• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نوجوان ریاض الدین نسیم (جو بعد میں میجر جنرل کے عہدے تک پہنچ کر ریٹائر ہوئے) 1947ء میں کشمیر کے محاذ پر تعینات تھے ،ان کی زبانی سنئے۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے فوراً بعد جب کشمیر میں جنگ چھڑی تو مجھے وہاں جانے کا موقع ملا تو میری خوشی کی انتہا نہیں رہی مگر کشمیر میں داخل ہوتے وقت ہی مجھے شدید ذہنی جھٹکا لگا، میرے خوابوں کے کشمیر اور چکوٹھی کے محاذ کی سرزمین میں زمین و آسمان کا فرق تھا،کہاں میری خیالی فردوس، کہاں بمباری سے داغ دار کوہسار اور جھلسے ہوئے باغ، ویران گائوں، منہدم سوختہ مکانات، اجاڑ کھیتوں میں کھڑی لاوارث فصلیں، توپوںکے گولوں کے دھماکوں اور مشین گنوں کی دندناہٹ، جھلسی فضا، بارود کے دھوئیں سے بوجھل ہوا، بچے کھچے خانماں برباد پناہ گزیں، بچوں ،بوڑھوں، عورتوں کے دہشت زدہ چہرے، چکوٹھی کی وادی کا سحر انگیز حسن جو سحر انگیز بھی تھا اور بھیانک بھی، مجھے یوں لگا جیسے میں کسی خوبصورت دوشیزہ کی برہنہ لاش دیکھ رہا ہوں، جس پر لاتعداد گھنائونے ناسور ہیں اور ان میں سے بے شمار موٹے موٹے سفید کیڑے نکل کر تمام جسم پر رینگ رہے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جس دن اقوام متحدہ کے دبائو کے تحت جنگ بندی کا اعلان ہوا، وہ لاہو رمیں میری رخصت کا آخری دن تھا، اگلی صبح مجھے محاذ پر واپس روانہ ہونا تھا۔ اس شام حسرت صاحب (چراغ حسن حسرت) سے ملاقات ہوئی تو مجھے پژمردہ پا کر انہوں نے پوچھا جنگ بندی کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ میں نے عر ض کیا فوجی لحاظ سے تو اچھا نہیں ہوا، برف باری کی وجہ سے ہندوستانی فوج کو نقل و حرکت میں سخت دشواری پیش آر ہی تھی، ہمارا پلہ بھاری تھا۔ اور چند دنوں میں ہماری طرف سے ایک بڑا حملہ شروع ہونے والا تھا، جس کی تیاریاں عرصے سے جاری تھیں اور جس کی کامیابی کا ہمیں پورا یقین تھا، حسرت صاحب نے افسوس سے سر ہلایا اور تعصب بھرے لہجے میں کہا یہ کسی لحاظ سے بھی اچھا نہیں ہوا، لاتوں کے بھوت باتوںسے نہیں مانتے۔ اب کشمیر میں ہندوستان کا تسلط رفتہ رفتہ مشرقی جرمنی میں روس کے تسلط کی طرح جڑ پکڑ لے گا۔ آج سے 69 سال قبل چراغ حسن حسرت کی مایوس کن پیش گوئی مجھ جیسے سادہ پاکستانی کو جسے اقوام متحدہ کی ثالثی سے بڑی امیدیں تھیں ، ضرورت سے زیادہ تاریک نظر آتی ہے۔
اب ذرا بہرا منام کی سنئے! وہ اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں ’’1987ء میں انڈیا نے بڑی تعداد میں فوج، ٹینک اور بھاری اسلحہ راجستھان کی طرف سے پاکستان کی سرحد پر پہنچا دیا تھا، بھارتی فوج حملے کیلئے تیار کھڑی تھی کہ وہ اچانک حملہ کر کے پاکستان کی واحد ’’لائف لائن‘‘ ٹرین کی پٹری اور سڑک کو ’’صادق آباد ‘‘اور ’’ریتی‘‘ کے درمیان قبضہ کر کے سمندر سے پاکستان کا راستہ کاٹ دینا چاہتے تھے۔ یہ بالکل ایسا منصوبہ تھا جس کو آج کل ’’کولڈ اسٹارٹ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ان دنوں ’’جے پور‘‘ میں پاکستان اور انڈیا کا کرکٹ میچ ہو رہا تھا، جنگ کسی لمحے بھی چھڑ سکتی تھی۔ تب ضیاء الحق کی ایک غیرمعمولی سفارتی حرکت نے انڈیا میں کھلبلی مچا دی۔ وہ جہاز میں سوار ہوئے اور کسی دعوت کے بغیر میچ دیکھنے کے بہانے دہلی کیلئے روانہ ہوگئے۔ وزیراعظم راجیو گاندھی صدر پاکستان سے ملاقات نہیں کرنا چاہتے تھے۔ کابینہ اور دوسری پارٹیوں نے وزیراعظم کو ایئرپورٹ پر صدر پاکستان کا استقبال کرنے پر مجبور کر دیا۔ پاکستانی صدر طیارے سے اترے اور راجیو گاندھی نے جنرل ضیاء الحق سے ہاتھ ملایا۔ راجیو نے ہاتھ ملاتے ہوئے مجھے حکم دیا ’’بہرامنام جنرل صاحب میچ دیکھنے آئے ہیں، انہیں فوراً روانہ ہو جانا چاہئے، آپ ان کے ساتھ جائو اور ان کا خیال رکھنا۔ ‘‘یہ سیدھی سادی بے عزتی کی بات تھی لیکن ضیاء الحق کا ردعمل دیکھ کر حیران رہ گیا، وہ بھارتی وزیراعظم کی طرف دیکھ کر مسکراتے رہے اور پھر نہایت ہی ٹھنڈے لہجے میں بولے’’مسٹر راجیو! آپ پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں، آپ ضرور ایسا کیجئے لیکن ایک بات یاد رکھئے گا، اس حملے کے بعد دنیا چنگیز خان اور ہلاکو خان کو بھول جائے گی۔ تاریخ صرف راجیو اور ضیاء الحق کو یاد رکھے گی کیونکہ یہ روایتی جنگ نہیں ہوگی، یہ ایٹمی جنگ ہوگی۔ اس جنگ کے بعد بھی پچاس سے زیادہ مسلمان ملک باقی رہیں گے لیکن دنیا پر ہندوئوں کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے ضیاء الحق بہت خطرناک دکھائی دے رہے تھے، ان کی آنکھوں میں ایسی سختی اور چہرے پر ایسا عزم تھا کہ راجیو کی پیشانی پسینے میں بھیگ گئی اور میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ پھیل گئی، اس کے بعد وہ مسکرائے اور مجھے اور راجیو کو نظرانداز کر کے باقی تمام لوگوں کے ساتھ بڑے تپاک سے ہاتھ ملایا، وہ جوہری جنگ کی دھمکی دینے کے باوجود بڑے خوش اور نارمل نظر آ رہے تھے۔‘‘صدر پاکستان ضیاء الحق کی اس کھلی دھمکی کے بعد پوری دنیا نے دیکھا کہ بھارتی فوجیں گردن ڈالے، منہ لٹکائے واپس جا رہی تھیں۔
اب امریکی ایئرفورس کے غیرجانبدار مبصر کی رائے ملاحظہ کیجئے۔
Kim Barden Worked U. S Air Force, Studied Aviation Management Virginia State University. Live in Richmond Virginia. Kim Barden Said: "I am sorry but indian peoples are too stupid to see what's really going on, forget declearing Pakistan a Terrorist State in U. S Parliment.
You Can't even touch them. Geo Politically, Pakistan is too important. It has two Vito Powers on its side. U. S eventhough it has tried to cozy up india in the recent years but you should not forget that all the supplies to the U.S troops in afghanistan still go through Pakistan and since U. S troops are not going away any times soon, India should not expect any radical change in amercian attitude towards Pakistan. China it's pretty obvious CPEC. China wants easy access to Central Asia and Middle East and they won't stop at any thing to achive its. So I am sorry to say, you are pretty much helpless against the atrocities of Pakistan. Its not Pakistan which is isolated, it's India.
1947ء میں جب پاکستان کی فوج بالکل ابتدائی حالت میں تھی، اس کے حصے کا اسلحہ اور روپیہ بھارت کی تحویل میں تھا اور مسٹر گاندھی پاکستان کو حق دلانے کیلئے ’’مرن بھرت‘‘ کی تیاری کر رہے تھے۔ ان حالات میں بھی انڈیا ، پاکستان سے خوف زدہ ہو کر اقوام متحدہ میں جنگ بندی کیلئے دہائی دیتا نظر آتا ہے۔ 1987ء میں پاکستان اور انڈیا کی فوجی طاقت کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ بھارتی فوج کی تعداد ، اسلحہ کی مقدار، جنگی مشین کی ہولناکی کے مقابلے میں پاکستان کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ تب ضیاء الحق کی دھمکی نے انڈیا کو نامراد واپس جانے پر مجبور کر دیا تھا تو آج خطے کے حالات میں ایسی کوئی جوہری تبدیلی واقع نہیں ہوئی کہ بھارت پاکستان پر چڑھ دوڑنے کی ہمت کر سکے۔ جنگ نہ ہونے کیلئے یہ کافی ہے کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا اور بھارت میں پاکستان سے مقابلے کی تاب ہی نہیں ہے۔ بھارت یہ بھی جانتا ہے کہ وہ جس حملے کو بہانہ بنا کر اپنی فوجیں اٹھا کر سرحدوں پر لے آیاہے وہ حملہ پاکستان نے کیا ہے نہ کروایا ہے۔ انڈیا کی طرف سے سارا ہنگامہ، شور شرابہ اور سفارتی جارحیت کشمیر کے حالات اور پاکستان میں ’’پراکسی وار‘‘ سے توجہ ہٹانے کا حربہ ہے۔


.
تازہ ترین