• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بیرون ممالک میں اسمبلیاں عموما قانون سازی کے لئے استعمال ہوتی ہیں ۔ اصلاحات کرتی ہیں۔قاعدے وضع کرتی ہیں۔ قانون بناتی ہیں۔ فلاح عامہ پر نگاہ رکھتی ہیں ۔ ترقیاتی امور کے ضابطے طے کرتی ہیں۔ امن و عامہ اور سلامتی کے معاملات زیربحث لاتی ہیں ۔بجٹ پر بات کرتی ہیں۔ملکی سلامتی کودرپیش چیلنجز کے مقابلے کا سوچتی ہیں۔ہمارے ہاں اسمبلی مندرجہ بالافروعی مقاصد سے ماورا ہو کر صر ف استعفیٰ سازی کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔
سناہے الیکشن لڑنا جان جوکھوں کا کام ہے۔کروڑوں روپے لگتے ہیں۔پوسٹر بنتے ہیں۔ نعرے لگتے ہیں ۔ کمپین چلتی ہے۔ وعدے وعید ہوتے ہیں۔ دعوے کئے جاتے ہیں۔حامیوں کے لئے بریانیوں کا بندوبست ہوتا ہے۔ٹرانسپورٹ فراہم کی جاتی ہے۔ لوگوں کے چھوٹے چھوٹے کام کرنا پڑتے ہیں۔پجارو سے اترنا پڑتا ہے۔ہر کمی کمین سے ہاتھ ملانا ہوتا ہے ۔میلے کچیلے غریب عوام کو گلے لگانا پڑتا ہے۔اس ساری محنت ، مشقت کا نتیجہ اگر صرف استعفے ہوں تو عوام کا حیران ہونا تو بنتا ہے۔
گزشتہ دو سالوں کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں اسمبلی میں جو بات سب سے زیادہ شدت سے زیر بحث آئی ہے وہ یا تو استعفوں کی واپسی ہے یا پھر استعفوں کی ادائیگی ہے۔ابتداء پی ٹی آئی نے کی۔اچانک ہی استعفوں کا ڈھیر لگ گیا۔ جس ایوان میں داخلے کے لئے اتنا کشٹ کاٹا،اسی کو ٹھوکر مار دی۔ جس جمہوریت کی بقاء کی داستان سنائی وہی بساط لپیٹ دی گئی ۔عجیب سی صورت حال پیدا ہو گئی۔ کچھ لوگ استعفے پر تیار نہیں ہو رہے تھے ۔ پہلے انہیں دھونس دھمکی سے استعفے کے لئے تیار کیا گیا۔ جو مستعفی نہ ہوئے انکو پارٹی سے ہی جبری مستعفی کر دیا گیا۔بہرکیف جب چار وناچار استعفے اسپیکر کو پہنچا دئیے گئے تو ایک اور گروپ استعفے رکوانے کے لئے سرگرم ہو گیا۔ اسحٰق ڈار اور اسد عمر سر جوڑ کر بیٹھے رہے اور بالاخر جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے بعد ارکان اسمبلی واپس اسمبلی میں آنے کو تیار ہو گئے۔اس تمام عرصے میں صرف استعفے موضوع بحث رہے ۔ عوامی خدمت وعدہ فردا پر اٹھا رکھی گئی۔
پی ٹی آئی کو بلاشبہ یہ اعزاز حاصل ہے کہ انکے استعفے اپنی پارٹی تک محدود نہیں رہے انکے استعفے کے مطالبات اسپیکر کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہوئے وزیراعظم کی نشست تک جا پہنچے۔ اس زمانے میں چند ہی ارکان ایسے بچے تھے جو استعفے کے مطالبے یا ادائیگی سے بچ گئے ہوں۔ جب ہر طرف استعفیٰ استعفیٰ کی ہاہاکار مچی تھی اورقانون سازی پس پشت چلی گئی تھی، عوامی مسائل زیر زمین دفن ہوگئے، فلاح کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔وعدے خاک میں مل گئے، دعوے زمیں بوس ہو گئے۔
خدا خدا کر کے یہ مسئلہ نمٹا پی ٹی آئی والے ایوان میں واپس آئے ۔اور وزیراعظم ، اسپیکر اور دیگر حکومتی ارکان استعفوں سے جب بال بال بچ گئے تو ایم کیو ایم کو اچانک جوش آگیا۔وہ ایوان جو استعفوں کی گفتگو کے بغیر چند ہی دن چل پایا تھا پھر ایک دفعہ استعفوں کی زد میں آگیا۔ وہی ایاز صادق جن کا استعفیٰ بڑی شدت سے مانگا جا رہا تھا اپنی نشست پر تشریف رکھے کٹی پتنگوں کی طرح استعفے لوٹنے لگے۔لو جی پھر کام شروع ہو گیا ۔ پہلے استعفے دیئے گئے اور پھر انکی واپسی کے لئے شدت سے مذاکرات شروع ہو گئے۔اسمبلی جو استعفوں کے نرغے سے نکلی تھی وہ پھر استعفوں کی زد میں آگئی۔عوامی مینڈیٹ ، جمہوریت کی بقاء ، ایوان کا تقدس سب پس پشت چلے گئے۔
