• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں آئی ایم ایف کے قرضوں کی 502 ملین ڈالر کی آٹھویں قسط کے اجراء کی خبریں ملک بھر کے اخبارات میں نمایاں طور پر شائع کی گئیں جسے وزارت خزانہ نے حکومت کی کامیابی قرار دیا۔ قسط کا اجراء کرتے وقت آئی ایم ایف کو قرضوں کے معاہدے کے دو اہداف حاصل نہ کرنے پر پاکستان کو چھوٹ بھی دینا پڑی جن میں مالی خسارہ کا 4.9% کا ہدف حاصل نہ کرنا اور حکومت کے مرکزی بینک سے لئے جانیوالے قرضوں کی مقررہ حد سے تجاوز کرنا شامل ہے۔ پاکستان کا موجودہ مالی خسارہ 5.3% ہے جبکہ آئی ایم ایف نے 4.9% کا ہدف دیا تھا۔ جون 2015ء تک مرکزی بینک سے لئے گئے قرضوں کی زیادہ سے زیادہ حد 1865 ارب روپے تھی لیکن حکومت نے اس عرصے میں اسٹیٹ بینک سے اس سے زیادہ قرضے حاصل کئے۔ اسکے علاوہ حکومت ٹیکسوں کی وصولی کے ہدف اور سرکولر ڈیٹ کے بڑھنے کو بھی نہ روک سکی۔ مذاکرات میں آئی ایم ایف نے پاکستان کے گردشی قرضے دوبارہ 615 ارب روپے تک پہنچنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کو بجلی چوری روکنے اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے آئی ایم ایف نے تجویز دی ہے کہ بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کو نجی شعبے کے حوالے کیا جائے تاکہ بجلی کی چوری پر قابو پاکر بلوں کی وصولی کو یقینی بنایا جاسکے۔آئی ایم ایف نے پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل مل کی نجکاری ترجیحی بنیادوں پر کرنے، ٹیکس کا دائرہ کار بڑھانے اور کرپشن کو روکنے کے عملی اقدامات اٹھانے پر زور دیا۔ وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کے مشن کے چیف ہیرلڈ فنگر کو یقین دہانی کرائی کہ حکومت بینکوں کے کیش ٹرانزیکشن پر ودہولڈنگ ٹیکس کی وصولی میں کمی کے پیش نظر آئندہ دو ہفتوں میں اضافی ریونیو کے حصول کیلئے بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ کرے گی۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ جی ڈی پی میں ٹیکسوں کی موجودہ شرح بڑھ کر 11% تک پہنچ گئی ہے اور قومی شناختی کارڈ کو یکم جولائی 2015ء سے نیشنل انکم ٹیکس نمبر (NTN) کا درجہ دے کر ملکی معیشت کو دستاویزی شکل دینے میں مدد ملے گی لیکن عملی طور پر ابھی تک ایسا نہیں کیا جاسکا۔
پاکستان جب بھی بجٹ خسارہ پورا کرنے کیلئے قرضے لیتا ہے، مجھے یونان کا مالیاتی بحران یاد آجاتا ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے آج سکندر اعظم کا ملک یونان معیشت کی بازی ہار گیا جسے دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے یورپین پارلیمنٹ نے مالی امداد کا اعلان کیا، بصورت دیگر یونان یورپی یونین سے علیحدہ ہوجاتا جسکے یورپ کی معیشت پر مضر اثرات مرتب ہوتے۔ موجودہ حالات میں پاکستان کو یونان جیسے عوامل کا سامنا ہے جن میں تشویشناک حد تک بڑھتا ہوا قرضوں کا بوجھ، خسارے میں چلنے والے سرکاری ادارے، آمدنی سے زیادہ اخراجات،کرپشن،خراب گورننس ، سست معاشی ترقی، بیرونی سرمایہ کاری میں کمی اور غربت و بیروزگاری میں اضافہ جیسے مسائل شامل ہیں۔ یونانی لوگ مزاج کے مطابق آرام و آسائش پسند زندگی گزارنے کے عادی ہیں اور انہوں نے پرآسائش کروز بوٹس رکھی ہوئی تھیں جنہیں آج وہ فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں بھی گزشتہ دہائی سے قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور ہمیں پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے نئے قرضے لینے پڑرہے ہیں۔ بجٹ کی بڑی رقم ان مالیاتی اداروں کے سود کی ادائیگی پر خرچ ہوجاتی ہے جبکہ سماجی سیکٹر میں اصلاحات کرنے کیلئے وسائل دستیاب نہیں۔ ملک میں ایک طرف حکمراں اور سیاستدان اربوں ڈالر کے مالک ہیں جن کے صرف سوئس بینکوں میں 200 ارب ڈالر جمع ہیں تو دوسری طرف عوام غربت اور مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2008ء تک پیدا ہونے والا ہر بچہ تقریباً 37000 روپے کا مقروض تھا لیکن آج ہر پاکستانی ایک لاکھ روپے سے زیادہ کا مقروض ہوچکا ہے۔ پاکستان نے گزشتہ 10 سالوں میں49 ارب ڈالر سے زیادہ بیرونی قرضے لئے جس میں ایک تہائی بجٹ کا مالی خسارہ پورا کرنے میں استعمال ہوا۔ اوسطاً پاکستان ہر سال5 ارب ڈالر کے نئے قرضے لیکر2.5ارب ڈالر کے پرانے قرضوں کی ادائیگی کررہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے مجموعی قرضے مسلسل بڑھتے جارہےہیں۔ اسکے علاوہ حکومت نے 2 ارب ڈالر کے5اور10سالہ یورو بانڈز کا اجراء کیا ہے جس کی ادائیگی 2016-17 ءسے ہے۔ اپریل 2014ء میں حکومت نے ایک ارب ڈالر کے 5سالہ سکوک بانڈز 6.75% شرح منافع پر جاری کئے جس کی ادائیگی اپریل 2019 ءمیں ہوگی۔
