• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے لئے سوشل میڈیا پر لوگوں کی طرف سے بتائی گئی باتیں اطلاع کے زمرے میں آتی ہیں۔ ان کو خبر کی حیثیت نہیں دی جاسکتی۔ جب جناب جواد ایس خواجہ نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کے عہدہ کاحلف لیا تو بعض لوگوں نے ایک اہم عسکری عہدہ کی حامل شخصیت کے حق میں نعرہ بازی کی۔ یہ جمہوریہ پاکستان میں لوگوں کا جمہوری ردعمل کہلا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں آئے دن دوسرے ملکوں کے پرچموں کو نذر آتش کیا جاتا ہے یہ بھی جمہوری اور جذباتی ردعمل ہے۔ جب کبھی ہمارے شہروں میں اپنی من پسند شخصیات کی تصویری نمائش کی جاتی ہے، نمائش کا مقصد ہوتا ہے کہ جن کو نہیں معلوم ان کو بھی خبر ہو جائے اور باخبر بھی جان لیں۔ اس ہی وجہ سے معاشرہ میں سماجی طور پر خودنمائشی کو زیادہ پسند نہیں کیا جاسکتا مگر ہمارے ملک میں ایک ایسا طبقہ ضرور ہے جو نمائش کا دلدادہ ہے اور وطن میں اشرافیہ اور سیاست دان اس خود نمائشی پر قربان۔ اس نظریہ کا نام ہے ’’جمہوریت‘‘۔
اس وقت پاکستان میں دہشت گردی پھر بام عروج پر ہے۔ پنجاب کے وزیر داخلہ کا دہشت گردوں کی طرف سے قتل ہماری پولیس اور صاحب اقتدار لوگوں پر یک گونہ عدم اعتماد ہے۔ دوسری طرف کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے ممبر قومی اسمبلی پر دہشت گردوں کا حملہ بھی امن و امان کی صورت حال میں ایک بڑا سوال ہے کہ قانون اور امن و امان کی حفاظت کرنے والے سول ادارے کیوں بے بس نظر آ رہے ہیں۔ دونوں صوبوں میں پولیس کا کردار بڑا مایوس کن ہے۔ ہمارے ملک کے عوام پولیس کے نظام سے ہمیشہ ہی متنفر رہے ہیں وہ کبھی بھی عوام کے دوست نہیں بن سکے۔ پولیس کے دفاتر عوام کی دل جوئی کرتے نظر نہیں آتے اور ہمارے پولیس کے اعلیٰ عہدیدار اس نظام میں جواب دینے سے بھی گھبراتے ہیں۔ کسی بھی واردات پر پولیس کا ایک ہی جواب ہوتا ہے نامعلوم لوگ یا ذاتی دشمنی کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔ ملک بھر میں درج مقدمات میں سے بیشتر داخل دفتر ہو جاتے ہیں۔ ملک میں اشرافیہ اور سیاست دان ہی پولیس کے نظام میں اپنی حیثیت محفوظ رکھتے ہیں۔ ورنہ ان جمہور کا کیا تعلق ہے وہ تو فضول باتوں سے معاشرہ کو بے حس کہتے رہتے ہیں۔ اب بھی صوبائی حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ دہشت گردی اور جرائم میں کمی ہوئی ہے۔
ابن انشا نے بہت سال پہلے ہی ’’اردو کی آخری کتاب‘‘ لکھ دی تھی۔ اب اس معاشرہ میں قبضہ گروپوں کو نظام میں حصہ مل گیا ہے اور عوام بے چارے گدھوں کی مانند اس نظام کا بوجھ اٹھا اٹھا کر بے حال ہو چکے ہیں۔ بات ابن انشا مرحوم کی کتاب کی ہورہی تھی وہ اپنی کتاب میں ایک جگہ کچھ اس طرح لکھتے ہیں ’’ہم کیوں بھاگیں‘‘
’’ایک خرکار جنگل میں گدھوں پر مال لادے جا رہا تھا کہ ڈاکوئوں کا کھٹکا ہوا اور اس نے گدھوں کو پکارا، بھاگو بھاگو ڈاکو آ رہے ہیں۔
گدھوں نے کہا، بھاگو تم، ہم کیوں بھاگیں؟ ہمیں تو بوجھ ڈھونا ہے۔ تیرا بوجھ ہو یا کسی اور کا۔ اب اس تناظر میں اپنا ملک، اپنا نظام اور نظریہ جمہوریت اور نظریہ ضرورت کو فٹ کریں تو نتیجہ کیا نکلتا ہے۔
’’اگر مال کے منافع میں کچھ حصہ گدھوں کا بھی ہوتا تو وہ ہرگز ایسی بات نہ کہتے۔‘‘
ابن انشا نے کتنے سال ہوئے یہ بات لکھی تھی جو آج کی صورت حال میں تازہ اور بروقت ہے۔ اس وقت بھی عوام جمہوریت کے منافع میں حصہ دار نہیں وہ ایک بوجھ ہے۔ وہ بھاگ بھی نہیں سکتے۔ اور آپ ڈاکوئوں کو روک بھی نہیں سکتے۔ جمہوریت بیگم اجازت ہی نہیں دیتی۔ کیا خوب نظام اور انتقام ہے۔ اب بھی ابن انشا کی باتیں یاد آ رہی ہیں۔ انشا جی کا کیا خوب کہنا تھا۔
