• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ بات انتہائی افسوس ناک ہے کہ بھارت نے ایک بار پھر پاکستان کے ساتھ مذاکرات منسوخ کر دیئے ہیں اورجواز یہ پیش کیا ہے کہ اسے پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز کی آل پارٹیز حریت کانفرنس کے کشمیری رہنماؤں سے ملاقات پر اعتراض ہے ، جو دہلی میں ہونے والی تھی ۔ قومی سلامتی کے مشیروں کی سطح پر مذاکرات کا فیصلہ روس کے شہر اوفا ( Ufa ) میں پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات میں ہوا تھا ۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے مابین یہ ملاقات شنگھائی تعاون کی تنظیم کے سربراہ اجلاس میں ہوئی تھی ۔ مذاکرات کی خواہش کا اظہار بھی بھارت نے کیا تھا اور اس کی شرائط بھی بھارت نے طے کی تھیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت اپنے وزیر اعظم کی ’’ کمٹ منٹ ‘‘ سے انحراف کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا ۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی سرتاج عزیز نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ کہا ہے کہ اوفا میں پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات کے بعد جو اعلامیہ جاری کیا گیا تھا ، اس کی رو ح کے مطابق کشمیر کے ایشو پر بھی مذاکرات میں بات ہوسکتی ہے ۔ جب بھی کوئی پاکستانی اعلیٰ عہدیدار نئی دہلی جاتا ہے تو کشمیر کے حریت رہنماؤں سے ملاقات کرتا ہے جو ایک برسہا برس کی روایت ہے ۔ جب پاک بھارت مذاکرات کے ایجنڈے میں کشمیر کا مسئلہ شامل ہے تو کشمیری رہنماؤں سے ملاقات پر اعتراض کیوں کیا جا رہا ہے ۔سرتاج عزیز کی پریس کانفرنس کے جواب میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے نئی دلی میں پریس کانفرنس کرکے یہ بتایا کہ اوفا میں پاک بھارت جامع مذاکرات کی بحالی کی بات نہیں ہوئی تھی بلکہ صرف دہشت گردی کے مسئلے پر بات چیت کرنے کیلئے قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق ہوا تھا ۔ جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ پاکستانی رہنما بھارت کے دورے پر جب بھی آتے رہے ہیں ،وہ کشمیری رہنماؤں سے ملاقاتیں کرتے ہیں ۔ اس دفعہ سرتاج عزیز کی ملاقات پر کیوں اعتراض کیا گیا ہے ؟ سشما سوراج اس کا تسلی بخش جواب نہ دے سکیں ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ پہلے جو پاکستانی رہنما بھارت آتے تھےوہ مذاکرات کے بعد کشمیری رہنماؤں سے ملاقات کرتے تھے ۔ مذاکرات سے پہلے کشمیری رہنماؤں سے ملاقات کا مطلب یہ ہے کہ کشمیری رہنما مذاکرات کے تیسرے فریق ہیں ۔ سشما سوراج کی یہ بات انتہائی غیر منطقی ہے کیونکہ انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ تسلیم کیا ہے کہ جامع مذاکرات کے 8 نکاتی ایجنڈے میں جموں و کشمیر کا نکتہ بھی شامل ہے ۔ ان کی یہ دلیل بھی سمجھ سے بالا تر ہے کہ مذاکرات سے پہلے ملاقات کرنے سے کشمیری فریق بن جاتے ہیں اور مذاکرات کے بعد ملاقات سے کشمیری فریق ہی نہیں بنتے ۔جب تک کشمیر متنازع مسئلہ ہے اس وقت تک کشمیری برصغیر میں امن کی تلاش میں ایک ضروری اور relevant پارٹی ہیں۔ دہشتگردی ہو یا امن کشمیریوں کے بغیر کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی۔ سشما سوراج مذاکرات سے راہ فرار کا کوئی ایسا جواز پیش نہیں کر سکیں ہیں جو دنیا کو قابل قبول ہو۔ بھارت کی طرف سے مذاکرات نہ کرنے کا بظاہر جواز کچھ اور ہے جبکہ اسکے اصل اسباب کچھ اور ہیں ، جنہیں ماضی کی تاریخ اور آج کی بدلتی ہوئی دنیا کے تناظر میں سمجھنا چاہئے ۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تقریباً 8 سال سے مذاکراتی عمل تعطل کا شکار تھا ۔ یہ تعطل ختم نہیں ہوا ۔ آئندہ ستمبر میں اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاک بھارت وزرائے اعظم کی دوبارہ ملاقات ہونی ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ملاقات کیلئے ماحول سازگار نہیں ہوگا ۔پاکستان اور بھارت کے عوام کی اکثریت یہ چاہتی ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہوں ۔ ان کے درمیان ثقافتی رشتے زیادہ مضبوط ہوں اور باہمی تجارت میں اضافہ ہو کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے نہ صرف برصغیر کے لوگوں کو فائدہ ہو گا بلکہ اس خطے میں امن بھی قائم ہوگا اور اس خطے کی اجتماعی ترقی اور خوش حالی میں بھی مدد ملے گی ۔ پاکستان کی حکومت بھی ہمیشہ تعلقات کو بہتر بنانے کی خواہش مند رہی ہے لیکن بھارت کی طرف سے دونوں ملکوں کے عوام کی خواہشات اور پاکستان کی نیک نیتی کا احترام نہیں کیا گیا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی اس حکومت کا رویہ سب سے زیادہ منفی اور جارحانہ ہے ۔ اس سے خطے میں امن کیلئے کئی خدشات پیدا ہو رہے ہیں ۔
