• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے سرائیکی اضلاع اور دریائوں کے کنارے آباد قبائل اور برادریوں میں آج بھی یہ رواج پایا جاتا ہے کہ جب بزرگ اپنی ساٹھ، ستر برس کی عمر خوشی خوشحالی سے جئے، اپنی اولاد، خاندان، قوم اور اہل علاقہ کے لئے اچھی خدمات انجام دے تو اس کی موت پر آنسو بہائے جاتے ہیں، سینہ کوبی، مرثیہ گوئی نہ ہی واویلا کیا جاتا ہے بلکہ اس کی تعریف و توصیف کے ساتھ اظہار فخر کیا جاتا ہے۔ اگر خوش قسمتی سے مرحوم نے قوم و ملک کے لئے کوئی کارنامہ انجام دیا ہو تو پھر ڈھول، تاشے اور باجوں کے ساتھ اس کا جنازہ یوں اٹھایا جاتا ہے جوں کسی جوان رعنا کی بارات نکلی ہو۔ انہی کے بارے بلھے شاہ نے کہا کہ:
بلھیا اساں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور
ہمیں یقین ہے کہ انشاء اللہ حمید گل انہی لوگوں میں ہوںگےجو روشن آرام گاہوں میں اپنے ضمیر کی طرح زندہ اور بیدار رہتے ہیں۔ جنرل گل گہری سوچ و فکر کی رہنماذئی میں سنجیدہ پُر مشقت اور کامیاب زندگی گزار کے رخصت ہوئے۔ ہر قسم کے بغض، کینہ اور تعصب سے پاک زندگی۔ ان کے دوست ہی نہیں نقاد، مخالف بلکہ دشمن بھی ان کی اعلیٰ اخلاقی اقدار کی تعریف کرتے ہیں۔ وہ اپنی عزت نفس کے ساتھ دوسروں کی عزت و حرمت اور وقار کا بھی پورا خیال رکھتے۔ بہادر، مستعد، وضعدار، صاف گو، بے تکلف، غیر متعصب اور مہمان نواز۔ انہوں نے خلوص اور سچائی کے ساتھ پاکستان کے بہترین مفاد میں بڑے بڑے فیصلے کئے ایسے فیصلوں جنہوں نے پاکستان کے علاوہ دور نزدیک کے کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو بدل ڈالا، پابندیوں کی بلند و بالا دیواریں گرا دی گئیں۔ تین سو سال سے غلام بنائی گئی قومیں یک بیک آزادی سے ہم کنار ہو گئیں۔ کسی فرد کو جانچنے کے لئے عموماً تین چیزوں کا جائزہ لیا جاتا ہے، ذاتی زندگی، پیشہ وارانہ کامیابی اور مہارت افکار و کردار، ذاتی زندگی میں ان کا رویہ قابل رشک حد تک شاندار اور قابل تقلید تھا۔ گھریلو زندگی میں بیوی بچوں کےلئے ذمہ دار، ہمدرد، مہربان، گھر میں وہ خاندان کے سربراہ کی بجائے ایک بے تکلف دوست کی طرح سلوک کرتے۔ برابری کی سطح پر ہر ایک کو کہنے کی آزادی خود بھی نرم لہجے میں دلیل کے ساتھ بات کرتے گھر سے باہر پیشہ وارانہ زندگی میں اپنے ماتحت افسروں اور جوانوں کے ساتھ ان کا رویہ بالکل اپنے بچوں کی طرح ہوتا۔ اپنے جوانوں کی نجی زندگی کی ضروریات اور پریشانیوں کو اپنی اولاد کی ضروریات کی طرح دل پر لیتے۔ دوستوں، نقادوں، مخالفوں کے بارے میں توازن برقرار رکھنے میں ان کا ثانی دیکھنے کو ملا نہ سننے میں آیا۔ پچھلے چند دنوں میں پاکستان اور پاکستان سے باہر حتیٰ کہ انڈیا میں بھی ان پر اتنا کچھ لکھا گیا جو بہت کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ ہر زبان اور قلم نے ان کی تعریف و توصیف میں ذرا بخل سے کام نہیں لیا سوشل میڈیا نے تو ان کی تعریف و تشہیر میں سب ریکارڈ توڑ ڈالے۔ حمید گل بہادر، جفا کش، بیدار مغز جرنیل، وسیع المطالعہ دانشور، پختہ نظریات کے ساتھ باکردار مسلمان تھے۔
اختلاف کرنے والے عموماً تین باتوں میں انہیں تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔
(I) افغانستان میں طالبان کی متوازی حکومت قائم کرنے کے لئے جلال آباد کی جنگ۔
(II) اسلامی جمہوری اتحاد کا قیام۔
(III) اپنے سپہ سالار آصف نواز کے احکامات تسلیم کرنے کی بجائے فوج کے اعلیٰ منصب سے دستبرداری کا فیصلہ۔ اس کے علاوہ کشمیر اور انڈیا کے بارے میں ان کے خیالات پر بھی بھارت نواز حلقے ہمیشہ شور مچاتے رہے۔ سب سے زیادہ اعتراض اسلامی جمہوری اتحاد کے قیام کے بارے میں کیا جاتا ہے۔ حمید گل آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔ یہ ادارہ تینوں مسلح افواج کے معاون کا کردار ادا کرتا ہے۔ یہ ادارہ بری فوج کے سربراہ کی سرپرستی میں کام کرتا اور اسی کو جوابدہ ہوتا ہے۔ مسلح افواج کے سربراہ بھی اپنے اندرونی نظام میں مطلق العنان نہیں ہوتے بلاشبہ آخری حکم اسی کا ہوتا ہے لیکن ایک مربوط نظام کے ماتحت سارے لیفٹیننٹ جنرل اور فارمیشن کمانڈرز باہمی مشاورت، طویل غور و خوص، آزادانہ بحث مباحثے کے بعد قطعی فیصلہ کرتے ہیں۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے قیام کے لئے آئی ایس آئی کو کردار ادا کرنے کا حکم کمانڈروں کی اجتماعی بصیرت کے مطابق فوج کے سربراہ نے دیا۔ اس بارے میں جنرل حمید گل دو بڑی اہم باتیں کہا کرتے تھے۔
