• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج سے تقریباً25 سال قبل برطانیہ کے گلوکار اسٹیو ہارلی (Steve Harley ) کا ایک گیت بہت مشہور ہوا تھا ۔ اس گیت کا عنوان ’’ آزادی کا اسیر ‘‘ ( Freedom's Prisoner ) تھا ۔ جب میں کالم تحریر کرنے لگتا ہوں تو مجھے پتہ نہیں کیوں یہ محسوس ہوتا ہے کہ میں آزادی کا اسیر ہوں ۔ اگر میں نے یہ آزادی استعمال نہ کی تو میں آزادی صحافت کا منکر قرار پاؤں گا ۔ آج کل سیاست دانوں اور سیاسی حکومتوں خاص طور پر سندھ حکومت کو کرپٹ اور نااہل کہنے کا رواج چل پڑا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سارے معاملات فوج ہی درست کر سکتی ہے ۔ اگر ان باتوں سے ہٹ کر کوئی بات کی جائے تو آزادی کی نعمتوں سے محروم ہونے کا احساس ہوتا ہے ۔ اس وقت جو میڈیا میں تبصرے اور تجزیے شائع اور نشر ہو رہے ہیں ، انہیںدیکھ کر یوں لگتا ہے کہ ہم 1950ء یا 1960 ء کے عشرے میں واپس آ گئے ہیں ۔ مجھے نہیں معلوم کہ آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف سمیت آج کے سیاست دانوں کا انداز سیاست ہمیں نصف صدی پیچھے لے گیا ہے یا یہ مقولہ درست ثابت ہو رہا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ۔
کون ہے ، جو کرپٹ لوگوں کے احتساب کی مخالفت کرتا ہو ۔ یقیناً کوئی بھی ایک شخص ایسا نہیں ہو گا ، جو احتساب کا مخالف ہو ۔ بعض لوگ تو احتساب کے پرجوش حامی ہوتے ہیں کیونکہ احتساب کے نام پر زیادہ کرپشن ہوتی ہے ۔ ہم اس بحث میں نہیں الجھنا چاہتے کہ کون کس وجہ سے احتساب کا حامی یا کرپشن کا مخالف ہے لیکن بقول شخصے ’’ یاں ہر کوئی پارسائی کی عمدہ مثال ہے ۔۔۔ دل خوش ہوا اک گنہگار دیکھ کر ‘‘ ۔ موجودہ سندھ حکومت تو بہت ہی کرپٹ اور نااہل ہے ! اگر ایسا نہیں کہا جائے گا تو آئندہ کے منصوبوں پر عمل درآمد کیسے ہو گا ۔ قیام پاکستان کے بعد بھی سب سے پہلے سندھ کے سیاست دان کرپٹ اور نااہل قرار دیے گئے تھے اور کرپشن اور نااہلی کی بنیادپر صوبائی حکومتوں کو یکےبعد دیگرے برطرف کیا گیا تھا ۔ خان بہادر محمد ایوب کھوڑو ، پیر الہی بخش ، قاضی فضل اللہ اور پیر زادہ عبدالستار کی حکومتیں کرپشن اور نااہلی کی بنیاد پرابتداءہی میں برطرف کر دی گئی تھیں ۔ سندھ کے ان وزرائے اعلیٰ کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اس وقت کراچی کے معاملات پر اپنامخصوص نقطہ نظر رکھتے تھے ۔ پیر علی محمد راشدی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سندھ کا کوئی چلتا پھرتاسیاست دان (میرے علاوہ) ایسا نہیں رہا ، جو ’’ پروڈا ‘‘ کے تحت نااہل اور کرپٹ قرار نہ دیا گیا ہو ۔ ‘‘ ان سیاست دانوں نے کراچی کے مستقبل کے حالات کے بارے میں جو پیش گوئی کی تھی ، وہ درست ثابت ہوئی ہے ۔ اس وقت بھی سب نے آزادی اظہار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاست دانوں کو گالیاں دیں اور ان اسباب کا جائزہ نہیں لیا ، جن کے تحت سندھ کو سیاسی عدم استحکام سے دوچار رکھا گیا ۔ سندھیوں کے بعد بنگالیوں کی باری آئی ۔ قرار داد پاکستان لاہور کے محرک مولوی فضل الحق مرحوم نے اپنے آخری ایام اپنی آبرو بچانے کی فکر میں گزارے ۔ مشرقی بنگال کو لڑ جھگڑ کر پاکستان میں شامل کرانے والے حسین شہید سہروردی کو بڑھاپے میں جیل کاٹنا پڑی اور جیل سے رہا ہوئے تو بیرون ملک جا کر مرنا قبول کیا ۔ حسین شہید سہروردی نے بحیثیت وزیر اعظم صدر اور آرمی چیف کے کہنے پر کسی کو چاولوں کی درآمد کا پرمٹ دیا تھا ۔ اس پر نہ صرف وہ کرپٹ قرار دیئے گئے بلکہ ان کا خوف ناک میڈیا ٹرائل بھی ہواتھا ۔ پرمٹ دینے کی دستاویزات پر سکندر مرزا اور ایوب خان کی ہدایات کا نوٹ بھی موجود تھا ۔ سکندر مرزا اور ایوب خان کے سارے رشتہ دار صنعت کار بن گئے اور سہروردی مرحوم اپنے وہ اثاثے بھی دوبارہ نہ بنا سکے ، جو انہوں نے تحریک پاکستان میں لٹا دیےتھے ۔ خواجہ ناظم الدین کے پاس آخری عمر میں نہ کوئی گھر تھا اور نہ کوئی ذریعہ معاش ۔ انہیں بھی کرپٹ قرار دے کر بے آبرو کیا گیا ۔ بنگالیوں کے بعد بلوچوں ، پختونوں اور پنجابی سیاست دانوں سب کی باری آئی ۔ یہاں تک کہ اردو بولنے والے چوہدری خلیق الزمان مرحوم جیسے سیاست دان بھی عتاب سے نہ بچ سکے ۔ غلام محمد ، سکندر مرزا ، ایوب خان ، یحییٰ خان ، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کا احتساب کرنے کی کسی کو ہمت نہ ہوئی ۔ ان لوگوں کے ادوار حکومت میں کرپشن کو باقاعدہ ’’ اداراتی ‘‘ شکل دی گئی ۔ ہماری کیا مجال کہ ہم بات کر سکیں ۔ اس حقیقت کو ہر کوئی تسلیم کرتا ہے کہ 90 ء کے عشرے سے پہلے سیاست میں کرپشن نہیں تھی ۔ اس کے بعد نہ صرف سیاست بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں کرپشن سرایت کر گئی لیکن پاکستان میں صرف منتخب(Selected) لوگوں کے احتساب کا رواج تبدیل نہیں ہوا اور احتساب کے نعرے کو ایک خاص مقصد کےلیے استعمال کرنے کی روایت بھی برقرار رہی ۔ کرپشن کیا ہوتی ہے ، ابھی تک ہم اس کا اندازہ ہی نہیں کر پائے ۔ ابھی تک کوئی سیاست دان ایسا نہیں ہے ، جس نے نیو جرسی امریکا میں اپنی اتنی بڑی بزنس اور ایگریکلچر اسٹیٹ بنائی ہو ، جس میں5 ہزار سے زائد ملازمین کام کرتے ہوں ۔ بہت لوٹا ہو گا سیاست دانوں نے لیکن وہ دولت جمع کرنے کی دوڑ میں اب بھی وہ بعض دوسرے لوگوں سے پیچھے ہیں۔ قابل نفرت ہیں وہ سیاست دان ، جو کرپشن کرتے ہیں ۔ پیسہ دوسرے طریقوں سے بھی کمایا جا سکتا ہے ۔ سیاست جیسے مقدس پیشے کو استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اوربھی بہت سےشعبےہیںجن میںلوٹ مار اورکرپشن پرکسی کوتنقیدکرنےکی جرأت نہیں ہوتی۔ ایسے سیاست دانوں نے میڈیا کو نصف صدی پیچھے دھکیل دیا ہے اور ہمیں اس طرح آزادی کا اسیر بنا دیا ہے کہ ہم اپنے گریبان میں جھانکے بغیر سیاست دانوں پر تنقید کی رسم قدیم میں الجھ کر رہ گئے ہیں اور ہم نے یہ کام سندھ سے شروع کیا ہے ۔ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہر منصوبے کا آغاز سندھ سے ہی ہوتا ہے ۔ ہماری یہ آزادی کیا رنگ لائے گی ، اس پر ہم بات نہیں کر سکتے کیونکہ ہم جو ٹھہرے آزادی کے اسیر ۔
تازہ ترین