• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایران کے بزرگ شیخ سعدیؒ کو کون نہیں جانتا، 90سال کی عمر میں انہوں نے ایک پودا لگایا روزانہ اس پودے کی آبیاری کرتے اس کے اردگرد فالتو جڑی بوٹیوں کو تلف کرتے۔ ایک دن کسی منچلے نے راہ گزرتے کہا شیخ صاحب اس عمر میں آپ پودے کی آبیاری کررہے ہیں، کب یہ بڑا ہوگا اور کب آپ اس کی چھائوں میں بیٹھیں گے۔ شیخ سعدی ؒ مسکرائے اور بولے میں نہیں لیکن میری آنے والی نسلیں اس کی چھائوں میں ضرور بیٹھیں گی۔ بالکل اسی طرح1859ء میں سوئس شہری’’ہینڈری ڈونا‘‘ جو ایک تاجر تھے ان کا کاروبار دنیا کے بہت سے ممالک میں پھیلا ہوا تھا اور اس سلسلے میں وہ بہت سے ملکوں کا دورہ کرتے تھے۔ اٹلی کے شہر’’سیلفرنیو‘‘ میں انہوںنے آسٹرین اور فرنچ فوجوں کی جنگ جاری دیکھی جہاں23ہزار کے قریب فوجی جوان زخمی تھے۔ ہینڈری ڈونا نے وہاں کے مقامی لوگوں کو اکٹھا کیا اور اپنا سفر کینسل کرکے زخمیوں کی مرہم پٹی میں لگ گئے ۔ وہاں انہیں یہ خیال بھی آیا کہ ایسے زخمیوں کی مدد کے لئے ایک آرگنائزیشن ہونی چاہئے جس کے قواعد و ضوابط ہوں لہٰذا 1863ء میں مختلف ممالک میں’’ہلال احمر‘‘ سوسائٹی بننا شروع ہوگئیں۔ جنیوا کنونشن کے تحت ان سوسائٹیز کے کام شروع ہوگئے۔ 1962ء میں اسے’’میموریز آف سیلفرنیو‘‘ کانام دیا گیا۔ اب ہلال ا حمر دنیا کے192ممالک میں کام کررہی ہے۔ اس سوسائٹی کے رضا کاران قدرتی آفات اور حادثات کے حوالے سے اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
پاکستان کے دورہ کے دوران ہم ہلال احمر سوسائٹی اسلام آباد کے دفتر گئے تاکہ اس سوسائٹی کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی جا سکیں۔ سوسائٹی کے چیئرمین ڈاکٹر سعید الٰہی نے ہمیں اپنے سٹاف جن میں بریگیڈئر ریٹائرڈ غلام حسین اعوان اور خالد شامل تھے، کے ساتھ ہلال احمر کے مقاصد ا ور انسانیت کے لئے کی جانے والی خدمات کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔
ہلال احمر کی (این ایس) نیشنل سوسائٹی ہر ملک میں قائم ہے جس کے ساتھ ساتھ’’ آئی سی آر سی‘‘،’’آئی ایف آر سی‘‘ جنیوا میں کام کرتی ہیں۔ انسانیت کی خدمت کرنا سوسائٹیزکا اولین فرض ہے۔ برصغیر میں اس سوسائٹی کا آغاز1920ء میں ہوا۔ پاکستان بننے کے بعد20دسمبر1947ءکو پاکستان ریڈ کراس کے قانون کو قائد اعظم محمد علی جناح نے پاس کردیا۔ ہلال احمر(ریڈ کراس) کے حوالے سے ترکی سے ایک تحریک چلی تو یہ سوسائٹی1947ءمیں’’ہلال احمرکریسنٹ‘‘ بن گئی۔ پاکستان ہلال احمر کریسنٹ کا ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں قا ئم ہے لیکن اس کی شاخیں صوبائی اور ڈسٹرکٹ لیول پر کام کررہی ہیں۔ اس محکمے کے رضاکار لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ ہیلتھ اینڈ کیئر آرگنائزیشن ڈیویلپمنٹ اور قدرتی آفات میں مدد کے تحت ہلال احمر کریسنٹ میں کام کیا جاتا ہے۔ بلڈ بنک، فرسٹ ایڈ، ایمبولینس سروسز، ہیلتھ اور یوتھ کی فلاح کے کام بھی اس سوسائٹی کی خدمات میں شامل ہیں۔ یہ ادارہ گورنمنٹ آف پاکستان کا حصہ نہیں لیکن ادارے کے چیئرمین کو صدر پاکستان تعینات کرتے ہیں پھر چیئرمین مینجمنٹ گروپ کو منتخب کرتا ہے۔ مینجمنٹ بورڈ ادارے کے تمام معاملات کو دیکھتا ہے۔ صوبائی چیئرمین کو گورنر کی جانب سے تعیناتی دی جاتی ہے۔
