• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنوبی ایشیاء میں امن، ترقی اور خوشحالی کا متمنی و خواہش مند کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہوگا جو پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی آرزو نہ رکھتاہو لیکن یہ آرزو یکطرفہ طور پر پوری نہیں ہوسکتی، بدقسمتی سے جب سے بھارت میں موجودہ مودی سرکار برسراقتدار آئی ہے اپنے شدت پسندانہ رویہ کی وجہ سے بھارت اور پاکستان ایک قدم بھی بہتری کی جانب آگے نہیں بڑھ سکے بلکہ یوں محسوس ہورہا ہے کہ دو طرفہ تعلقات ترقی معکوس کی جانب گامزن ہیں، حالانکہ ماضی میںیہ بی جے پی کی حکومت ہی تھی جب بھارتی وزیر اعظم خود چل کر پاکستان آئے تھے ا ور معاہدہ لاہور ہوا تھا۔ بی جے پی اگر قوم پرست جماعت ہے تو اٹل بہاری واجپائی سے بڑھ کر کون ایساقوم پرست ہوگا لیکن انہوں نے ہی مینار پاکستان کے سائے میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ بٹوارے کا گھائو اگرچہ میرے سینے پر ہے اور مجھے یہ کہا گیا ہے کہ آپ مینار پاکستان پر نہ جائیں کہ اس طرح قیام پاکستان کی صداقت پر آپ کی مہر لگ جائے گی لیکن میں نے جواب دیا کہ پاکستان پہلے سے میری مہر کے بغیر چل رہا ہے اس لئے میری مہر سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہاں انہوں نے یہ تار یخی الفاظ بھی کہے تھے کہ دوست بدلے جاسکتے ہیں مگر ہمسائے نہیں بدلے جاسکتے لہٰذا ہمیں باہم مل کر تعلقات کو بہتر بنانا ہوگا کیونکہ اس دھرتی کی نجات پیار میں ہے مگرافسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وزیر اعظم مودی اور ان کی ٹیم نے اگر وقت اور حالات سے کچھ نہیں سیکھنا تھا تو کم از کم اپنی پارٹی کے قائدین اور ان کے خیالات و افکار سے ہی کچھ سیکھ لیتے۔ آج ان کی وزیر خارجہ اور ان کے وزیر داخلہ جو زبان بول رہے ہیں یہ کوئی نیتا بول رہا ہو تو شاید قابل فہم ہوسکتی لیکن کسی حکومتی شخصیت کو اس نوع کا طرز تخاطب زیب نہیں دیتا۔ یہ کیا منطق ہے کہ پاکستان کے ساتھ سوائے دہشت گردی کے کسی اور مسئلے پر بات نہیں ہوسکتی، دوسرے یہ کہ پاکستانی مشیر قومی سلامتی و خارجہ امور کو یہ حق نہیں ہوگا کہ کشمیری رہنمائوں سے بات چیت یاملاقات کریں، حالانکہ خود بی جے پی کی حکومت کے دور میں یہ دونوں باتیں نہ صرف چلتی رہی ہیں بلکہ بھارتی حکومتیںانہیں قبول کرتی چلی آ رہی ہیں۔ آج سشما سوراج جی یہ کہہ رہی ہیں کہ پاکستان تیسرے فریق یعنی کشمیریوں کو شامل کرے گا تو بات چیت نہیں ہوگی ،حالانکہ یہ چیز خود بھارت کے اپنے خلاف جاتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کشمیری تیسرافریق کیسے ہوگئے؟ پاکستان اگر اس نوع کی بات کرے تو اس کی سمجھ تو آ سکتی ہے کیونکہ پاکستان نے جیسے تیسے بھی کشمیر کی انتظامی حیثیت کو ایک حوالے سے الگ رکھا ہو اہے جبکہ مقبوضہ کشمیر کو تو جس طرح بھارت اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتے نہیں تھکتا، اس طرح بھارتی نقطہ نظر سے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت بھی بڑی حد تک ایک بھارتی ریاست کی ہے ، اگر کوئی پاکستانی لیڈر کسی کشمیری کو ملتا ہے تو اس میں کسی تیسرے فریق کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اگر سشما سوراج اور ان کے وزیراعظم حوصلہ مندی سے کام لیتے تو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ پاکستانی مشیر قومی سلامتی سرتاج عزیز اگر کشمیریو ں کو دہلی میں مل لیتے تو آخر اس سے کون سا طوفان آجانا تھا؟ کون سا بریک تھرو ہو جانا تھا بلکہ بھارتی قیادت نے جو طرز ِ عمل اختیار کیا ہے اس سے ان لیڈروں کی اہمیت زیادہ بڑھتی ہے۔ یہ بات محض ہم نہیں کہہ رہے بھارت کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس بھی کھلے بندوں کہہ رہی ہے۔ جناب منیش تواڑی نے یہ کہا ہے کہ بھارتی حکومت کی ناکامی سے حریت کانفرنس کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ سابق بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے مودی سرکار پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حکومت پکڑے ہوئے خرگوش کو چھوڑ دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ خارجہ پالیسی میں ناکام ہو کر اس حکومت نے بھارت کو ایک ناکام ریاست بنا کر رکھ دیا ہے۔ اتنا شور مچا کر کہا گیا کہ پاکستان سے صرف دہشت گردی پر بات چیت ہوگی جبکہ پاکستان اس الزام کو قبول ہی نہیں کرتا تو پھراس پر بات کیسے ہوسکتی ہے۔ بھارتی وزیرخارجہ و داخلہ نے پیہم یہ الزام لگایا ہے کہ پاکستان کو اوفا میں طے شدہ ایجنڈا گھمانا نہیں چاہئے تھاہم کہتے ہیں کہ اوفا میں یہ پاکستانی قیادت کی اخلاقی برتری اور اعلیٰ ظرفی تھی کہ انہوں نےسربراہی سطح پر کوئی ایسا مسئلہ کھڑا نہیں کیا تھا جس سے بات چیت میں کوئی تعطل پیدا ہونے کا احتمال ہوتا لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا کہ پاکستان اپنے اصولی مؤقف سے دستبردار ہو جائے گا۔ آخر پاکستان کیلئے یہ کیسے ممکن تھا کہ سیکرٹریز کی سطح کے مذاکرات میں بھارت کی یکطرفہ شرائط پر کاربند ہو جاتا ۔ مذاکرات کا مطلب ہی یہ ہوتا ہےکہ فریقین اپنے اپنے ایشوز پر کھل کر اظہار خیال کر سکیں۔ اوفا سمٹ کے بعد نہ صرف پاکستان بھارت میں بسنے والے کروڑوں عوام کو بلکہ عالمی سطح پر بھی یہ امید بندھی تھی کہ ہر دو ممالک کی قیادت امن کے راستے پر آ جائے گی لیکن قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات منسوخ ہونے سے امید بڑی حد تک مایوسی میں بدل چکی ہے جس پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون نے بھی عالمی سطح پر اظہار افسوس کیا ہے اور تو اور ایرانی صدر حسن روحانی کا یہ بیان شرم دلانے کیلئے کافی ہے کہ خطے میں قیام امن کیلئے ہم نے عالمی جوہری طاقتوں کے ساتھ مذاکرات کئے اور کئی کڑوے فیصلے کئے۔ پاکستان اور بھارت کو بھی اپنے مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کرنے چاہئیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اوفا میں اعلیٰ سطحی اعلان حوصلہ افزا تھا لیکن قومی سلامتی کے مشیران میں بات چیت کی منسوخی جہاں قابل افسوس ہے وہیں مایوس کن بھی ہے۔ کشمیر کا مسئلہ پاکستان اور بھارت نے بات چیت کے ذریعے ہی حل کرنا ہے اسی طرح دہشت گردی کا مسئلہ بھی افغانستان، پاکستان اور بھارت سمیت متعدد ملکوں کا ہے ،تمام ممالک کواس سے خطرہ ہے ہم سب کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں آئندہ ماہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر دونوں ممالک کے پاس بات چیت کا اہم موقع ہو گا تب ہی دونوں اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں یا نہیں اس سلسلے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ،تاہم امریکہ اس سلسلے میں بحالی مذاکرات کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ ہمارا خیال ہے کہ امریکہ، اقوام متحدہ یا دیگر عالمی طاقتیں اس سلسلے میں ہر دو ممالک پر دبائو ڈالیں یا نہ ڈالیں خود خطے میں بسنے والے کروڑوں عوام کی آواز کو سنا جانا چاہئے ،بھارتی قیادت اپنے شدت پسند طبقات کو خوش کرنے کی بجائے وسیع تر عوامی و انسانی مفاد میں کھلے ذہن کے ساتھ تمام تر متنازع معاملات کو حل کرنے کی خاطر بحالی مذاکرات کو مقدم سمجھے اور یہ مان لے کہ ’’اس دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے‘‘۔
تازہ ترین