالے کی کوشش کریں گے۔ اب جائزہ لیتے ہیں کہ متحدہ اس انتہائی قدم پر مجبور کیوں ہوئی جبکہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ استفعوں کے ضمن میں ان کے ساتھ تحریک انصاف کے ’’چہیتوں‘‘ جیسا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ یہ جاننے اور سمجھنے کیلئے ایم کیو ایم کی طرف سے استعفوں کے ساتھ پیش کی جانے والی ان 19 وجوہات کو بغور پڑھیں۔ایم کیو ایم کے طرز سیاست سے میری طرح کسی کو بھی اختلاف ہو سکتا ہے لیکن گزشتہ کافی عرصے سے وہ جن تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مسلسل کچھ مطالبات کر رہی ہے ان کے جائز،قانونی اور آئینی ہونے سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا۔
ایم کیوایم اگرکراچی آپریشن کا ہدف خود کو قرار دیتے ہوئے، یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اس آپریشن کی مانیٹرنگ کیلئے کمیٹی بنائی جائے تو وعدوں کے باوجود آج تک اس سے راہ فرار کیوں اختیار کیا جا رہا ہے۔متحدہ اگر اپنے کارکنوں کی جبری گمشدگی ،انہیں تشدد کا نشانہ بنانے اور ماورائے آئین ہلاک کرنے کے الزامات عائد کرتی ہےاورعدالتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کرتی ہے تو کیوں دودھ کا دودھ اور پانی کاپانی نہیں ہونے دیا جاتا۔ایم کیو ایم اپنی صفوں میں موجود جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈال رہی لیکن اگر حراست میں لئے گئے افراد کو عدالتوں میں پیش کر کے ریمانڈ لینے کا مطالبہ کرتی ہے تو یہ کیسے غیر آئینی ہے۔جب رہنمائوں اور کارکنوں کو ہتھکڑیاں لگا کر،چہرے ڈھانپ کرقطاروں میں غیرمہذب طریقے سے پیش کیا جاتاہے اور وہ بعد میں بے گناہ ثابت ہونے پر رہا کر دئیے جاتے ہیں، اور ایم کیو ایم اگر اس نا انصافی پر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر انگلی اٹھاتی ہے تو کیا وہ ملک دشمن ہے؟پیپلز پارٹی کے جرائم پیشہ اور بدعنوان عناصر حراست میں لئے جائیں تو حال ہی میں پارلیمانی بلوغت کی منزل طے کرنے والے بلاول بھٹو سے کور کمانڈر کراچی اور ڈی جی رینجرز ملاقات کر کے شکایات کے ازالے کا میکانزم تیارکرلیتے ہیں لیکن 40 کارکنوں کی ماورائے عدالت ہلاکت کا الزام لگانے والی ایم کیو ایم کو ملاقات کی درخواست پرکسی کی طرف سے کوئی جواب نہیںملتا تو ان کی داد رسی کیسے ہو۔ نائن زیرو پر دو بار چھاپہ مارا جائے اور الطاف حسین ناراض ہو کر پاکستان اور مسلح افواج کے متعلق وہ تقاریر کریں جن کو ان کے پارٹی کے بعض مرکزی رہنماؤں نے بھی پسند نہیں کیا توملک کے کونے کونے میں ان کے خلاف غداری کے مقدمات درج ہو جائیں۔ان کے خطاب پر پابندی عائد کر دی جائے تاہم بلاول ہاؤس پر چھاپے کی صرف افواہوں پر مسلح افواج کے سابق سپریم کمانڈرآصف زرداری براہ راست جرنیلوں کو مخاطب کر کے دھمکیاں دیں اور پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ اس کی توثیق بھی کردے لیکن کسی کی حب الوطنی جوش نہ مارے تو ایم کیو ایم کیسے مان لے کہ ہدف وہ نہیں۔ ان تلخ حقائق کے ساتھ آخر میں حکمرانوں سے یہی گزارش ہے کہ کراچی آپریشن اور ایم کیوا یم کے استعفوں کے معاملے پر آئین کو موم کی ناک نہ بنائیں کہ جسے اپنے مفاد کیلئے جب چاہا جیسے چاہا ڈھال لیا بلکہ ایم کیو ایم کے سیاسی وجود اور اس کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا جائے،اس کے جائز تحفظات کا ازالہ کرنے کیلئے اس کے آئینی اور قانونی مطالبات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ یہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے نہ صرف کراچی آپریشن کو متنازع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ ایم کیو ایم کو بھی ایوانوں کے اندر رکھ کرجمہوری کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا جا سکتا ہے۔
تازہ ترین