بھارت نے مذاکرات سے راہ فرار کیوں اختیار کی ؟ اس کے دو بڑے اسباب نظر آرہے ہیں ۔ ایک بڑا سبب تو یہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاست انتہا پسندی پر مبنی ہے ۔ اس سیاست کے دو بنیادی عوامل ہیں ، یعنی ہندو توا ( Hindutva ) اور پاکستان دشمنی ۔ نریندر مودی کے ہوتے ہوئے بھارت کبھی بھی پاکستان کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گا کیونکہ جیسے ہی پاکستان کے ساتھ بھارت نے مذاکرات شروع کئے ، نریندر مودی کی سیاست کی نظریاتی بنیادیں منہدم ہو جائیں گی ۔ بھارتی ریاست بہار میں انتخابات ہونے والے ہیں ۔ نریندر مودی یہ تاثر پیدا نہیں کرنا چاہتے کہ وہ پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ تاثر ان کی انتہا پسندانہ سیاست کے رائج طریقوں ( Norms ) کے خلاف ہے ۔ اسلئے بھارت مذاکرات سے بھاگ رہا ہے ۔ دوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ بھارت کشمیر تو کیا دہشت گردی سمیت کسی بھی مسئلے پر بات کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ سشما سوراج کا یہ کہنا کہ صرف دہشت گردی کے مسئلے پر مذاکرات ہوں گے اور بعد میں کشمیر پر بھی بات ہو گی ، یہ ایک ’’ کیمو فلاج ‘‘ ہے ۔ بھارت ہمیشہ یہ الزام لگاتا رہا ہے کہ پاکستان کی سرحدوں سے بھارت میں دہشت گردی ہوتی ہے لیکن اب دنیا یہ جان چکی ہے کہ بھارت کے یہ الزامات درست نہیں ہیں اور بھارت میں دہشت گردی کی ہونے والی بعض کارروائیوں میں خود بھارت نے ہی منصوبہ بندی کی تھی ۔ سمجھوتہ ایکسپریس کے واقعے سمیت کئی واقعات میں بھارت ’’ ایکسپوز ‘‘ ہو چکا ہے ۔ اب تو مغربی ذرائع ابلاغ نے بھی کھل کر یہ حقائق شائع اور نشر کرنا شروع کر دیئے ہیں کہ پاکستان کے بعض علاقوں خصوصاً کراچی،بلوچستان اور شمالی علاقہ جات میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں میں بھارت ملوث ہے ۔ پاکستان کے پاس اس امر کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ ابھی چند ماہ قبل وزیر اعظم مودی نے بنگلہ دیش کے دورے پرکھل کرتسلیم کیا کہ پاکستان کو دولخت کرنے اور مکتی باہنی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے جن کا بھارت کے پاس کوئی جواب نہیں ہے ۔ یہ بات بھی مذاکرات سے اس کے راہ فرار کا سبب ہے ۔ تیسرا بڑا سبب یہ ہے کہ دنیا میں نئی صف بندیاں ہورہی ہیں ۔ چین اور روس ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں اور وہ دنیا میں ایک نیا اتحاد اور نئے اقتصادی بلاکس بنانے کیلئے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔انہیں پاکستان کے اسٹریٹجک محل وقوع کی وجہ سے پاکستان کی بہت زیادہ ضرورت ہے وہ سمجھتے ہیں کہ مشرقی ایشیا اور وسطی ایشیا کے مابین ترقی کا راستہ پاکستان سے ہو کرجاتا ہے ۔ اسی طرح اس خطے میں امن کا راستہ بھی پاکستان سے ہو کر جاتا ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان میں لگی ہوئی آگ کو بجھایا جائے اور پاکستان اپنی ساری توجہ مغربی سرحدوں پر مرکوز کردے ۔ وہ اس بات کو ناپسندکر رہے ہیں کہ بھارت پاکستان کو مشرقی سرحدوں پر الجھا کر رکھے اور وہ اپنے انٹیلی جنس اداروں کے مضبوط نیٹ ورک کے ذریعے افغانستان کو کنٹرول کرے یا وہاں سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں بھی کرائے۔ بھارت کی پاکستان مخالف پالیسی نہ صرف اس خطے کے امن کیلئے خطرہ ہے بلکہ نئی دنیا کی تعمیر اور نئی عالمی صف بندی کی راہ میں بھی رکاوٹ ہے ۔ پاکستان کو تنہا کرنے کی کوششوں میں بھارت خود تنہا ہو گیا ہے ۔ وہ یہ بھی محسوس کرتا ہے کہ اس نئی صورت حال میں پاکستان کے ساتھ اسکے مذاکرات اسکی پالیسی کی ناکامی اور سفارتکاری میں اسکی پسپائی کے مترادف ہوں گے۔ اسلئے بھی وہ ان مذاکرات سے بھاگ رہا ہے ۔مذاکرات کے بغیر یہ پاکستان کی بڑی سفارتی فتح ہے ہمیں بھارت کی اس پوزیشن کو مدنظر رکھ کر اپنی حکمت عملی وضع کرنی چاہئے کیونکہ بھارت اس صورت حال سے نکلنے کیلئے کوئی فوجی مہم جوئی بھی کرسکتا ہے ۔
تازہ ترین