اللہ کے فضل سے پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ اللہ نے ہمیں چاروں موسموں سے نوازا ہے، ہماری زمینیں زرخیز ہیں جو ہر قسم کی فصل پیدا کرتی ہیں۔ سمندر اور پہاڑ معدنیات سے بھرے ہوئے ہیں۔ ملک میں ایک اندازے کے مطابق تھر میں 75 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر پائے جاتے ہیں جو ایران اور سعودی عرب کے مجموعی تیل کے ذخائر سے زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ سندھ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں قدرتی گیس کے ذخائر سے مالا مال کیا ہے۔ بلوچستان میں ریکوڈیک میں پہاڑوں میں قیمتی معدنیات سونا، چاندی اور تانبے کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہنرمند اور جفاکش مزدور دیئے ہیں جنہوں نے اپنی محنت سے خلیجی ممالک کا نقشہ بدل دیا ہے۔ پاکستانی پروفیشنلز نے اپنے پیشوں میں دنیا میں ایک نام کمایا ہے اور 18 ارب ڈالر سے زائد کی ترسیلات زر ہر سال پاکستان بھیج رہے ہیں۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے جس نے دفاعی شعبوں میں میزائل، جے ایف تھنڈر 17، الخالد ٹینک جیسے شاہکار بناکر دفاعی مارکیٹ میں نام پیدا کیا ہے۔20 کروڑ آبادی والے اس باصلاحیت ملک کے اتنے زیادہ قرضوں میں جکڑنے کی کیا وجہ ہے؟ آئی ایم ایف کو تشویش ہے کہ پاکستان بڑھتے ہوئے ان 80 ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی کس طرح کریگا جس کا وہ ہر سال تقریباً 1300 ارب روپے سود ادا کررہا ہے۔ مقامی بینکوں کی 3000 ارب روپے یعنی 30 ارب ڈالر کے قرضے اسکے علاوہ ہیں جسے ملاکر پاکستان کے مجموعی قرضے 110 ارب ڈالر ہوجاتے ہیں۔ ان بڑھتے ہوئے قرضوں پر سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے تشویش کا اظہار کیا ہے کیونکہ پاکستان کے قرضے جی ڈی پی کا 60% سے زیادہ ہوچکے ہیں جو ہمارے عوامی قرضوں کی حد کے قانون (PDLA)کی خلاف ورزی ہے۔
کالم لکھتے وقت مجھے صدر مملکت ممنون حسین سے اسٹیٹ گیسٹ ہائوس کراچی میں ہونے والی ملاقات یاد آرہی ہے جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ حکومت اعلان کے باوجود قرضوں کا کشکول توڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ قرضے پاکستان کیلئے افیون کا نشہ بن چکے ہیں اور افیون کی عادت ختم کرنے کیلئے پاکستان کو مزید افیون کھانا پڑ رہی ہے، اس طرح پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جارہا ہے۔ یونان کے حالیہ مالی بحران اور دیوالیہ ہونے کو دیکھتے ہوئے ہم اس بات پر متفق ہیں کہ ہمیں ملک سے کرپشن کے ناسور کو ختم کرکے گڈگورننس اور کفایت شعاری کو اپنانا ہوگا، غیر پیداواری اخراجات میں کمی کرکے مالی وسائل بڑھانے ہوں گے، ملکی ایکسپورٹس گزشتہ کئی سالوں سے جمود کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ملک میں نئی ملازمتوں کے مواقع محدود ہوگئے ہیں جبکہ خطے کے دوسرے ممالک کی ایکسپورٹس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ ملکی ایکسپورٹس کو مقابلاتی بنائے تاکہ ہمارا غیر ملکی قرضوں پر انحصار کم سے کم ہو۔ وزارت خزانہ و منصوبہ بندی نے قوم کو آئی ایم ایف کے قرضوں سے چھٹکارے کیلئے ایک حکمت عملی دینا ہوگی جس پر عمل کرکے موجودہ اور آئندہ حکومتیں ملکی قرضوں میں کمی کرکے آئی ایم ایف سے نجات حاصل کرسکیں گی۔ ملکی معیشت اتنا مالی خسارہ برداشت نہیں کرسکتی جس کو پورا کرنے کیلئے ہمیں ہر سال آئی ایم ایف سے قرضے لینے پڑتے ہیں۔ ہمیں اپنے اخراجات میں کمی کرکے ٹیکس نیٹ کے ذریعے ریونیو بڑھانا ہوں گے تاکہ بجٹ خسارہ کم کرکے آئی ایم ایف سے نجات حاصل کی جاسکے بصورت دیگر ہمیں بھی یونان جیسے مالی بحران کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
تازہ ترین