• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلے میں یہ سمجھا تھا کہ وادی سوات کے قابل دید مقامات پر بجلی، پانی، گیس ،ٹیلی فون، اسپتال اور سڑک کی سہولتیں نہ ہونا حکومت کی نااہلی کا نتیجہ ہے لیکن پھرآہستہ آہستہ مجھ پرواضح ہوگیا اورمیں نے اچانک ازخود ہی محسوس کیا کہ شاید یہ حکومت اوراس کی وزارت سیاحت کی منصوبہ بندی ہوگی کہ ان مقامات کو مصنوعی پن یعنی تصنع سے بچایا جائے اورایسا کرکے دراصل وہ ان علاقوں کے حسن کو ان چیزوں کے منفی اثرات سے بچانااوراپنی اصل حالت میں رکھنا چاہتے ہیں ۔ حکومت کی منصوبہ بندی کی داددئیے بغیرنہیں رہاجاسکتاکہ حکومتیں موجودہ ہوں یا سابقہ ہوں سب نے ایک بات پرتواتفاق کیا ہوا ہے کہ سوات کوان مصنوعی چیزوں کے اثرات سے بچانا ہے اورایسا کرنے کے لئے وہ آخری حد تک گئیں یہاں تک کہ کسی مقام پرسڑک توکیا ٹھیک کرتیں انہوں نے کسی علاقے خصوصا کالام اورمالم جبہ جیسی سیاحتی جنت کی جانب رہنمائی کے سائن بورڈ تک نہیں لگائے اوریوں ہمارے سمیت سیاح بارباربھٹک کرخود ہی ڈھونڈتے ڈھونڈتے اپنے مطلوبہ مقامات تک پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن اتنی بدگمانی بھی نہیں اچھی، ایک کام جوان سب نے بڑے تواترسے اوربغیرکسی ناغے کے کیا ہے وہ ہے اس علاقے کے لوگوں اورسیاحوںکواپنی کارکردگی سے آگاہ کرنے کے لئے نمائشی بورڈزکالگایاجانا ۔ سڑک کے کناروں پرموجودہ اورسابقہ ایم پی ایزوایم این ایزکے ناموں کی تختیاں آویزاں ہیںاوریہ وہ واحد کام ہے جس میں انہوں نے کسی غفلت یاکنجوسی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ شاید یہ سب منتخب نمائندے یہ سمجھتے ہوںکہ یہاں آنے والے سیاحوں کورہنمائی کی ضرورت نہیں البتہ انہیں تویہ معلوم ہونا چاہیے کہ جنت نظیروادی سوات کے مختلف مقامات پرکس کس نے ترقیاتی کام کئے ہیں بے شک ان بورڈزکوپڑھتے پڑھتے یہ سیاح پاتال کی صورت ساتھ چلتی سینکڑوں ہزاروں فٹ کی گہرائیوں میں ہی کیوں نہ گرجائیں ۔
تحریر میں تالیاں بجائی جاسکتیں توہم ضروربجاتے اور ہم وزارت سیاحت کے پاس دستیاب فنڈ کوبچانے پراس کے وزیربلکہ پوری صوبائی حکومت کوداددیتے جنہوں نے سارے راستے میں نہ توکوئی معلوماتی نقشہ اورنہ ہی روٹ پلان بنایا ہے اورنہ ہی پورے سیاحتی سیزن میں سینکڑوں کلومیٹرپرمحیط اس علاقے میں سیاحوں کی رہنمائی کا کوئی کیمپ لگایا گیا ہے۔ہاں البتہ کسی نے بتایا کہ علاقے میں مسلم لیگ نون کے کرتا دھرتا اوروزیراعظم میاں نوازشریف کے مشیر انجنیئر امیرمقام کو ان سڑکوں کی تعمیرکا کروڑہا روپے کا ٹھیکہ مل چکا ہے لیکن اس پرابھی کام شروع نہیں ہوا۔ جب کام شروع ہوگا اس وقت تک رواں سال کا سیاحت کا سیزن ختم ہوچکا ہوگا اوراس کے بعد برف ان علاقوں کوڈھک لےگی اورجو سڑکیں تعمیرہوں گی وہ اس برف کے پگھلنے کے بعد ہو ںگی بھی یا نہیں اس کی کوئی گارنٹی نہیں یہ سڑکیں آئندہ سیاحتی سیزن تک پھربچ پائیں گی بھی یا نہیں ہاں ایک بات یقینی ہے کہ اس وقت کچھ اورناموں کی تختیاں اُگ کرسڑک کنارے لگ چکی ہونگیں۔وہ توبھلا ہوکہ قدرت موجود ہے جواپنے علاقوں کو ان "اہل "حاکموں کی دسترس سے بچائے ہوئے ہے اچھا ہے کہ ان علاقوںمیں اچانک آپ کوآگھیرنے والے بادلوں کی نقل وحرکت ابھی حکومتوں کونہیں دی گئی ورنہ وہ بھی جہاں تختی ہوتی وہیں پرچھاتے اورلوگوں کو خوشگوارموسم کے لئے بھی ان مقامات کی سیرکی بجائے بادلوں سے لطف اندوزہونے کے لئے انہی تختیوں کے پاس ہی کھڑے رہنا پڑتا، اچھا ہے کہ سڑک یااس راستے جس پرآپ جارہے ہوتے ہیں کے ساتھ ساتھ بہتے دریائوں کا پانی ابھی حکومتوں کے اختیارمیں نہیں ورنہ وہ پتہ نہیں "منصوبہ بندی"کرکرکے اس کا کیا حشرکرچکے ہوتے۔