• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یورپ کے سفر کا آغاز جب بھی کیا۔ اس میں دلچسپی کے امور ہمیشہ تہہ درتہہ کھلتے چلے گئے۔ لاہور سے روانہ ہوا اور پیرس ایئر پورٹ پر اترا تاکہ تھوڑی دیر بعد لیون کی جانب روانہ ہوسکوں۔ تو ائیرپورٹ پر ایک عرب کی جانی پہچانی صورت نظر آئی۔ وہ بھی کچھ دیر مجھے دیکھتے رہے اور پہچان کر میرے پاس آگئے۔ سفارتی حیثیت میں وہ کچھ سالوں قبل تک پاکستان میں بہت متحرک سفارتکار تھے اور اس نسبت سے مجھ سے بھی شناسائی رکھتے تھے۔ رسمی علیک سلیک کے بعد گفتگو کا رخ معاملات کی جانب مڑا تو بات ہونے لگی کہ بڑے مسائل پر تو سمجھ میں آتا ہے کہ حکومت کو بہت کچھ دیکھ کر فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ مگر علامتی چیزوں کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ دنیا میں سیاحت میں اضافے کی خاطر اقدامات کئے جاتے ہیں مگر آپ لوگوں نے تلور کے شکار کے حوالے سے معاملات کو ابھی حل نہیں کیا۔میں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بجا طور پر اس کا نوٹس لیا ہے کہ کہیں اس پرندے کی نسل نا پید نہ ہو جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پرندے کی افزائش نسل کا بندوبست کیا جائے اور پھر جیسے مخصوص موسموں میں دیگر پرندوں کے شکار کی اجازت دی جاتی ہے ویسے ہی اس کی بھی دی جانی چاہئے۔ مگر دوستی میں تنائو کی بنیاد صرف تلور کے شکار سے دوری نہیں ہونی چاہئے۔ ابھی یہ گفتگو جاری ہی تھی کہ میرا لیون روانگی کا وقت آ گیا۔ اس بار فرانس میں آمد کے باوجود جرمنی جانے کا امکان نہیں ہے۔ جرمن دوست بالخصوص چند جرمن اراکین پارلیمنٹ نے پہلے تو وہاں آنے کی دعوت دی بلکہ یاد بھی دلایا کہ جب انہوں نے راقم کو جرمن پارلیمنٹ کی جنوبی ایشیاء کمیٹی سے خطاب کی دعوت دی تھی تو کتنی پرمغز گفتگو ہوئی تھی۔ مگر میرے شیڈول کو سمجھتے ہوئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ خود تو ضرور ہی ملاقات کرنے فرانس آئیں اور وہ ایک ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے آ گئے۔ ان سے گفتگو کے دوران محسوس ہوا کہ ابھی تک پاکستان اور افغانستان میں بد امنی ہی اس خطے کے حوالے سے سب سے بڑا موضوع ہے۔ افغان طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے وہاں دلچسپی بہت زیادہ پائی جاتی تھی۔ کیونکہ یہ تصور عام ہے کہ جب تک افغانستان میں موجودہ شورش برپا رہے گی اس وقت تک نا صرف اس خطے بلکہ عالم امن کے لئے بھی تشویش بدستور برقرار رہے گی۔
افغانستان میں حالیہ خون خرابے پر میرا تصور یہ ہے کہ لمحوں میں پاکستان کے حوالے سے ہرزہ سرائی پر اتر آنے سے افغانستان میں نہ تو امن قائم ہوگا اور نہ ہی خطے کے عوام احساس محرومیت سے باہر آسکیں گے۔ دونوں ممالک کو چاہئے کہ تعلقات کی بہتری کے لئے مزید اقدامات اٹھائیں ورنہ صرف الزام تراشی سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا۔ پاکستان میں تحریک انصاف اور اس کی بعض حلقوں کی طرف سے حمایت کو بھی یورپ بہت تجسس سے دیکھ رہا ہے۔ مگر میرے لئے اچھنبے کی بات تھی کہ جب انہوں نے مجھ سے سندھی دانشور عطاء محمد بھنبھرو کے صاحبزادے جی اے سندھ متحدہ محاذ کے جوائنٹ سیکرٹری راجا ڈاہر کی پر اسرار موت کے حوالے سے سوال کیا۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمینٹ کی ایسی باقاعدہ کوئی پالیسی نہیں ہے اور ویسے بھی سندھ کی اس نوعیت کی قوم پرست جماعتوں کی سندھی عوام میں فی الحال کوئی بھی اہمیت نہیں ہے۔ مگر ممکن ہے کہ کچھ نادیدہ طاقتیں اس نوعیت کے واقعات کر کے سندھی عوام کو مشتعل کر دینا چاہتی ہیں تا کہ وہ اندرون سندھ اس نوعیت کی جماعتوں کو پنپنے کا موقع دے سکیں،پیپلز پارٹی کے لئے مسائل کو جنم دے سکیں اور اس نوعیت کی جماعت کو نادیدہ انداز میں قابو میں رکھ کر اندرون سندھ سیاسی توازن قائم کردیا جائے چاہے پورے ملک کا توازن بگڑ جائے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں کوئی بھی جماعت انتخابات میں سادہ اکثریت حاصل نہیں کرسکی تھی۔ اگر اندرون سندھ پیپلز پارٹی کو مشکل میں ڈال دیا جائے جبکہ کراچی میں ایم کیو ایم جو ویسے بھی اپنے قائد کی زبان کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ انسان زبان تلے چھپا بیٹھا ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عزیز آباد کے انتخابات کے بعد ایم کیو ایم زیادہ دانشمندانہ روش اپناتی کیونکہ انہوں نے اس جماعت کو شکست دی تھی کہ جس کو انگلی پکڑ کر لایا گیا تھا۔ مگر ایم کیو ایم سمجھنے کی بجائے خود ہی راستہ دے رہی ہے۔ اگر حالات یہی رہے تو سندھ میں ایک پارٹی کی حکومت ماضی بن جائے گی اور کمزور سیاسی نظام ریاست کی کمزوری کا باعث ہوتا ہے۔
تازہ ترین