• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بحر خدا آج ذکر یار چلے
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
(فیض )
ڈاکٹر عاصم کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں آمد پر سوائے انکے گھر والو ں اور وکلا کے کوئی بھی پارٹی کا فرد، کارکن یا لیڈر عدالت کے احاطے میں موجود نہیں تھا۔مجھے یاد ہے جب وہ وزیر پٹرولیم تھے ۔ہر وقت درجنوں چمچے انہیں گھیرے رکھتے تھے۔ آج وہ چمچے کسی نئی ڈونگے کی تلاش میں ہیں اور ڈاکٹر صاحب90دن کے لئے سرکار کے مہمان ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کی غیر متوقع گرفتاری نے بڑے بڑے مضبوط ستونوںکو ہلا دیا ہے۔کئی جگہ تو زلزلے کے جھٹکے بھی موصول ہو ئے اور ان جھٹکوں کی وجہ سے اکا دکا لیڈروں نے بعض چینلزپر بوکھلائے ہوئے بیانات بھی دے ڈالے۔ بیان دینے کے بعد وہ خود بھی پریشان نظر آ رہے ہیں۔ کیونکہ نیب کے پاس ریکارڈ تو سب کا ہے صرف باری آنے کی دیر ہے، کسی کی باری پہلے آرہی ہے اور کوئی دیر سے پکڑا جائے گا۔ کچھ لوگ مطلع ابر آلود دیکھ کر پہلے ہی نکل گئے تھے۔ وہ فائدے میں رہیں گے کیونکہ پاکستان کے جاری کردہ ریڈ وارنٹ پر بیرون ملک شاذو نادر ہی گرفتاری عمل میں آتی ہے۔ ماضی میںصرف دو گرفتاریاں ہوئی تھیں ایک امریکہ میں ایڈمرل منصور کو ریڈ وارنٹ پر گرفتار کر کے پاکستان لایا گیا تھا، دوسرا پنجاب بینک کا صدر امریکہ میں ہمارے ریڈ وارنٹ پر پکڑا گیا تھا ۔ اس نے خود رضاکارانہ طور پر پاکستان واپس آنے کی حامی بھر لی تھی وگرنہ وہاں کی حکومت گرفتاری کے باوجود اسکی کسٹڈی پاکستان کے حوالے نہیں کر رہی تھی ۔ UAEسے شاہ رخ جتوئی کی گرفتاری ماضی قریب میں ہوئی ہے اوراس سے قبل آرام باغ بینک برانچ کے منیجر کو اس وقت کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے گرفتار کر کے لائے تھے۔ اب منظور کاکا اور دوسرے لوگوں کے جن میں انور مجید اور ثاقب سومرو کے نام آ رہے ہیں کی گرفتاری کے لئے ریڈ وارنٹ جاری کئے جا رہے ہیں لیکن مجھے قوی امید ہے کہ یہ لوگ گرفتار نہیں ہوں گے۔ ماضی بعید میں کوئی بھی بھاگا ہوا شخص پاکستان کے جاری کردہ ریڈ وارنٹ پر واپس نہیں آیا۔ سب کے سب این آر او پر آئے تھے آتے ہی چھا گئے تھے ،بڑے بڑے عہدوں کی بندر بانٹ ہوئی تھی۔ اب پھر ان میں سے کچھ لوگوں نے اتنا کما لیا ہے کہ ان کے وارنٹ دوبارہ نکلنے کا امکان ہے۔ جنرل راحیل شریف کے دورہ کراچی کے بعد دہشت گردوں اور کرپٹ افسران کی گرفتاریوں میں زبردست تیزی آئی ہے۔ خبروں کا انبار لگ گیا ہے۔ دوسری طرف فوجی عدالتوں میں اضافے کی خبر بھی آئی ہے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے فوجی عدالتوں کی تعداد فوری طور پر بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ کر پشن کے بے شمار کیس مستقبل قریب میں پکڑے جانے ہیں۔ موجودہ سول عدالتیں ان مقدمات کو کم وقت میں نمٹانے کے لئے ناکافی ہیں۔ مزید یہ کہ فوجی عدالتوں میں مقدمات کی روزانہ سماعت سے مثبت نتائج جلد نکلنے کی توقع ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے ان بیانات میں کیا کرپشن صرف سندھ میں ہے اور پنجاب میں نہیں ہے، کافی وزن ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ نے کرپشن میں گزشتہ نصف صدی کے ریکارڈ توڑ دیئے ہیںاور ہر محکمے میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی کرپشن میں ملوث ہے۔ ایسے حالات 1988سے شروع ہوئے جو پھر بڑھتے ہی چلے گئے اور اب نوبت یہاں تک آ گئی کہ رینجرز کو گرفتاریاں کرنی پڑ رہی ہیں سیاست دانوں میں تو یقیناً کھلبلی مچ گئی ہے مگر عام بیورو کریٹ بھی پریشان ہے۔