پاکستان ہلال احمر اسلام آباد کے سیکرٹری جنرل نے بتایا کہ ہمارا ادارہ 1947ءسے قائم ہے لیکن آج تک اس ادارے میں مزید خدمات یا مزید کاموں کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی لیکن 2014ءمیں تعینات ہونے والے چیئرمین ڈاکٹر سعید الٰہی نے ادارے کی مضبوطی اور خدمات کا دائرہ کار بڑھانے کے لئے تین بنیادی اور اہم میجر قدم اٹھائے ہیں جن پر سٹاف کے ساتھ ساتھ پوری قوم کو فخر ہے۔ پہلا کام 1030ہیلپ لائن بنائی ہیں جسے’’ریسٹورنگ فیملی لنک‘‘ کا نام دیا گیا ہے جس کے تحت ایسے گم شدہ یا زخمی افراد جو اپنے خاندان سے رابطہ نہیں رکھ سکتے ،وہ اس ہیلپ لائن کے تحت ایک دوسرے تک پہنچ سکتے ہیں۔ نمبر2فرسٹ ایڈ کی ٹریننگ دینے کے لئے پاکستان کے تمام شہروں میں ٹرینر بھیجے جاتے ہیں تاکہ لوگ ابتدائی طبی امداد کی مہارت حاصل کرسکیں اور کسی بھی ہنگامی صورتحال میں خود یہ کام کرسکیں جس کے تحت ڈسٹرکٹ آفیسر ز ریڈ کریسنٹ 33 ڈسٹرکٹ میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نمبر 3سکول سیفٹی پر کام شروع کیا ہے۔2015ءمیں نیشنل ایمبولینس کالج معرض وجود میں آیا اور ساتھ ساتھ آئرلینڈ کی ڈبلن یونیورسٹی سے تعلیمی الحاق کیا ہے۔ چیئرمین سعید الٰہی نے ایمبولینس مکینک کورس شروع کرایا ہے تاکہ ایمبولینس خراب ہونے کی صورت میں اسے بروقت ٹھیک کیا جاسکے۔ چیئرمین کے اسی دور میں پاکستان کے 23ہزار مدارس کے ساتھ’’چارٹر آف ہیومینیٹی‘‘ جسے اتحاد تنظیم المدارس کا نام دیا گیا ہے ،کے تحت دستخط کئے گئے ہیں جس کے تحت مدارس کے طلباء رضاکاروں کے طور پر بھی کام کریں گے۔انہی دو سالوں میں ہلال احمر کریسنٹ پاکستان کے زیر انتظام ’’سولر ویلز‘‘ شمسی توانائی کے کنویں لگا ئے جارہے ہیں۔ ساتھ ساتھ پاک چائنا اقتصادی راہداری ’’سی پیک‘‘ پر چائنا کریسنٹ کے ساتھ مل کر کام کا آغاز کیا گیا ہے۔ گلگت اور گوادر میں ’’ٹراما سنٹر‘‘ اور حادثاتی پوزیشن میں کام کرنے کے لئے وہاں موجودا سپتالوں میں کام کیا جارہا ہے، برٹش اور کینیڈین ریڈکراس کے ساتھ’’چیرٹی‘‘ کے حوالے سے ایک ’’میمورینڈم آف انڈر سٹینڈنگ‘‘ ’’ایم او یو‘‘ پر دستخط کئے گئے ہیں۔ سکالر کالج آف ایجوکیشن کے ساتھ مل کر ریڈکراس اسکالر کالجز کے چارٹر پر دستخط ہوئے ہیں۔ روڈ سیفٹی پروگرام شروع کیا گیا ہے جس کے تحت پاکستان میں 9ہزار سالانہ ایکسیڈنٹ میں ہونے والی 5 ہزار اموات اور زخمیوں کی مدد کا کام کیا جائے گا۔
یہ تفصیلات سن کر ہمیں بھی ہلال احمر کریسنٹ پاکستان کی انسانیت کے لئے کی جانے والی خدمات پر فخر محسوس ہوا۔ پاکستانی ہونے کے ناطے ہمارا سینہ بھی چوڑا ہوگیا کیونکہ اب ہم یورپ واپس جا کر وہاں کے مقامی افراد کو ہلال احمر کریسنٹ پاکستان کی خدمات کے بارے میں بتاسکیں گے، موجودہ چیئرمین ڈاکٹر سعید الٰہی نے اس ادارے کی افادیت اور انسانیت کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے جو احسن اقدام اٹھائے ہیں وہ خراج تحسین کے قابل ہیں۔
ڈاکٹر سعید الٰہی سے پہلے تعینات چیئرمینوں نے ایسے احسن اقدام کیوں نہیں کئے ،یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو آج ہلال احمر کریسنٹ پاکستان دنیا بھر میں ایک مثال بن جاتا، ’’خیر دیر آید درست آید‘‘ ہمیں امید بھی ہے اور بظاہر نظر بھی یہی آتا ہے کہ ڈاکٹر سعید الٰہی اپنی ٹیم بریگیڈیئر غلام حسین اعوان اور خالد بن مجید سمیت اپنے سٹاف کے ساتھ اس ادارے کی ترقی کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے کیونکہ بقول شاعر؎
اپنے لئے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا



.
تازہ ترین