• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اوڑی حملے کے بعد پاکستان بھارت پر جنگ کے سیاہ بادل منڈلا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ جنگ کس کی ضرورت ہے؟ تو آئیے آج کی نشست میں اس کا جائزہ لیتے ہیں، لیکن جائزے سے پہلے یہ جانیں کہ اسلام کا فلسفہ جنگ کیا ہے؟ اسلام کے فلسفہ جنگ کو اس حدیث کی روشنی میں بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ حضور ﷺنے صحابہ کرامؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ حتی الامکان جنگ سے بچنے کی کوشش کرو۔ اگر جنگ مسلط کر دی جائے تو پھر ڈٹ کر مقابلہ کرو یہاں تک کہ حق غالب آ جائے۔‘‘ آپ ﷺکی پوری کوشش ہوتی تھی کہ کفارِ مکہ و مشرکین اور اس وقت کی عالمی طاقتوں فارس و روم کے ساتھ صلح صفائی سے ہی معاملات طے پاجائیں۔ جنگ کی نوبت نہ آئے۔ جنگ کو آخری آپشن کے طو رپر اختیار کرتے تھے۔ دینِ اسلام کی تعلیمات تو امن کا درس ہیں۔ مسلمانوں کے جدِ امجد حضرت ابراہیمؑ نے بھی بیت اللہ کو تعمیر کرنے کے بعد مکہ کے بارے میں بارگاہِ الٰہی میں دونوں ہاتھ اٹھاکر دعاکی تھی کہ’’اے ربّ تو اس کو امن کا گہوارہ بنادے۔‘‘ اسلامی تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ مسلمانوں نے آخری حدوں تک کوشش کی کہ جنگ نہ ہو۔صلح حدیبیہ اس کی واضح مثال ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں جتنے لوگ جنگوں میں مرے ہیں اس کا 78 فیصد گزشتہ ساڑھے پانچ سو سالوں میں ہلاک ہوئے ہیں، اور اکیسویں صدی میں انسانی تاریخ کی سب سے بڑی اور خوفناک جنگیں ہوئیں۔پہلی جنگ عظیم 1914سے 1918تک چلی۔ان 4سالوں میں یورپ کے ساڑھے 4کروڑ افراد مارے گئے۔معذور اور زخمی ہونے والے اس کے علاوہ ہیں۔دوسری جنگ عظیم 1939سے 1945تک لڑی گئی ۔ان چھ سالوںمیںیورپ،امریکہ اور جاپان کے سوا6کروڑ لوگ ہلاک ہوئے۔ یہ سب جنگیں امریکہ ، یورپ اور مغرب نے اپنے مفادات کے لئے مسلط کیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ خونریزی سیکولرازم، کیپٹل ازم اور لبرل ازم نے کی ہے۔ ’’مائیکل مین‘‘ کی کتاب ’’The Dark Side of Democracy‘‘ کے مطابق ’’امریکہ میں آنے والے جمہوری انقلاب میں امریکیوں نے 50 سال میں 10 کروڑ ریڈ انڈینز کو قتل کیا ہے۔ آج امریکہ جس بنیاد پر کھڑا ہے اس میں 10کروڑ لوگوں کا خون ہے، جبکہ اسلامی تاریخ کے 15سو سال کے اندر 10لاکھ بھی قتل نہیں ہوئے۔ انقلابِ فرانس، انقلابِ روس اور انقلابِ چین میں بھی 8 کروڑ سے زیادہ لوگ قتل کیے گئے، یہ تینوں سیکولر انقلاب تھے۔ لاطینی امریکہ میں انقلاب لانے کے لیے 2 کروڑ قتل کیے گئے۔ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم خالص سیکولر جنگیں تھیں، ان جنگوں کا مطلب یہی ہے کہ دنیا کی تاریخ میں ایسی جنگ عظیم اس سے پہلے کبھی ہوئی ہی نہیں۔ دونوں جنگوں میں مجموعی طور پر 11کروڑ سے زائد لوگ قتل کیے گئے۔ یہ سب سیکولر جنگیں تھیں۔ امریکہ نے اپنے یومِ آزادی سے ہی تشدد وبربریت کا راستہ اپنایا ہوا ہے۔ 1776ء سے اب تک امریکی مسلح افواج 227 مرتبہ اقوام عالم کے خلاف جارحیت کی مرتکب ہوچکی ہیں۔ ان 239 سالوں میں دو سو بیس مرتبہ جارحیت کے ارتکاب کی یہ شرح کسی بھی ملک کی شرح جارحیت سے کئی گنا زیادہ اور بیشتر صورتوں میں کئی سو گنا زیادہ ہے۔ اس کی وجہ پوچھی جائے تو وہ سمجھ میں آسکتی ہے۔ چنگیز خان کی گردن پر 34 ملین اور ہلاکو خان کی گردن پر صرف 4 ملین افراد کا خون بتایا جاتا ہے۔ تیمورلنگ کی خون آشام تلوار 14 ملین کا خون پی گئی جبکہ جرمن نازی رہنما ایڈولف ہٹلر کو 21 ملین کا جان لیوا بتایا جاتا ہے۔ یہ کل 73 ملین افراد ہوئے جبکہ امریکہ کے ذمہ اب تک 171.5ملین افراد کا قتل بلاشک وشبہ ثابت ہے۔ آئیے! حساب لگاتے ہیں۔ ریڈ انڈینز 100 ملین، افریقن 60 ملین، ویت نامی 10 ملین، عراقی1 ملین، افغان نصف ملین ہے۔ کل فرد جرم 171.5 ملین بنتے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیے اگر 73 ملین مظلومین کے قاتلوں کو ’’انسانیت کا قاتل‘‘ کہا جاتا ہے تو 171 ملین سے زیادہ کی رگ جان سے خون پینے والے امریکہ کو کیا نام دینا چاہئے؟ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے امریکہ 24 ملکوں پر بمباری کا مرتکب ہوچکا ہے۔ سب سے بڑھ کر جاپان پر ایٹمی حملہ کرکے پوری دنیا میں جارحیت اور بربریت کا اعزاز بھی اسی امریکہ کو حاصل ہے۔ امریکی دانشوروں میں اگر انسانیت کی رمق باقی ہوتی تو وہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر بم برسانے کے بعد اپنے حکمرانوں کو جوہری ہتھیار تلف کردینے کی تلقین کرتے، لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا بلکہ پوری دنیا پر چوہدراہٹ قائم کرنے کے نظریے اور استعماری عزائم کی بنا پر امریکہ 1945ء سے 2015ء تک دنیا میں مجموعی طور پر 108بڑی جنگیں لڑچکا ہے۔ ان جنگوں میں بارود کا کھلم کھلا استعمال ہوا۔ گھر جلے، شہر ویران ہوئے، لاشیں گریں، زخمیوں کی چیخوں اور مرنے والوں کی آہوں سے زمین اور آسمان کے دامن میں چھید ہوئے۔ ان سب جنگوں کے پیچھے ایک ہی نظریہ تھا۔ بعض جنگیں امریکہ نے براہِ راست لڑیں، بعض میں وہ شریک ہوا اور بعض میں اس کا اسلحہ استعمال ہوا۔ وہ جنگیں جن میں امریکہ شامل نہیں تھا، ان میں بھی مرنے والوں کے خون کے چھینٹے امریکی آستینوں پر ہی دکھائی دیتے ہیں۔ ان ایک سو آٹھ جنگوں میں 1996ء تک ایک کروڑ نوے لاکھ تہتر ہزار انسان ہلاک ہوئے۔ ان تمام جنگوں کے پیچھے امریکہ تھا، ان تمام جنگوں میں امریکی اسلحہ استعمال ہوا۔ استعماری عزائم رکھنے والی اسلحہ ساز کمپنیوں نے دونوں ہی ملکوں اور فریقوں کو علانیہ اور خفیہ طریقے جنگی اسلحہ اور سرمایہ فراہم کیا۔ اس وقت بھی دنیا میں 68 ایسے تنازعات موجود ہیں جو دنیا کے 43 فیصد معاشی وسائل کھارہے ہیں۔ یہ لڑائی جھگڑے اور تنازعات ایسے ہیں جو بآسانی حل ہوسکتے ہیں، لیکن عالمی طاقتیں اس کا حل چاہتیں ہی نہیں۔ دراصل امریکہ کو عالمی قیادت کا ہوکا ہے لیکن اس کے لیے جس اخلاقی بلندی، وسعت ظرفی اور انسانی رویوں سے آراستگی کی ضرورت ہے، نہ صرف یہ کہ امریکہ اس کے عشر عشیر کو نہیں پہنچتا بلکہ اس حوالے سے اس قدر پستی کا شکار ہے اور ایسے بد ترین ریکارڈ کا حامل ہے اسے عالمی قیادت کے منصب پر فائز کرنا تو کجا، عالمی برادری کی پچھلی صفوں میں شامل کرنا بھی محل نظر ہے۔ 1991ء میں روس کی شکست کے بعد امریکہ کے مرتب کردہ ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ میں کہا گیا اب پوری دنیا پر بلاشرکت غیرےہماری حکمرانی ہوگی۔ جہاں کہیں بھی امریکی مفادات کو خطرات لاحق ہوں گے وہاں وہ کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر کے ذریعے اصل میں امریکہ ’’عالمی تھانیداری‘‘ کو برقرار رکھنا چاہتا ہے لیکن یاد رکھے جو دعویٰ آج کا سپر پاور کرتا ہے کبھی قیصر وکسریٰ بھی یہی کہتے تھے مگرآج ان کا نام ونشان نہیں۔ 1945ء سے پہلے جرمنی بھی یہی دعویٰ کرتا تھا پوری دنیا پر حکمرانی کا حق صرف جرمنوں کو ہے۔ 1950ء کے بعد روس کا طوطی بولتا تھا۔ 1990ء کے بعد یہی کچھ امریکہ سوچ رہا ہے اور اس کے لیے وہ سب سے بڑا خطرہ مسلمانوں کو قرار دیتا ہے۔ زمینی حقائق بتاتے ہیں دنیا کو اصل خطرہ امریکی سامراج سے ہے۔ اس تناظراور پس منظر میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاک بھارت جنگ کس کی ضرورت ہے؟؟ وہ کون کون سی عالمی طاقتیں اور ملٹی نیشنل سازشی کمپنیاں ہیں جو دونوں ہی ملکوں کو دھڑا دھڑ اسلحہ بھی دے رہی ہیں اور ہلاشیری بھی؟؟



.
تازہ ترین