• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پلاننگ اور ڈویلپمنٹ کے وفاقی وزیر پروفیسر احسن اقبال ایک صاحب بصیرت (Visionary) کی شہرت رکھتے ہیں۔ وہ شاید اس لئے کہ انہوں نے قوم کو مختلف اوقات میں مختلف وژن عطا کئے۔ نوازشریف سرکار کی گزشتہ ٹرم میں موصوف نے وژن 2010 ء دیا تھا جو پرویز مشرف نامی شخص کی مہم جوئی کی نذر ہوگیا تھا۔ جب سے نون لیگ دوبارہ بلکہ سہ بارہ اقتدار میں آئی ہے احسن اقبال صاحب کے وژنز کا سلسلہ پھر سے شروع ہوگیا تھا۔ آج کل وژن 2015ء پر کام ہورہا ہے جس کے تحت دیگر امور کے علاوہ ہر ضلع میں سرکاری یونیورسٹی کا قیام بھی شامل ہے اور ایچ ای سی اس حوالے سے صوبائی حکومتوں اور پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں سے خط و کتابت میں مصروف ہے۔ نہ جانے ہم کب سمجھیں گے کہ زمانہ قیامت کی چال چل چکا۔ دنیا بھر میں مقدار کے مقابلے میں معیار کو ترجیح دی جاتی ہے۔ آزادی کے وقت پاکستان بھر میں صرف ایک یونیورسٹی تھی، جامعہ پنجاب جس کا حلقہ اثر دہلی تک تھا اور معیار کا یہ عالم کہ اس کے نصف درجن کے لگ بھگ فارغ التحصیل نوبل انعام کے مستحق ٹھہرے اور اب عالم یہ ہے کہ راقم گزشتہ دنوں آسٹریلیامیں تھا۔ ایک پورا دن آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کینبرا میں گزارنے کا موقع ملا جہاں متعدد پاکستانی طلبہ نے شکایت کی کہ ان کی ڈگریوں کو وہاں تسلیم نہیں کیا جارہا۔ حتیٰ کہ پبلک سیکٹر کی بعض نامی گرامی جامعات کی اسناد کے بارے میں بھی شکوک و شہبات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ایگزیکٹ کی داستان وہاں ہر کسی کو ازبر تھی اور ہمارے طلباء کو اس حوالے سے بھی مطعون کیا جاتا ہے۔ ہر ضلع میں سرکاری یونیورسٹی کھولنے سے پہلے ذرا یہ تو بتادیں کہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈویژن اور ایچ ای سی والے پہلے سے موجود جامعات کے حالات و معاملات سے کس قدر آگاہ ہیں؟ انہیں تو برساتی کھمبیوں کی طرح اگی ان جامعات کی صحیح تعداد بھی معلوم نہیں تھی، وہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ ان میں کتنی قانونی ہیں اور کتنی غیر قانونی دھندہ کررہی ہیں۔ کم از کم 185 کے بارے میں تو ایچ ای سی بذات خود دہائی دے چکا ہے کہ وہ غیرقانونی ہیں اور این او سی کے بغیر کام کررہی ہیں۔
غضب خدا کا گاہے گاہے ایک بے ضرر قسم کا اشتہار جاری کرنے کے علاوہ ایچ ای سی اس غیرقانونی کاروبار کو ختم کرنے کے لئے کچھ نہیں کرپایا۔ نتیجتاً یہ تعلیمی فیکٹریاں رات دن پروڈکشن میں ہیں۔ ڈگریاں دھڑا دھڑا تقسیم ہورہی ہیں اور تعلیم کے نام پر جہالت پھیلائی جارہی ہے۔ یہ سب پرائیویٹ اداروں میں ہی نہیں ہورہا سرکاری یونیورسٹیاں بھی اس کاروبار میں شریک ہیں۔ سب جامعات نے دوسرے شہروں/ قصبوں میں کیمپس کھول رکھے ہیں، کسی یونیورسٹی کی حدود متعین نہیں رہیں۔ ایک ایک شہر میں دس دس یونیورسٹیوں کے کیمپس کام کررہے ہیں، جہاں ماسوائے چند ایک کے، انفراسٹرکچر، فیکلٹی، کتب خانے، لیبارٹریز سمیت کچھ بھی معیاری نہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ رہا ایچ ای سی تو اٹھارہویں ترمیم کے بعد اس کی حیثیت شو پیس سے زیادہ نہیں رہی۔ جامعات اس کے احکامات کو اہمیت نہیں دیتیں، عملدرآمد تو کجا وہ تو اس کے مراسلات کا جواب دینا بھی کسر شان سمجھتی ہیں۔ ایسے میں کمیشن کے پاس ایک ہی آپشن رہ جاتا ہے کہ غیرقانونی جامعات اور ان کے ملحقات کی فہرست وقفے وقفے سے جاری کرتا رہے جو شاید طلباء اور ان کے والدین کی نظر سے نہیں گزرتی ورنہ مذکورہ 185 غیر قانونی جامعات کب کی ویران ہوچکی ہوتیں مگر یہ تو پی ایچ ڈی تک کی ڈگریاں عطا کررہی ہیں اور یہ ’’ڈاکٹر صاحبان‘‘ اپنے مقالے چھپاتے پھرتے ہیں کہ کسی پڑھے لکھے کی نظر پڑگئی تو سارا بھید کھل جائے گا۔ غضب خدا کا یہی نابغے علم کی شمع روشن کرنے کےلئے یونیورسٹیوں میں بھرتی بھی ہورہے ہیں۔ راقم نے چند برس پہلے ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں پڑھایا تھا جہاں ایسے ایسے ’’پروفیسروں‘‘ کو دیکھا جو پرائمری ٹیچر بننے کے بھی اہل نہ تھے۔ علم و تحقیق تو دور کی بات وہ اپنے مضمون کی مبادیات تک سے بے خبر تھے۔ پاکستان وجود میں آیا تو پی ایچ ڈی حضرات کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی تھی۔ ساٹھ برس بعد 2007 ء میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق ان کی تعداد ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ تھی۔ ڈاکٹر عطاء الرحمٰن ایچ ای سی کے سربراہ بنے تو پی ای ڈی ڈگری ہولڈرز کی تعداد میں اضافے کا غلغلہ اٹھا۔ مقامی اور باہر کی جامعات میں اس اعلیٰ ترین ڈگری کے لئے اسکالرز کو خصوصی مراعات دی جانے لگیں۔ رسپانس حوصلہ افزا تھا، پی ایچ ڈی حضرات کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا، جن میں سے نصف سے زیادہ نے یہ معرکہ اردو، اسلامیات، عربی، فارسی اور پاکستان کی علاقائی زبانوں میں سر کیا ہے۔ باہر سے پڑھ کر آنے والوں کے حالات بھی کچھ زیادہ اچھے نہیں۔ دنیا کی ٹاپ یونیورسٹیوں کی ہر برس ایک فہرست نکلتی ہے اور تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کی ٹاپ 500 جامعات میں پاکستان کی ایک بھی جامعہ شامل نہیں۔ سرکاری جامعات پہلے ہی شاکی ہیں کہ علمی و تحقیقی رجحان کے حامل اساتذہ نایاب ہیں جسے کوئی اور نوکری نہیں ملتی ٹیچنگ میں آجاتا ہے۔ تجربے نے یہ بھی ثابت کردیا کہ علم و فضل کا پی ایچ ڈی سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمارے زمانے کے گورنمنٹ کالج میں بیسیوں اساتذہ پی ایچ ڈی نہیں تھے مگر ان کی علمیت مسلمہ تھی اور تحقیق و تدقیق کے میدان میں بھی پہچان رکھتے تھے۔ اب اساتذہ بے چارے پڑھانے کی بجائے پی ایچ ڈی کے پیچھے بھاگتے ہیں جس سے ان کا مستقبل باندھ دیا گیا ہے۔ اسسٹنٹ پروفیسر کے بعد ترقی کےلئے پی ایچ ڈی ضروری قرار پاتی ہے۔ کیا ایسی ڈگری واقعی کسی کام کی ہے؟ کیا اس سے اساتذہ کی علمیت میں واقعی فرق پڑتا ہے؟ اس کی گواہی ڈاکٹر عطاء الرحمٰن دے چکے، فرماتے ہیں کہ ’’ہماری جامعات میں پانچ ہزار اساتذہ کے پاس پی ایچ ڈی کی ڈگری ہے، مگر افسوس کہ ان میں سے بیشتر تحقیق کرنے کے قابل نہیں۔‘‘
بے شک تحقیق زبردستی نہیں کرائی جاسکتی۔ مقالات بھی گن پوائنٹ پر نہیں لکھوائےجاسکتے…مگربدقسمتی سے ہمارے ہاں یہی ہورہا ہے۔ اسسٹنٹ پروفیسر سے اوپر جانا ہے تو پی ایچ ڈی کرنا ہوگی پھر ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پروفیسر صاحبان کے لئے آٹھ دس تحقیقی مقالات کی اشاعت بھی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ یہ مقالہ جات کس درجے کے ہوتے ہیں اور کیسے کیسے جرائد میں چھپتے ہیں؟ یہ ایک الگ داستان ہے۔ ضابطے کی کارروائی تو پوری ہوجاتی ہے مگر افسوس کہ اس کے بعد ان کی علمیت کے سوتے سوکھ جاتے ہیں اور وہ زندگی بھر تحقیق و تدقیق کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔ جون 2008ء میں راقم نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ پی ایچ ڈی کی ریل پیل میں کہیں یہ ڈگری مذاق بن کر نہ رہ جائے اور پی ایچ ڈی حضرات پانچویں ساتویں گریڈ کی نوکریاں نہ ڈھونڈنے لگیں۔ بدقسمتی سے یہ خدشات صحیح ثابت ہورہے ہیں۔ پی ایچ ڈی کی ریل پیل تو ہوگئی مگر یہ کسی کو پتہ نہیں کہ ان کا کرنا کیا ہے؟ پچھلے دنوں ایک وفاقی ادارے میں گریڈ 14 کی اسامیاں نکلیں تو پی ایچ ڈی درخواست دہندگان کی تعداد 24 تھی۔ لاہور پولیس میں بھرتی ہونے والی لیڈی کانسٹیبلوں میں متعدد ایم۔ فل ہیں۔ 451 پی ایچ ڈی خواتین و حضرات وطن عزیز کے اسکولوں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ اعلیٰ تعلیم کا معاملہ اس قدر الجھادیا گیا ہے کہ سلجھائو کی کوئی صورت شاید ہی بن پائے۔ ملک کی ایک فاصلاتی یونیورسٹی کے ذریعے تعلیم عام کرنے کا بھی بہت چرچا ہے۔ گزشتہ 40برسوں میں ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ سرٹیفکیٹ، ڈپلومے اور ڈگریاں اس یونیورسٹی نے ضرورت مندوں میں تقسیم کئے ہیں مگر یہ سب کچھ جس انداز میں ہوتا رہا ہے وہ کوئی راز کی بات نہیں۔ فرضی اسائنمنٹس، فرضی ورکشاپس اور فرضی امتحانات… غرض سب کچھ فرضی۔ البتہ ڈگری اصلی کیونکہ سرکاری جامعہ کی عطا کردہ ہے۔ اس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والوں کی کھپت کہاں ہے؟ اس سوال کے جواب میں وائس چانسلر صاحب نے فرمایا ہے کہ ’’ہمارے اسٹوڈنٹس پہلے ہی نوکریوں میں ہوتے ہیں، یونیورسٹی انہیں آگے پڑھنے کا موقع فراہم کرتی ہے، جس سے ان کے عہدے اپ گریڈ ہوجاتے ہیں۔‘‘ کیا ان کی علمی اور ذہنی سطح بھی اپ گریڈ ہوتی ہے؟ اس بارے میں راوی خاموش ہے۔
تازہ ترین