(I) آئی جے آئی کے قیام میں سہولت فراہم کرنے کا حکم فوج کے سربراہ نے دیا۔
(II) ہم نے یہ کام کیا تھا اس لئے مجھ پر مقدمہ قائم کر کے عدالت میں طلب کیا جائے۔ وہ اس کے قیام کے جواز اور وجوہات کو از خود زیر بحث لانا نہیں چاہتے تھے یہ بھی ان کی حد سے زیادہ احتیاط پسندی اور وضعداری کا تقاضا تھا ان کے پاس کہنے کے لئے بہت سے دلائل اور جواز کے لئے ناقابل تردید ثبوت موجود تھے۔ یہ الگ بات کہ جس طرح ایم کیو ایم کا قیام وزیر اعلیٰ سندھ غوث علی شاہ یا کسی خفیہ ایجنسی کا کارنامہ نہیں تھا بلکہ نئی نویلی کمزور ایم کیو ایم کو سہارا دے کر طاقتور اور موثر بنا دیا گیا تھا اسی طرح آئی جے آئی بھی مکمل طور پر فوج یا آئی ایس آئی کا کارنامہ نہیں تھا بلکہ یہ پیپلز پارٹی کے خلاف بننے والے قومی اتحاد کی بازگشت تھی۔ الیکشن کے قریب بے نظیر کی قیادت میں بھٹو کی پارٹی کے خطرے کو محسوس کر کے یہ سب پھر سے اکٹھا ہونا چاہتے تھے مگر مفادات کی کشمکش ان کے اتحاد میں تاخیر کا سبب بن رہی تھی۔ آئی ایس آئی کی کوشش سے یہ بعجلت تشکیل پا گیا۔ خفیہ ادارے اس اتحاد کے موجد نہیں سہولت کار تھے۔ فوج پی پی اور اس کی قیادت کے بارے میں قومی سالمیت کے حوالے سے خدشات کا شکار رہی ہے۔ اس لئے کہ مارشل لاء کے زمانے میں ان کے بعض لیڈر دشمن ملک کے ٹینکوں پر بیٹھ کر واپس آنے کی بات کرتے۔ انڈیا کی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں سے خفیہ ملاقاتیں کر کے مدد طلب کرتے۔ ان کی مالی معاونت اور سیاسی حمایت سے دنیا بھر میں گھومتے اور پُر تعیش میزبانی سے لطف اندوز ہوتے۔ بھٹو کے بیٹوں کی قیادت میں اپنے دور کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ’’الذوالفقار‘‘ قائم کی گئی۔ کم از کم پانچ ملک اس تنظیم کو اسلحہ، تربیت اور مالی وسائل فراہم کر رہے تھے جن میں انڈیا، افغانستان، شام، لیبیا، روس، فلسطین کی پی ایل او اور کسی حد تک اسرائیل کی پشت پناہی بھی حاصل تھی۔ اس تنظیم کے لوگوں نے ملک میں افراتفری، فتنہ فساد، قتل و غارت اور بم دھماکے کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ چوہدری ظہور الٰہی سمیت متعدد لوگ شہید ہوئے۔ جج، جرنیل، سیاسی مخالفین سب نشانے پر تھے۔ ضیاءالحق کو بھی متعدد مرتبہ نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ اس دہشت گرد تنظیم سے دکھاوے کی حد تک بے نظیر نے فاصلہ رکھنے کی کوشش کی لیکن پیپلز پارٹی کی سربراہ نصرت بھٹو ان سے ملتی رہیں اور ان کی رہنمائی بھی کرتی رہیں۔ اس پارٹی کے عسکری اور سیاسی شعبوں کے لئے مالی معاونت کے ذرائع بھی مشترک تھے۔ تنظیم کی دہشت گرد کارروائیوں، انڈیا کی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ساتھ رابطوں کی تفصیل گھر کے بھیدی ’’راجہ انور‘‘ کی کتابوں اور مضامین میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ان حالات میں جب پیپلز پارٹی اور اس کے عسکری ونگ کے بارے میں واضح شواہد موجود ہوں تو پاکستان کی سلامتی کے ادارے اسے نظر انداز نہیں کر سکتے تھے۔ لہٰذا ملک میں افراتفری روکنے کے لئے اسے سیاسی کردار ادا کرنے کا موقع دیا گیا ساتھ ہی قومی اتحاد والی جماعتوں کو ایک مرتبہ پھر اکٹھا کر کے سیاسی توازن پیدا کر دیا گیا یہی وجہ تھی کہ حمید گل عدالت کے ’’پلیٹ فارم‘‘ پر بات کرنے کا چیلنج دیتے رہے۔ جسے کبھی قبول کیا گیا نہ آئندہ کیا جائے گا۔
تازہ ترین