• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپریم کورٹ رجوع کرنے کا آئینی و قانونی حق اپنی جگہ لیکن سیاسی لحاظ سے یہی فیصلہ مناسب تھا، عوام کی عدالت میں جانے کا فیصلہ۔ مئی کے پہلے ہفتے خواجہ سعد رفیق کی (پہلی)’’وکٹ‘‘ گری، تو ان کی یہی خواہش تھی، بلکہ اصرار بھی کہ وہ سپریم کورٹ میں اپیل کی بجائے ضمنی انتخاب کو ترجیح دیں گے لیکن پارٹی لیڈر شپ کو اختلاف تھا اور اس کے حق میں بھی مضبوط دلائل تھے۔ سعد کے حلقہ 125کے حوالے سے ٹریبونل کا فیصلہ ’’دلچسپ ‘‘ تھا۔ 80صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ سعد رفیق کے حق میں ایک طرح کا بیان ِ صفائی تھا، پٹیشنر حامد خاں کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے اس میں کہا گیا تھا کہ ریکارڈ پر ایسی کوئی شہادت دستیاب نہیں کہ ’’جیتا ہوا اُمیدوار‘‘ (یا کوئی اور اُمیدوار) گم شدہ ریکارڈ یا گنتی کے invalidگوشواروں کا ذمہ دار ہے‘‘۔
عمران خان جن تھیلوں کے کھولنے کو اپنے مطالبے کی دلیل بناتے ہیں، الیکشن کمیشن کے پاس اِن تھیلوں کو محفوظ رکھنے کا کوئی انتظام نہیں ہوتاجن میں استعمال شدہ، غیر استعمال شدہ ، مستردشدہ بیلٹ پیپرز اور فارم 14،15، 16وغیرہ سمیت جملہ ریکارڈ موجود ہوتا ہے۔ یہ تھیلے ان ’’مال خانوں ‘‘ (ریکارڈ رومز) میں ڈال دیئے جاتے ہیں(زیادہ صحیح الفاظ میں پھینک دیئے جاتے ہیں) جہاں ضبط شدہ اسلحہ و منشیات اور چوری کا (ضبط شدہ ) سامان وغیرہ پڑا ہوتا ہے۔ ’’مال خانے‘‘ کے دروازے پر موجودسیکورٹی گارڈ کو ، کچھ دے دِلا کر ، ان تھیلوں میں سے کچھ بھی نکالا یا ان میں کچھ بھی ڈالا جاسکتا ہے۔ اِن پر لگی گوند کی مہریں، گوند سوکھ جانے کے بعد، تھیلوں کو اِدھر اُدھر کرنے میں ، ٹوٹ بھی جاتی ہیں۔ چنانچہ ٹریبونل کی طرف سے جیتے ہوئے اُمیدوار کو ریکارڈ کی گم شدگی سے بری الذمہ قرار دیا جانا عین قرین ِ انصاف تھا۔ ٹریبونل کے فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ ’’ریکارڈ پر ایسی کوئی شہادت بھی نہیں جس سے ثابت ہو کہ جیتے ہوئے اُمیدوار ، ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر، ریٹرننگ افسر اور پولنگ کے دیگر اسٹاف نے کوئی سازش کی یا اُن میں کوئی گٹھ جوڑ تھا۔ اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں کہ پولنگ اسٹاف میں سے کسی کو کسی غیر قانونی نوازش یا ناجائز دباؤ سے متاثر کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ٹریبونل نے حامد خاں کے پیش کردہ 33حلف نامے بھی تسلیم نہیں کئے تھے۔ ’’بے ضابطگیوں ‘‘ یا ’’بے قاعدگیوں‘‘ (مثلاً کاؤنٹر فائل پر نشان انگوٹھا وغیرہ کا نہ ہونا) کو ٹریبونل نے پولنگ سٹاف کی نااہلی یا ضروری تربیت نہ ہونے کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے واضح طور پر لکھا تھا کہ اس میں کسی بدنیتی (ill intent) کا کوئی دخل نہیں تھا۔
یہ بات بھی اپنی جگہ دلچسپ تھی کہ پولنگ اور گنتی کے پورے عمل کے دوران حامد خاں کے کسی ایجنٹ نے کوئی شکایت کی، نہ کوئی ووٹ چیلنج ہوا۔ اس سب کچھ کے باوجود، ٹریبونل نے یہاں(11مئی 2013 کے ) انتخاب کو کالعدم قرار دیتے ہوئے از سرنو انتخاب کا حکم دے دیا تھا۔ سعد رفیق دوبارہ انتخاب کے چیلنج کو قبول کرنے پر مُصر تھے تو اِن کا یہ اعتماد بے سبب نہیں تھا۔ اُنہوں نے اپنے مقابل کو 39ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی اور اِن دو برسوں کے دوران تباہ شدہ ریلوے کی بحالی کے ساتھ اس حلقے میں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کئے گئے ترقیاتی کاموں کے علاوہ مسلم لیگ کی وفاقی و صوبائی حکومت کی کارگزاری اور چائنا پاک اکنامک کوریڈور جیسے منصوبوں نے مسلم لیگ(ن) اور خواجہ سعد رفیق کیلئے خیر سگالی کی نئی فضا پیدا کردی تھی لیکن ماہرین ِ قانون کے خیال میں سپریم کورٹ میں اپیل نہ کرنے کا مطلب ، ’’بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں ‘‘ جیسے تکنیکی معاملے کی بنیاد پر الیکشن کو کالعدم قرار دینے کے فیصلہ کو آئندہ کیلئے بھی ایک مثال ، ایک روایت بنادینے کے مترادف ہوتا۔ چنانچہ سعد رفیق نے سرتسلیم خم کیا اور سپریم کورٹ پہنچ گئے۔
