• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یورپی یونین کے شمار یاتی ونگ یورواسٹیٹ نے اعدادوشمار جاری کئے ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ کو یورپ کا سب سے زیادہ ’’ اوپن ملک ‘‘ بنانے کیلئے ہر پانچ منٹ میں دوعدد کی حیران کن شرح سے امیگرنٹس کو پاسپورٹس جاری کردیئے جاتے ہیں۔ ریسرچ کے مطابق2013میں ناقابل یقین حد تک 2لاکھ4ہزار غیرملکیوں کو برطانوی شہریت عطا کی گئی یہ شرح براعظم بھر میں سب سے زیادہ مانی جاتی ہے ۔
ادھر یورپی یونین کے ممالک کی اکثریت نے اپنی سرحدوں پر نگرانی کے عمل کو سخت بنانے کے حق میں ووٹ دیا ہے ، شمالی افریقہ میں بدامنی کے شکار ملکوں سے ہزار ہا مہاجرین کی اٹلی آمد کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے اس کے باوجود برطانیہ کے بعد دوسری بڑی تعداد میں شہریت دینے والے ملکوں میںفرانس کا نمبر آتا ہے جہاں ایک لاکھ 36ہزار غیر ملکی افراد کوشہریت دی گئی ہے ، یہ تعداد تیسرے نمبر پر آنے والے ملک جرمنی سے لگ بھگ دگنی ہے جہاں94ہزار غیر ملکی، جرمنی کی شہریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اس حساب سے دیکھا جائے تو ماہرین کی یہ پیشگوئی صحیح لگتی ہے کہ 2050میں برطانیہ سب سے زیادہ گنجان آباد ملک بن جائے گا۔ اعدادوشمار جاری ہونے کے بعد بڑی تعداد میں امیگرنٹس کو شہریت دیئے جانے پر تنقید کی جا رہی ہے اور وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون سے کیاگیا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے کہ انہیں بڑی تعداد میں امیگرنٹس روکنے کیلئے انقلابی پالیسیاں متعارف کرانے اور سسٹم پر گرفت مضبوط کرنی ہوگی ۔ حال ہی میں جو سخت امیگریشن پالیسی نافذ کی گئی ہے اس سے ہزاروں پاکستانی متاثر ہوں گے ان متاثرین میں خاندانوں میں میل ملاپ، شمولیت اور فیملی وزٹ ویزا کی درخواست دینے والے قابل ذکر ہیں ۔ برطانیہ کے وزیر امیگریشن نے اپنے حالیہ دیئے گئے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ نئی تجاویز منصفانہ اور اخراجات میں کمی کیلئے ضروری ہیں جن کا مقصد جعلی اور فرضی وکاغذی شادیوں کی حوصلہ شکنی ہے ، جعلی پاسپورٹوں سے برطانیہ میں داخل ہونے والوں کی سختی سے پڑتال کی جائے گی۔ ادھر پاکستان میں نقلی برطانوی پاسپورٹ کی تیاری ایک عام سی بات ہوگئی ہے امریکی اور برطانوی حکومتوں نے ایسے پاسپورٹوں کے ذریعہ دہشت گردوں کے بیرونی دوروں کے انسداد کابھی مطالبہ کیا ہے انٹرپول کے ایک عہدیدار نے حیرت ناک انکشاف کیا ہے کہ40ہزار سے زائد افراد جعلی پاسپورٹ کا استعمال کرکے مختلف ممالک کا دورہ کرتے ہیں یا غائب ہوجاتے ہیں یہ ایک خطرناک رحجان ہے۔
77صفحات پر مشتمل ’’ فیملی مائیگریشن اے کنسلٹیشن ‘‘ نامی کتابچے میں یہ بات درج ہے کہ نئے قوانین کے تحت برطانیہ میں شوہر ، بیوی یا پارٹنر کی جانب سے مستقل قیام کیلئے درخواست کی عبوری مدت دوسال سے بڑھا کر پانچ سال کردی گئی ہے جبکہ یورپی یونین سے باہر کے ملکوں سے برطانیہ میں رہائش پذیر اپنے عزیزوں کے ساتھ شامل ہونے والے ویلفیئر مراعات کے مستحق نہیں ہوں گے اس سے پاکستان، بنگلہ دیش، افریقی اور کیریبین ممالک سے تعلق رکھنے والے معمولی آمدنی والے افراد شدید متاثر ہوں گے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ برطانیہ میں بیروزگار افراد کی تعداد تیس لاکھ کے لگ بھگ ہوگئی ہے ۔