اس دوران پیپلز پارٹی کی علیزے حیدر مستعفی ہو گئیں ۔ انکی وجوہات تو خیر ذاتی نوعیت کی تھیں مگر استعفیٰ تو بہر حال آگیا۔ لیکن مشاہد اللہ کا استعفیٰ ابھی تک کا سب سے کامیاب استعفیٰ ہے۔ یہ استعفیٰ پیش نہیں کیا گیا طلب کیا گیاہے۔ اسکا تعلق نشست سے بھی نہیں براہ راست وزارت سے ہے۔ اس استعفیٰ میں حکومتی ارکان کے لئے بڑا واضح سبق ہے۔ اگر واقعی اسمبلی کی کارروائی سے، وزارت کے کروفر سے اگر کسی رکن کا دل اتنا ہی بھر گیا ہے تو درست طریقہ یہ ہے۔
ایک عام اندازے کے مطابق الیکشن کرانے پر کروڑ ہا روپے خرچ ہوتے ہیں۔ سرکاری مشینری کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے۔ امور حکومت بہت عرصہ معطل رہتے ہیں۔ عوام کو دھوپ ، بارش اور موسم کی سختیاں جھیلتے ہوئے لائنوں میں لگنا پڑتا ہے۔ سرکاری افسران کی ڈیوٹیاں لگتی ہیں۔ ووٹ ، ووٹرز کی فہرستیں چھپتی ہیں، حلقہ بندیاں پھر واضح ہوتی ہیں۔ سرکاری خرچ پر میڈیا پر اشتہارات چلائے جاتے ہیں، ووٹ کی اہمیت سے عوام کو آگا ہ کیا جاتا ہے۔ جمہوریت کا مفہوم بتا یا جاتا ہے ۔ الیکشن کمیشن اپنے اعلانات میڈیا پر کرتا ہے۔ تب کہیں جا کر اس وطن عزیز میں الیکشن ہو پاتا ہے۔ یہ خرچ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ ہماری مجبور سی معیشت آئے روز اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اس ساری کاوش کے بعد اگر نتیجہ صرف اور صرف استعفوں کی دھمکیاں ، استعفوں کے مطالبات، استعفوں کی منظوری پر بحث اور استعفوں کی واپسی کے طریقہ کار تک محدود رہنا ہے تو لوگ اس سارے جمہوری عمل پر یقین کرنا چھوڑ دیں گے۔اس بے یقینی میں قصور وار قطعی طور پر اس ملک کے عوام نہیں ہوں گے۔ قصوروار وہ کہلائیں گے جو آئے روز اس مقدس عوامی مینڈیٹ کا مذاق اڑاتے ہیں۔
چلیں ایک لمحے کو فرض کر لیتے ہیں کہ اب تک اسمبلی میں جتنے بھی استعفے مانگے گئے اور پیش کئے گئے اگر وہ منظور ہو جاتے تو اس وقت اس مادر وطن کا کیا حال ہوتا۔ سارے ملک میں ری الیکشن ہو رہا ہوتا۔ الیکشن پر مزید اخراجات ہو رہے ہوتے۔
الیکشن کمیشن کے اشتہارات ٹی وی اسکرینوں پر جگمگا رہے ہوتے۔ پھر پوسٹرز ، بینروں پر عوامی فلاح کے وعدوں کے نعرے چھپ رہے ہوتے۔ کارنر میٹنگز ہو رہی ہوتیں، جلسوں کا انعقاد ہو رہا ہوتا۔ٹی وی چینلوں پر الیکشن کے رزلٹ کو سب سے پہلے دکھانے کا انتظام ہو رہا ہوتا۔ اسی دوران اپنی فلاح کے منتظر بہت سے لوگوں کا جمہوریت سے اعتبار اٹھ چکا ہوتا۔ اپنے لیڈروں کے دعوے انہیں برے لگ رہے ہوتے،اپنا ووٹ انہیں حقیر محسوس ہورہا ہوتا۔ عوام کی خدمت کے دعوے اب انکی سوچ پر بار بن رہے ہوتے۔
ملک ایک بلاوجہ کے بحران میں ہوتا۔ اور یہ سلسلہ یہاں رکنا نہیں ہے ۔ ضمنی الیکشن کے بعدہو سکتا ہے کہ پھر کوئی منچلی قیادت استعفوں کا نعرہ لگاتے ہوئے اور وقت واپسی کے سفر پر چل نکلے۔ ہمارے لیڈروں کو بس اسطرح کی کسی بھی مہم میں جانے سے پہلے یہ یاد رکھنا ہو گا کہ لوگ اپنے نمائندوں کو ووٹ انکی انا کے لئے نہیں بلکہ اپنی فلاح کے لئے دیتے ہیں۔ جو بھی اس کام میں تاخیر کا سبب بنے گا، وہ اگلے انتخابات میں عوامی غیض و غضب کا نشانہ بنے گا۔
تازہ ترین