ایاز صادق والے حلقہ 122 کا فیصلہ بھی اسی نوعیت کی ’’بے قاعدگیوں‘‘ اور ’’بے ضابطگیوں‘‘ کی بنیاد پر تھا، جو نہ بھی ہوتیں، تو رزلٹ وہی ہوتا، جس کا ریٹرننگ افسر نے اعلان کیا تھا(اور جو پولنگ اسٹیشنوں پر عمران خاں کے پولنگ ایجنٹوں کی موجودگی میں ہونے والی صاف شفاف پولنگ اور گنتی کے مطابق تھا)یہاں ایاز صادق کی فتح کا مارجن 9ہزار کے قریب تھا جبکہ اس سے پہلے ایازصادق اسی حلقے میں، عمران خاں کو 19ہزار ووٹوں کے مارجن سے ہراچکے تھے۔ 2002کے اُس الیکشن میں ڈکٹیٹر مشرف اور سرکاری مشینری نے سارا زور، نوازشریف کے شہر میں ’’شیر ‘‘ کے اُمیدوار کو ہرانے پر لگادیا تھا۔ جہانگیر ترین کے حلقہ 154 میں صدیق بلوچ نے آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے جیتنے کے بعد، مسلم لیگ(ن) میں شمولیت اختیار کی تھی۔ یہاں مسلم لیگ(ن) کا اُمیدوار 45ہزار ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا۔ اب ٹریبونل سے صدیق بلوچ کی نااہلی کے لیے، بے قاعدگیوں کے علاوہ ’’جعلی ڈگری‘‘ بھی اہم بنیاد بنی ہے۔
سعد رفیق کی طرح ایاز صادق بھی سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتے تھے اور اُسی بنیاد پر انہیں اسٹے آرڈر ملنے کے امکانات بھی روشن تھے، لیکن جناب نوازشریف نے اپنے سینئر رفقا سے مشاورت کے بعد آئینی و قانونی سہولت سے فائدہ اُٹھانے کی بجائے، الیکشن کا چیلنج قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ سیاسی مصلحت کا عین تقاضا تھا۔ دھرنا بغاوت کی ناکامی کے بعد تحریکِ انصاف 6ضمنی انتخابات میں، مسلم لیگ(ن) سے بری طرح شکست کھا چکی تھی، بعض حلقوں میں فتح کا مارجن گزشتہ مارجن سے سات، آٹھ گنا زائد تھالیکن حلقہ 122 اور125 میں ’’بے قاعدگیوں‘‘کی تکنیکی بنیاد پر کپتان کی فتح پر قیامت کا وہ شور اُٹھا جس سے نوازشریف اور مسلم لیگ(ن) کی عوامی مقبولیت کے سامنے سوالیہ نشان لگ گیا۔ عمران خاں کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ(ن) سپریم کورٹ کے پیچھے چھپنے (اسٹے آرڈر) کی بجائے عوام میں آکر مقابلہ کرے، جسے نوازشریف نے قبول کرنے کا اعلان کیا ہے تو کپتان نے نیا پینترا بدلا ہے۔کیا اب خود کپتان، الیکشن کمیشن کے ارکان کے استعفوں کی شرط کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جمعرات کی شام، ایک ٹاک شو میں اس کا کہنا تھا، تحریکِ انصاف نے ابھی قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ نہیں کیا، کیونکہ موجودہ الیکشن کمیشن اور پولیس کی موجودگی میں انتخابات کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہم پاگل ہی ہوں گے کہ ان ہی کے نیچے دوبارہ الیکشن کمیشن میں حصہ لیں۔ تاہم الیکشن میں حصہ لینے (یا نہ لینے) کا فیصلہ ہفتے کو(آج ) لاہور میں پارٹی اجلاس میں کیا جائے گا۔ حیرت ہے، کپتان کی تحریکِ انصاف نے اسی الیکشن کمیشن کے تحت پنجاب میں کینٹ بورڈز کے الیکشن اور خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے علاوہ گزشتہ 6ضمنی انتخابات میں بھی حصہ لیا جن کے متعلق ’’دھاندلی‘‘ تو کُجا’’بے ضابطگی ‘‘یا ’’بے قاعدگی‘‘ کی کوئی شکایت بھی اس کی طرف سے سامنے نہ آئی۔ تحریکِ انصاف کے اپنے صوبے میں ہونے والے ہری پور کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگی اُمیدوار کے مقابلے میں تحریک کے اُمیدوار کو 47ہزار ووٹوں کے مارجن سے شکست ہوئی ہے۔ تو کیا اب 122،125 اور154 کے ضمنی انتخابات میں بھی شکست کے خوف نے کپتان کو آلیا ہے؟
تازہ ترین