’’آزادی سے پہلے ہندو بنیے اور سرمایہ دار ہمیں لوٹا کرتے تھے۔ ہماری خواہش تھی کہ یہ سلسلہ ختم ہو اور ہمیں مسلمان بنئے اور سیٹھ لوٹیں۔ الحمد للہ کہ یہ آرزو پوری ہوئی۔‘‘
اب دیکھیں مولا ہمارا ہماری آرزوئوں کو کیسے کیسے پورا کرتا ہے۔ آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد فرق نہیں پڑا۔ پہلے غیرلوٹتے تھے اور مارتے نہیں تھے، اب اپنے لوٹ بھی رہے ہیں اور مار بھی رہے ہیں۔ زندگی ان ہی دائروں کا نام ہے ان اَن دیکھے دائروں کے بارے میں انشا جی کا حسن کلام بھی خوب ہے۔ ’’دائروں کی کئی اقسام ہیں‘‘۔ ایک دائرہ اسلام کا بھی ہے۔ اب اس ساری صورت حال میں بے چارے عوام فرض اور قرض کے کارن مارے جا رہے ہیں اور ان کی نظم ’’فرض کرو‘‘ میں کیا خوب لکھا ہے۔
فرض کرو ہم اہل وفا ہوں فرض کرو دیوانے ہوں
فرض کرو یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں افسانے ہوں
دیکھ کر میری جاں کہہ گئے باہو، کون دلوں کی جانے..ہو
بستی بستی صحرا صحرا، لاکھوں کریں دیوانے..ہو
اب تو پورے کا پورا پاکستان دیوانوں کا سا نظر آتا ہے۔ نہیں ان میں کچھ دیوانے، کچھ مستانے ، کچھ پروانے بھی ہیں۔ دیوانے تو وہ ہیں جن کو آج کے پاکستان کی فکر ہے، مستانے وہ ہیں جو اس نظام کی مے پی کر مست ہی مست ہیں ان کی پہچان مشکل نہیں۔ ان میں اکثر اشرافیہ اور سیاست دانوں کی شکل میں مست مست کا نعرہ لگاتے اور لگاتے نظر آتے ہیں اور بے چارے پروانے، یہ وہ سیاسی مشقتی ہیں جن کو عرف عام میں ورکر کہا جاتا ہے یا نظریاتی فرزانے۔
یہ پروانے سیاست کے چراغ کے گرد گھومتے گھومتے جل کر قربان ہوتے رہتے ہیں۔ ایک عرصہ سے ان میں کمی ہوتی جا رہی ہے۔ کئی پروانے اب اپنا قبلہ اور نظریہ بدل کر مستانے بن چکے ہیں اور یقین نہ آئے تو سیاسی جماعتوں کا ماضی دیکھ لیں۔ کبھی کسی طرف کبھی کسی اور کے ساتھ اور ایسے ہی پروانوں کے لئے ہمارے سابق جسٹس وجیہہ جو آج کل کپتان کا قبلہ درست کرنے نکلے ہیں وہ بتاتے اور سناتے ہیں کہ تحریک انصاف کو پروانوں نے برباد کیا ہے۔ مگر ہمارا کپتان ہے کہ ان سے متفق نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ایمان کا پکا،کانوں کا کچا ہے۔ اپنے کپتان مایوس تو نہیں نظر آتے مگر ان کو فکر ضرور ہے۔ پارٹی میں پھیلائو اور برتائو ان کو فکر مند رکھتا ہے۔ ایک صوبے کا اقتدار ان کو بنا سکتا ہے اور ان کے خوابوں کی تعبیر بھی دے سکتا ہے۔ جسٹس وجیہہ سے ان کی لڑائی بنتی نہیں۔ بزرگوں اور دوستوں میں فرق ضروری ہے۔ بزرگوں کا وقار اور دوستوں کا احترام مناسب۔ سو کپتان کو فیصلہ کرنا ہے۔ چوہدری سرور نے وقار اور احترام سے فریقین کو یقین تو دلایا ہے مگر مستانے ہیں مستی کرنے سے باز نہیں آتے۔ یہ ہی سیاست کا حسن اور جمہوریت کا صلہ ہے۔ جو بن مانگے لوگوں کی تقدیر بدل دے۔ کچھ محاورتی دوہے ہیں جو آج کل کے حالات میں ڈاکٹر طاہر سعید ہارون نے لکھے ہیں اور کیا بروقت ہیں۔
تیری خاطر کس لئے چھلیا کشٹ اٹھائیں
دکھ بھریں بی فاختہ کوے انڈے کھائیں
آنکھیں رکھیو کھول کر یہ نہ ہوئےتُو روئے
جاگے گا سو پائے گا سوئے گا سو کھوئے
سکھلایا تقدیر نے یہ نکتہ باریک
بن مانگے موتی ملیں مانگے ملے نہ بھیک
مل جائے گر افسری مایا روپ دکھائے
ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ بھی چوکھا آئے
تازہ ترین