• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں جب پاکستانی عوام کو قومی جھنڈا لہراتے ہوئے اور آزادی کی خوشیاں مناتے ہوئے دیکھتا ہوں تو مجھے فوراً خیال آتا ہے کہ آزادی کے لئے لڑنے والے ان مجاہدین کو جنہیں ہم بے گوروکفن چھوڑ آئے تھے اور جو اس آزاد پاکستان میں گمنام سپاہی ہوگئے انہیں ہماری سیاسی پارٹیاں اور حکمران وقت یاد کیوں نہیں کرتے۔ جو ہمارے آج پر کل قربان ہوگئے تھے۔ ہمیں تو تاریخ کے ان لمحوں سے بھی بے خبر رکھا جاتا ہے جو اس آزادی کے لئے اپنی جانیں ، مال و متاع اور سب کچھ قربان کر گئے۔ بلاشبہ آزادی کی اتنی بھاری قیمت کسی اور قوم نے نہیں دی ہوگی۔ مگر 14 اگست1947ء کے بعد عوام کا جو حشر ہم نے کیا ہے اور جو مسائل ان کےلئے پیدا کئے ہیں اس پر کس سے جواب مانگا جائے، صاحب اقتدار، مذہبی حلقوں ، دانشور کون جواب دے گا؟ ہمارے شہری بنیادی مسائل سے آج بھی کیوں محروم ہیں ؟ اس غریب قوم کا کیا قصور ہے؟ ہماری سیاسی جماعتوں نے آزادی کےلئے بلاشبہ جدوجہد ضرور کی ہوگی۔ لیکن اب اس جدوجہد کا فائدہ اقتدار پسند طبقہ اور صاحب ثروت افراد ہی اٹھا رہے ہیں۔ اب بھی ہمارے دیہات، گلیاں کارخانے روشنی سے محروم ہیں، ایسا کیوں ہے؟
جب سے پاکستان بنا ہے چند مخصوص لوگ یا افراد ہی اس کی آزادی کی نعمتوں سے فیض یاب ہورہے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر جنگ پچھلی نصف صدی سے جاری ہے جبکہ عوام مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں۔ آج بھی ہمارے شہروں کی حالت پہلے سے بدتر ہے۔ اگر حکمراں عوام کی بہتری کےلئے اور پاکستان کی ترقی کے لئے کام کرتے تو ہم آج ترقی یافتہ ملکوں کے ہم پلہ ہوتے مگر آزادی کے بعد کرپشن معاشرتی جرائم اور برائیوں کے خلاف کوئی متحدہ محاذ نہیں بنا بلکہ قصور جیسے واقعات پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ عوام میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ نشاندہی کر سکے۔ کیونکہ طاقت کا سرچشمہ خواص اور اقتدار پسند لوگ ہیں۔ اس لئے معاشرتی جرائم کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہورہا ہے۔ جن صحافیوں ، سماجی کارکنوں اور معاشرے کے اچھے لوگوں نے ان افراد کی نشاندہی کی ان کا ’’خانہ خراب‘‘ کردیا گیا۔ قصور جیسے واقعات سارے ملک میں مختلف جگہوں پر ہوتے رہتے ہیں۔ لوگ چوپالوں، گھروں ، مساجد میں تو ان کا ذکر کرتے ہیں لیکن ’’طاقتور لوگوں‘‘ سے دشمنی لینے کو تیار نہیں۔ کسی زمانے میں برے لوگوں سے لوگ نفرت کرتے تھے۔ اب علاقے میں جو جتنا برا ہے اس کی اتنی ہی ’’عزت افزائی‘‘ کی جاتی ہے۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ شریف اور ایماندار لوگ منہ چھپا کر نکلتے ہیں کہ کہیں ان کو لوگ یہ طعنہ نہ دیں کہ یار یہ تو شریف آدمی ہے اسے کچھ نہ کہو۔ آزادی کی قیمت کیا ہے۔ یہ ان قوموں سے پوچھئے جو ابھی تک اپنے وطن کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ فلسطینی عوام نصف صدی سے اپنی آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہیں جبکہ ان کی تیسری نسل بھی جوان ہوچکی ہے۔برما کے تارکین وطن کو معلوم ہے کہ وطن کی قیمت کیا ہے۔ اور بہت سے علاقے ایسے بھی ہیں جو آزادی کے حصول کےلئے آج بھی قربانیاں دے رہے ہیں۔ جیسے کشمیر، بوسنیا،چاڈ،اور دنیا کے مختلف علاقے شامل ہیں مگر جن علاقوں کو ’’صاحب لوگ‘‘ پسند کرتے ہیں انہیں فوراً آزادی بھی دے دی جاتی ہے اور اقوام متحدہ کی ممبر شپ بھی دے دی جاتی ہے۔ مگر فلسطین قبرص اور دنیا کے کئی پسماندہ علاقوں میں یہ نعمت میسر نہیں۔ قائداعظم کی رہنمائی میں ہمیں 14 اگست 1947 ء کو آزادی ملی ۔ جو ایک خون میں ڈوبا ہوا پاکستان تھا۔ مگر کیونکہ ہماری قیادت محمد علی جناح اور ان کےعظیم ترین ساتھیوں کی مرہون منت تھی ان میں سے ایک بھی بے ایمان نہیں تھا۔ وہ وطن کی مٹی کو سونے سے زیادہ قیمتی سمجھتے تھے۔ مگر آب جو یوم آزادی ہم نےمنایا وہ مسائل کا پاکستان ہے جس میں بھوک ننگ، افلاس پانی اور بجلی سے محرومی، صحت کے مسائل سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ جب عوام اپنے سیاسی رہنمائوں اور حکمرانوں کو ٹھاٹ باٹ سے رہتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کی مایوسی اور بڑھ جاتی ہے۔ قوم کو مختلف فرقوں، علیحدگی پسندوں اور صوبائی بنیاد پر تعصب زدہ لوگوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ جب کے ہمارے پڑوسی ہمارے وجود کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں انہی سے اپنی آزادی کے لئے مطالبے کئے جارہے ہیں اور ان کے میڈیا پر جس قسم کے واضح اشارے مل رہے ہیں کہ’’ آؤ ہمیں گود لے لو‘‘ ہمارے دانشور اور خود ساختہ سیاسی قائدین ایک دوسرے کے سرپھوڑنے میں مصروف ہیں۔ بلاشبہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور خدا کا دیا ہوا عطیہ ہے۔ اسے بہر حال قائم رہنا ہے۔ ہمارے لوگوں کو تو کم معلوم ہے کہ نریندر مودی کو گجرات سے اٹھا کر دہلی کیوں لایا گیا ہے۔ اور ان کے ’’تھنکر فورم‘‘ انہیں کیا پالیسیاں دے رہے ہیں۔ نریندر مودی کی سرکار اس فارمولے پر عمل کر رہی ہے کہ پڑوسیوں کو امن سے نہ رہنے دو تاکہ وہ طاقتور نہ ہوجائیں اور بھارت کے حکمران آنکھیں بند کر کے اس پر عمل کر رہے ہیں۔ جبکہ بعض لوگ اپنی طاقت کے خلاف بیانات دینے سے نہیں چوکتے۔ آزادی کیا ہے یہ ان قوموں سے پوچھئے جو آزادی کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں۔ پاکستانی عوام محب وطن، بہادر اور جفاکش ہیں۔ انہیں ہمیشہ سچ سے آگاہ کرنا بہت ضروری ہے اور خوشامدی افراد کبھی یہ فرض انجام نہیں دے سکتے ، عوام تو آزادی اور قربانیوں کی جدوجہد سے آگاہ ہیں مگر آزادی کیا ہے خواص کو بھی معلوم ہونا چاہئے ۔
تازہ ترین