• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چار جون 2015 کو وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے میٹرو بس کے ا فتتاح کے موقع پر اپنی تقریر میں کہا ۔ اس میٹرو کی تعمیر سے اب وقت بھی بچے گا اور پیسہ بھی۔ گھنٹوں کے فاصلے کم اورانتظار کی گھڑیاں ختم ہو گئی ہیں۔
منڈی فیض آباد کا دبلا پتلا سماجی کارکن وحید انور بتا رہا تھا کہ دنیا کی سب سے لاجواب راولپنڈی اسلام آباد موٹر وے کا آ خری انٹرچینج فیض پور ہے جہاں سے لاہور کا فاصلہ صرف انیس کلومیٹر ہے۔ انٹر چینج سے منڈی فیض آبادکا فاصلہ پینتیس کلومیٹر ہے۔ ضلع ننکانہ کے اس پینتیس کلومیٹر کے راستے میں منیانوالہ اور مانگٹاوالہ جیسے قصبے پڑتے ہیں۔یہاں کے ایم این اے بلال ورک قومی اسمبلی حلقہ نمبر ایک سو چھتیس اور پی پی ایک سو تہتر سے ایم پی اے کاشف رنگ الہیٰ ہیں۔دونوں کا تعلق حکومتی جماعت سے ہے۔
چار جون2015ءکو وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے میٹرو کے افتتاح کے موقع پر اپنی تقریر میں کہا میٹرو کی تعمیر نے غریب امیر کے فاصلے مٹا دئیے، معاشرتی تفاوت میٹرو نے ختم کر دیا۔منڈی فیض آباد کا دبلا پتلا سماجی کارکن وحید انور بتا رہا تھا کہ سڑک نہ ہونے کی وجہ سے اس علاقے میں غربت بڑھ گئی ہے۔ انیس سو اٹھاسی میں آج سے قریبا ستائیس سال پہلے سیلاب میں یہ پینتیس کلومیٹر سڑک بہہ گئی۔ سارا علاقہ زیرآب آگیا۔لوگوں کا گھر بار ، مویشی ، کاروبار سب کچھ سیلاب بہا کر لے گیا۔سڑک رابطے کا واحد ذریعہ تھی وہ بھی نہ رہی۔ آمد و رفت دشوار ہو گئی۔
چار جون 2015کو وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے میٹرو بس کےافتتاح کے موقع پر اپنی تقریر میں کہا یہ ایک تاریخی دن ہے آپ سب کو مبارک ہو۔ منڈی فیض آباد کا دبلا پتلا سماجی کارکن وحید انور بتا رہا تھا کہ ستائیس سالہ تاریخ میںیہ سڑک مکمل نہیں بنی۔ کبھی پانچ کلو میٹر آغاز سے بن جاتی ہے کبھی آٹھ کلومیٹر اختتام سے۔سر جی یہی روڈ ہے جو جڑانوالہ اور فیصل آباد کو جاتی ہے۔ اتنے بڑے بڑے کھڈے پڑگئے تھے کہ روز کسی نہ کسی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ضرور ہوتا تھا۔ کتنے لوگ ان حادثوں میں مرگئے، کتنے بچے اسکول کو جاتے جان سے گزر گئے، کتنے لوگ اپنے ہاتھ پاوں تڑوا بیٹھے، کتنی گاڑیاں برباد ہوگئیں، کتنی لاریوں کے ایکسل اس روڈ پر ٹوٹ گئے۔
چار جون 2015کو وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے میٹرو بس کے ا فتتاح کے موقع پر اپنی تقریر میں کہا ہم نے یہ منصوبہ ریکارڈ مدت میں مکمل کیا ۔ نو ماہ میں تکمیل کا وعدہ تھا مگر چودہ ماہ لگ گئے جس کے ذمہ دار دھرنے والے ہیں۔ منڈی فیض آبادکا دبلا پتلا سماجی کارکن وحید انور بتا رہا تھا کہ اس علاقے میں ہمیشہ سے مسلم لیگ ن کی پکی سیٹ ہے وہی اس علاقے کے مالک، مختار اور ذمہ دار ہیں۔ چھ سال پہلے سڑک کے کنارے روڑی ڈالی گئی افتتاح کی تقریب ہوئی ۔ بینر لگائے گئے، پوسٹر چسپاں کئے گئے۔تالیاں بجائی گئیں ، نعرے لگائے گئے۔ چھ سال گزر گئے حکومتوں کے سب نعرے اور وہ روڑی آج بھی سڑک کنارے پڑی ہوئی ہے۔چار جون 2015 کو وزیر اعلیٰ نے میٹرو بس کے افتتاح کے موقع پر اپنی تقریر میں یہ دعویٰ کیا کہ عوام آنے والے دنوں میں ملکی معیشت اور ترقی کے حوالے سے بہت مثبت تبدیلیاں دیکھیں گے۔ منڈی فیض آبادکا دبلا پتلا سماجی کارکن وحید انور بتا رہا تھا کہ معاشی اور زرعی لحاظ سے یہ بہت اہم علاقہ ہے یہاں کا چاول پوری دنیا میں مشہور ہے۔سر جی اس علاقے کا چاول اپنے معیار اورخوشبو کی وجہ سے پسند کیا جاتا ہے۔اس پینتیس کلومیٹر کے فاصلے میں چاولوںکی سو کے قریب شیلر (رائس مل) ہیں۔ جن میں سے بہت سی سڑک کی خستہ حالی کی و جہ سے بند ہو گئی ہیں۔ٹوٹی سڑک کے کنارے پرانی فیکٹریوں کے ڈھانچے مشینوں کے کسی قبرستان کا منظر پیش کرتے ہیں۔
چار جون 2015 کو وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے میٹرو بس کے افتتاح کے موقع پر اپنی تقریر میں کہا اب مریض ، طالبعلموں ، مزدوروں اور فیکٹری مالکان ایک سے ہو گئے ہیں۔ ہر شخص وقت پر پہنچے گا۔ ٹائم کی پابندی ہو گی۔
منڈی فیض آبادکا دبلا پتلا سماجی کارکن وحید انور بتا رہا تھا کہ پینتیس کلومیٹر کا یہ فاصلہ طے کرنے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔ سڑک کی خستہ حالی کی وجہ سے ٹریفک بلاک رہتی ہے۔ کوئی بھی، کہیں بھی، وقت پر نہیں پہنچ پاتا۔
بیس اپریل 2014ءکو وزیر اعلیٰ نے دوسری لاہور انٹرنیشنل ٹورازم ایکسپو کے موقع پر ایک تقریر میں کہا کہ پاکستان کے بہتر امیج کے لئے سیاحت بہت اہم ہے اور اسکی ترقی ہماری حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ منڈی فیض آباد کا دبلا پتلا سماجی کارکن وحید انور بتا رہا تھا کہ سر جی ٹورازم کے اعتبار سے یہ بڑا اہم علاقہ ہے ننکانہ صاحب سکھوں کے لئے مذہبی اعتبار سے اہم ہونے کی وجہ سے ہر سال ہزاروں سکھ زائرین اس راستے سے گزرتے ہیں۔ آپ کو پتہ ہے جی ایک دفعہ سکھ برادری کے وفد نے حکومت پنجاب سے التماس کی کہ یہ سڑک بنوا دیں کیونکہ زائرین کو دشواری ہوتی ہے۔ اور متبادل راستہ جو شیخو پورہ سے آتا ہے اس کو استعمال کرنے سے قریباتیس کلومیٹر کا فاصلہ بڑھ جاتا ہے ۔ سکھ زائرین کی درخواست بھی آج تک سڑک کنارے کہیں روڑی میں دفن پڑی ہے۔چار جون 2015 کو وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے میٹرو بس کےافتتاح کے موقع پر اپنی تقریر میں یہ شعر پڑھا
شب گزر جائے تو ظلمت کی شکایت بے سود
درد تھم جائے تواظہار اذیت کیسا
اس وقت انکا چہرہ شدت جذبات سے سرخ ، انگلی فضا میں بلند اور آنکھوں میں کسی فاتح کی سی چمک تھی۔ کنونشن سینٹر کا ہال تالیوں اور نعروں سے گونج اٹھا۔ منڈی فیض آبادکا دبلا پتلا سماجی کارکن وحید انور بتا رہا تھا کہ سر جی بڑا ظلم ہو رہا ہے ۔ حکومت کوئی بھی ہو یہ سڑک نہیں بنتی۔ اب دس کلومیٹر کارستہ ٹوٹا ہوا رہ گیا ہے۔اس رستے سے گزرنے کے لئے کئی گھنٹے درکار ہیں۔ستائیس سال ہوگئے یہ سڑک نہیں بنی۔ لاہور سے تھوڑی ہی دور یہ علاقہ ہے صرف پینتیس کلومیٹر کا تو فاصلہ ہے۔علاقے کے رہائشی بڑی مشکل میں ہیں، بچےا سکول نہیں جا سکتے ۔ ایمرجنسی میں اسپتال پہنچنا ایک عذاب ہوتا ہے۔منٹوں کا فاصلہ گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ یہاں کے لوگ بڑی اذیت میں ہیں۔
علاقائی ترقی کے تفاوت اور تعصب کی کہانی سنانے کے بعد سماجی کارکن وحید انور کے ماتھے پر پریشانی کی سلوٹیں ،چہرے پر مایوسی اور آنکھوں میں افسردگی تھی۔
جانے کیوںکہانی ختم ہونے کے بعدنہ فضا جوشیلے نعروں سے گونجی، نہ فلک شگاف تالیاں بجیں ،بس ہر جانب دلوں کو چیر دینے والی ایک خاموشی طاری ہوگئی ۔
تازہ ترین