اچھا ہے کہ دھوپ سے پگھلتے برفیلی گلیشیرزپرابھی ان کا کوئی بس نہیں ورنہ وہ ان کے پانی سے صرف انہیں ہی نوازتے جوان کو ووٹ دیتے، اچھا ہے کہ ذہنوں پرخوابیدگی طاری کرنے والے جنگلوں پران کا کوئی زورنہیں چلتاورنہ وہ ان درختوں کے آس پاس سیاحوں کے بے دردی سے پھینکے ہوئے گند کو صاف نہ کرتے ہاں البتہ ان درختوں کی چھائوں بھی وہیں ڈالتے جہاں پر ان کو سیاسی فائدہ ہوتااورپھراس کے بعد ان درختوں کو ایسے ہی بیچ کے کھا جاتے جیسا پاکستان میں بڑے اداروں کو تقریبا بیچ کر کھاچکےہیں۔
شکرہے خدا کا کہ ان چیزوں پرحکومتوں کا اختیارنہیں اوریہی وجہ ہے کہ اب بھی سیاح جب اپنے بڑے بڑے ترقی یافتہ شہروں کراچی، لاہور، پشاور، اسلام آباد وغیرہ سے اس علاقے میں آتے ہیں توعلاقے میں قدرت کے کرشموں میں ایسے مگن ہوجاتے ہیں کہ بھول ہی جاتے ہیںکہ ترقی یافتہ دنیا کی ترقی اورسہولتیں بھی کوئی چیز ہوتی ہیں۔ وہ سیاحت کے لئے مشہورمقامات کوجانے والے راستوں کے پہلے اسٹاپ یعنی بحرین تک توبالکل صاف ستھری سڑک کوانجوائے کرتے ہیں اوراس کے بعد پھروہ 2010 کے بڑے سیلاب میں بہہ جانے والی سڑک کی باقیات پرہولیتے ہیں سڑک یقینا خراب ہے اورمحسوس بھی اسی لئے ہوتی ہے کہ آپ جب چکدرہ کے راستے تھانے کے مقام پرشموزئی پل کوعبورکرکے کبل، کانجو، مدین اوربحرین کی کارپٹڈ سڑک پرسفرکرتے ہیں اوراچانک بحرین سے آگے اپنے آپ کوایک تباہ حال سڑک پرپاتے ہیں تومحسوس ہونا توفطری بات ہے لیکن حیرت کا مقام ہے کہ بحرین سے کالام، کالام سے اوشواوراوشوسے مہوڈنڈجھیل تک کی ٹوٹی پھوٹی سڑک کا یا تومزاج نرم ہے یا کوئی اوربات ہے کہ گھنٹوں سفرکرنے کے باوجود ایک آدھ گاڑی کا ہی ٹائرپنکچرہوتے دیکھااورجب ہوا بھی تومقامی لوگ اپنے خوبصورت مزاج کا ثبوت دیتے ہوئے ٹائربدلنے میں مدد بھی کرتے دیکھے جومہمانوں سے اپنی بساط کے مطابق چائے پانی کا بھی پوچھ لیتے ہیں اب ہے ناں یہ عید کا سماں اورجنگل میں منگل ان لوگوں کے لئے جوبڑے شہروں میں رہتے ہوئے کسی راہ چلتے ہوئے کومفت میں کچھ کھلانا تودورکی بات صرف پوچھنے کے مزے سے بھی واقف نہیں ہوتے اسے کہتے ہیں" ھم خورمہ ھم ثواب "کہ کام بھی ہوگیا اورزندگی گزارنے کا ایک اچھا سا سبق بھی مل گیاکہ خود غریب رہ کرامیروں کی مدد کیسے کی جاسکتی ہے۔ خواہ مخواہ کی بدگمانی سے اجتناب کرتے ہوئے ہم خوش گمانی کا شکارہوجاتے ہیں کہ یقینا اس میں کوئی مشکل ضرور درپیش ہوگی کہ نہ ہی مسلم لیگ نون کی وفاقی اورنہ ہی تحریک انصاف کی صوبائی حکومتیں اس خطے میں بہنے والے جھرنوں سے بجلی بناسکیں اورنہ ہی اسے کسی اورکام لاسکیں تاہم ایک کام اورجوہوسکتا تھاوہ یہ تھا کہ میاں نوازشریف دس بار مری جانے کے بعد اگرایک چکریہاں کا بھی لگالیا کرتے اورعمران خان اپنی اہلیہ کے ہمراہ اس دنیاوی جنت میں بھی اگرکبھی کبھی ایک رات گزارنے آجایا کرتے تونہ صرف سیاحوں کا اعتماد مزید بحال ہوتابلکہ وہ سارے چھوٹے بڑے کام ان کے خوف سے خود بخود ہوجاتے جوابھی تک کوئی خوف خدا نہ ہونے کی وجہ سے نہیں کررہا۔
تازہ ترین