دارالعلوم کی امور داخلہ سیلیکٹ کمیٹی کے چیئرمین نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ان کے ترکی اور یونان کے دورے سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ دونوں ملکوں کی حکومتوں کی کوشش کے باوجود اس خطے سے غیر قانونی تارکین وطن کے یورپی یونین میں داخلے کو ختم کرنے کے لئے زیادہ مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے خاص طور پر یورپی یونین، ترکی ، یورپی اور بین الاقوامی قانون کے نفاذ کرنے والی ایجنسیوں کے درمیان مجرموں کے خلاف مسلسل انٹیلی جنس کے تبادلے کی ضرورت ہے ورنہ ترکی کو اگر یورپی یونین کا ممبر بننے کی اجازت دے دی گئی تو برطانیہ میں غیرقانونی تارکین وطن کا سیلاب آجائے گا اس لئے ترکی کو ممبر بننے کی اجازت دینے سے پہلے اس کی سرحدوں پر برسلز کے قواعد کے مطابق سخت کنٹرول نافذ کیا جائے ممبران پارلیمنٹ نے خبردار کیا ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ ترکی برطانیہ میں داخلے کیلئے ایک گیٹ وے کے طور پر استعمال ہوگا۔ ایک معلوماتی اور اہم بات یہ کہ2030تک یورپی یونین میں تارکین وطن کی آمد کا تخمینہ چھ لاکھ کے لگ بھگ ہوسکتا ہے۔
امریکی حکومت نے یورپی یونین سے درخواست کی ہے کہ جعلی یورپی پاسپورٹ بالخصوص برطانوی پاسپورٹ کے ذریعے دہشت گردوں کے سمندر پار دوروں کوروکا جائے ، امریکی حکومت نے پاکستان اور دیگر تین ممالک اپنی جی اے او ٹیموں کوبھی روانہ کیا ہے تاکہ وہ جعلی پاسپورٹوں کے نیٹ ورکس پر پابندیوں کو جلد از جلد لاگو کرواسکیں ۔ اس نے جعلی پاسپورٹوں کے چار شعبوں کی نشاندہی کی ہے جس میں دہشت گروں کے بارے میں معلومات کے تبادلے، سفری جعلی دستاویزات ، پاسپورٹ کا غیر قانونی اجرأ اور پاسپورٹ اجرأ میں سیکورٹی کی خامیوں کا پتہ چلایا ہے ۔ برسلز میں ہونے والے یورپی یونین کے وزرائے داخلہ کے حالیہ اجلاس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شینگن زون میں آزادانہ سفر کی سہولت کو محدود نہیں کیا جائے گا اس سے قبل شینگن زون میں شامل ممالک کو عارضی طور پر بارڈر کنٹرول ’’بحال ‘‘ کرنے کی بات کی گئی تھی جس پر یورپی یونین ملکوں کے بیشتر نمائندوں نے اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ یونین کی حدود کے اندر لوگوں کی آزادانہ نقل وحرکت یونین کی ایک کلیدی کامیابی ہے اور ہم اس بنیادی کامیابی کی حفاظت کریں گے اور اسے برقرار رکھیں گے تاہم یورپی کمیشن بھی کسی حد تک شینگن معاہدے میں اصلاحات کا حامی ہے اس کے خیال میں ایسا کرنا اس وقت ضروری ہوسکتا ہے جب بیرونی سرحدوں کے کسی حصے کو غیرمتوقع دباؤ کا سامنا ہو تارکین وطن کے حالیہ ( یاد رہے کہ شمالی افریقہ میں بدامنی کے شکار ملکوں سے ہزاروں تعداد میں مہاجرین کی اٹلی آمد کے بعد یورپی یونین ایسا سوچنے پر مجبور ہوگئی ہے) مسئلے پر قابو پانے کیلئے ایسے ناگزیر حالات میں اندرونی سرحدوں کی پھر سے بحالی ہی ہوسکتا ہے ۔ تمام خدشات اور اندیشہ ہائے دور دراز اپنی جگہ پر صحیح ہوسکتے ہیں لیکن شینگن معاہدے میں شامل 29ملکوں کی رضا مندی کے بغیر کوئی معاہدہ ممکن نہیں ہے اور تارکین وطن کے سیلاب یا سونامی کوروکا نہیں جاسکتا اور یہ جاننے کیلئے کسی یونیورسٹی کی ڈگری کی ضرورت ہرگز نہیں کہ کوئی بھی منفی فیصلہ لگ بھگ 4سو ملین یورپی باشندوں اور ان کے کلچر کو متاثر کرے گا میں نے کہیں پڑھا ہے کہ اقلیت وہ ہوتی ہے جس کے مذہب وکلچر کی بنیاد کسی دوسرے ملک میں ہوتی ہے۔
تازہ ترین