• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال میں ایک غیر معمولی واقعہ ہے ۔ ڈاکٹر عاصم حسین پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی ہیں ۔ ان کی گرفتاری پر زیادہ تر لوگوں کا فوری تبصرہ یہ تھا کہ ’’ احتساب ‘‘کرنے والی قوتیں پیپلز پارٹی کی قیادت کے قریب پہنچ گئی ہیں۔یہ فوری تبصرہ کسی حد تک درست ثابت ہوسکتا ہے لیکن اس گرفتاری سے پیپلز پارٹی کےلیے اس کی توقع سےبھی زیادہ مسائل پیدا ہو سکتے ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو وہاں لا کر کھڑا کر دیا گیا ہے ، جہاں پر اس کےلیے اپنا دفاع یا احتجاج کرنا کوئی آسان نہیں رہا ۔ ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری سے چند روز پہلے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کراچی کے ایک روزہ دورےپر آئے تھے اور انہوں نے گورنر ہاؤس میں امن و امان کے حوالے سے ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد کیا تھا ۔ اس اجلاس میں وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے وزیر اعظم سے باقاعدہ احتجاج کیا اور کہا کہ ایف آئی اے ، نیب اور دیگر وفاقی ادارے سندھ کے معاملات میں غیر قانونی مداخلت کر رہے ہیں ، جس کی وجہ سے سندھ کی 70 فیصد بیورو کریسی نے کام چھوڑ دیا ہے ۔ وزیر اعلیٰ نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وفاقی ادارے کارروائی کرنے سے پہلے صوبائی حکومت کو آگاہ کریں اور کارروائی کےلیے قانونی تقاضے پورے کریں ۔ اس احتجاج کا یہ نتیجہ نکلا کہ وزیر اعلیٰ سندھ کی کابینہ کے ایک رکن ڈاکٹر عاصم حسین کو سادہ لباس میں ایک ادارے کے اہلکار اپنے ساتھ لے گئے اور وزیر اعلیٰ سندھ کو یہ علم بھی نہیں تھا کہ کس ادارے نے ڈاکٹر عاصم کو گرفتار کیا ہے ۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر عاصم کا عہدہ صوبائی وزیر کے برابر ہے ۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہو سکتا ہے کہ معاملات وزیر اعظم کے ہاتھ میں بھی نہیں ہیں اور جن لوگوں کے ہاتھ میں یہ معاملات ہیں ، وہ وزیر اعلیٰ سندھ کو ٹارگیٹڈ آپریشن کا کپتان ہونے کے باوجود بھی آگاہ نہیں کرتے اور نہ ہی وہ اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کے لوگوں کو کسی بھی غیر متوقع صورت حال کےلیے تیار رہنا چاہیے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری ان کے لیے ایک طرح کا پیغام بھی ہو سکتا ہے ۔یہ بات بھی اہم ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین نہ صرف آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی ہیں بلکہ آصف علی زرداری کے کاروباری اور پیپلزپارٹی کے سیاسی امور میں ان کا بہت زیادہ عمل دخل رہا ہے ۔ وہ پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے درمیان پل کا بھی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے بعض سینئر رہنما ان کے بارے میں یہ کہتے تھے کہ ان کا پیپلزپارٹی سے زیادہ ایم کیو ایم سے تعلق ہے ۔ آصف علی زرداری نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات طے کرنےکےلیے بھی بعض مراحل پر ڈاکٹر عاصم حسین کو رابطہ کار کے طو رپر بھی استعمال کیا ۔ آصف علی زرداری کے نزدیک وہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماؤں سے بھی زیادہ اہم تھے اور ہیں ۔ ان کی گرفتاری سے پیپلزپارٹی کی قیادت کو یہ اشارہ بھی مل گیا ہے کہ جو شخص اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطہ کار کے طور پر کام کر رہا تھا ، اس پر ہاتھ ڈالا گیا ہے ۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کےلیے ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری صرف ایک پارٹی لیڈر کی گرفتاری نہیں ہے بلکہ اس سے بہت زیادہ کچھ اور ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پیپلز پارٹی کے اپنے جو سینئر رہنما مذاکرات کار کے طور پر کام کرتے تھے ، وہ اب دو اسباب کی بنا پر یہ کام نہیں کر سکیں گے ۔ ایک تو پیپلز پارٹی نے اہم معاملات میں انہیں اہمیت نہیں دی اور دوسرا وہ خود اس وقت عتاب کا شکار ہیں ۔ مخدوم امین فہیم سخت بیمار ہیں اور ان کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہو چکے ہیں ۔ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف نے مقدمات اور وارنٹ گرفتاری کا سامنا کر رہے ہیں ۔ ڈاکٹر عاصم حسین بھی اب پہلے والی پوزیشن میں نہیں رہے جبکہ رحمان ملک اور سلیمان فاروقی جیسے لوگوں پر بھی اس وقت پیپلزپارٹی کی قیادت پہلے کی طرح انحصار نہیں کر سکتی ہے ۔سب سے اہم بات یہ ہو گی کہ جوائنٹ انٹیروگیشن ٹیم (جے آئی ٹی ) کو تفتیش کے دوران ڈاکٹر عاصم حسین کیا باتیں بتاتے ہیں ۔ پیپلزپارٹی کے حلقوں میں یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین بہت گہرے روابط رکھنے والے شخص ہیں ۔ وہ اتنے بے خبر نہیں ہو سکتے کہ پاکستان واپس آنےپر انہیں اپنی گرفتاری کے بارے میں پہلے سے علم نہ ہو ۔ پھر وہ پاکستان کیوں آئے ۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کےلیے ڈاکٹر عاصم حسین کےجے آئی ٹی کو دیے گئے بیانات سے جتنے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں ، پیپلز پارٹی اتنا ڈاکٹر عاصم حسین کا سیاسی طورپر دفاع نہیں کر سکتی ہے ۔ پیپلزپارٹی کے بعض حلقے پارٹی قیادت کے حکم کے باوجود ڈاکٹر عاصم حسین کے سیاسی دفاع کےلیے احتجاج کی غرض سے باہر نہیں نکلیں گے ۔ پیپلزپارٹی کی طرف سے ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر جس طرح کے فوری ردعمل کی توقع کی جا رہی تھی ، وہ ردعمل بھی سامنے نہیں آیا ۔ یہ بات خاص طورپر محسوس کی جا رہی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے کوئی فوری ردعمل سامنے نہیں آیا ۔یہ صورت حال پیپلزپارٹی کی قیادت اور ڈاکٹر عاصم حسین کے مابین ’’ اعتماد ‘‘ کے رشتے کو متاثر کر سکتی ہے ۔ پیش بندی کے طورپر پیپلزپارٹی کی قیادت اگر اپنے کارکنوں کو احتجاج کےلیے باہر نکالنا چاہتی ہے تو اسے مخدوم امین فہیم ، مخدوم یوسف رضا گیلانی اور پیپلزپارٹی کے دیگر سینئر رہنماؤں کے خلاف مقدمات کو ایشو بنایا جا سکتا ہے لیکن اس معاملے میں بھی پیپلزپارٹی نے تاخیر کر دی ہے اور ان رہنماؤں کا دفاع کرنےکےلیے بروقت سیاسی اقدام نہیں کیا ہے ۔ پیپلزپارٹی کی قیادت یہ محسوس کر رہی ہے کہ اس کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے ۔ اس لیے پیپلزپارٹی کے رہنما یہ بیانات دے رہے ہیں کہ اگر آصف علی زرداری پر ہاتھ ڈالا گیا تو یہ اعلان جنگ ہو گا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے ۔ تب تک حکومت سندھ کو آگاہ کیے بغیر کارروائیاں بھی ہوتی رہیں گی اور پیپلزپارٹی کی قیادت کے اعصاب کا بھی امتحان لیا جاتا رہے گا۔اب یہ پیپلزپارٹی کی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ کیا راستہ اختیار کرتی ہے ۔اسی طرح سندھ حکومت کو چلاتی ہے یا نہیں یا کوئی انتہائی سیاسی اقدام کرتی ہے ؟ اس مرحلے پر یوں لگ رہا ہے کہ بدلتے ہوئے حالات میں پیپلز پارٹی کےلیے بہت کم آپشنز رہ گئے ہیں ۔ پیپلزپارٹی کے کارکن پہلی دفعہ بے بسی محسوس کر رہے ہیں اور وہ کھل کر اس حقیقت کا اظہار کر رہے ہیں کہ سیاست پیسے یا لابنگ سے نہیں ہوتی ہے ۔ کرپشن کے الزامات یا مبینہ کرپشن پر ہونے والی کارروائی کے خلاف احتجاجی سیاست کا یہ پہلا تجربہ ہو گا ۔ پیپلز پارٹی فوری طور پر دیگر سیاسی ایشوز کو نہ تو اپنے احتجاج کی بنیاد بنا سکتی ہے اور نہ ہی سیاسی قوتوں کو جمع کر سکتی ہے کیونکہ پیپلزپارٹی نے بہت عرصے سے ایشوزپر سیاست نہیں کی ہے ۔ ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری سے پیپلزپارٹی کی قیادت کےلیے بہت مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں ۔
تازہ ترین