میرا مشورہ ہے کہ بیورو کریٹس کو سیاست دانوں سے زیادہ کڑی سزائیں دی جائیں کیونکہ یہ ہی سیاست دانوں کو کرپشن میں ملوث کرتے ہیں۔ اگر بیورو کریٹ اسٹینڈ لے کہ میں غلط کام نہیں کروں گا تو کرپشن ہو ہی نہیں سکتی۔ مگر یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ کرپٹ افسران وزیروں کے گھر وں کے چکر لگاتے ہیں اور سفارشیں کرواتے ہیں کہ ہمیں اپنے ساتھ رکھ لیں اور یقین بھی دلاتے ہیں کہ آپ جو کہیں گے وہی ہو گا۔ بعض صورتوں میں ایڈوانس رقمیں بھی وزیروں کو دے آتے ہیں۔ اور تخمینے لگا کر انہیں زیادہ سے زیادہ کما کر دینے کی پیشکش کرتے ہیں جو کہ بعض اوقات پوری ہو جاتی ہیں۔ کرپشن تو پنجاب میں بھی ہے مگر سندھ دوسرے تمام صوبوں سے آگے ہے۔ پنجاب میں بھی کام ہوتا ہے جو کہ دکھائی دیتا ہے۔ بہرحال ’’اب بات چل نکلی ہے جانے کہاں تک پہنچے ‘‘ آصف زرداری صاحب کے حوالے سے بھی اخبارات میں بیان شائع ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پی پی کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے ۔یہ بیان تو کافی مضبوط ہے مگر اس میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی کہ زیادتی کہاں پر ہوئی ہے۔ ابھی تک تو جو بھی پکڑا جا رہا ہے وہ سیاست کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے۔ جیل کے اندر ’’ سیاسی‘‘ اور جیل کے باہر تین سو بیاسی۔ جیل میں سیاسی لبادہ اوڑھنے والے کرپٹ ملزمان بہت آرام اور سکون کی زندگی گزارتے ہیں انکی اپنی اپنی بیرکیں ہوتی ہیں۔اور جیل حکام اپنا کام آسان بنانے کے لئے انہیں مخصوص بیرکیں الاٹ کر دیتے ہیں جہاں دیواروں پر انہوں نے اپنے اپنے قائدین کی تصویریں آویزاں کی ہوئی ہیں۔ بیرکوں میں انہیںگھر سے زیادہ آرام ملتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ رینجرز جیل کے اندرونی معاملات کی بھی چھان بین کرے گی اور جیل کے اندر جو جرائم کی نرسری ہے اسکا بھی قلع قمع کرے گی۔
اس ہفتے کی دوسری بڑی خبر عمران خان کی حلقہ154سے کامیابی کی ہے، نتائج آنے سے پہلے ہی ڈھول کی تھاپ پر کارکنوں کے نعروں نے ایک سماں باندھ دیا تھا۔پارٹی لیڈروں اور کارکنوں کو مثبت نتیجے کی توقع تھی جو بالآخر آ گیا۔ اس سے پہلے ضمنی انتخابات میں میاں صاحب کی یکے بعد دیگرے کامیابیاں ان کی پارٹی کی پنجاب میں مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پارٹی سوچ میں پڑ گئی ہے کہ سپریم کورٹ میں اپیل داخل کریں یا انتخابات (ضمنی) میں حصہ لیں۔ یہ ایک مشکل فیصلہ ہے جو کہ پارٹی کی قیادت کو کرنا ہے۔ میرے خیال میں تو ضمنی انتخاب میں حصہ لے لیں یہ زیادہ آسان ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے جیتنے کے امکانات روشن ہیں ۔
سندھ میں گورنر راج کی افواہیں ایک مرتبہ پھر تیزی سے گردش کرنے لگی ہیں یہ افواہیں پہلے کئی مرتبہ پھیل کر دم توڑ چکی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ کوئی اس پر توجہ نہیں دے رہا۔ لوگ نیب کی کارروائیوں سے کافی خوش ہیں۔ پیپلز پارٹی ان کارروائیوں کو روکنا چاہتی ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ عنقریب اسکا دائرہ کافی وسیع ہونے والا ہے۔ اس ہفتے کے دوران مزید گرفتاریوں کی توقع ہے۔ آخر میں ناصر کاظمی کے اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
وہ دلنواز ہے لیکن نظر شناس نہیں
میرا علاج میرے چارہ گر کے پاس نہیں
مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو نہ مٹ جائے
بہت دنوں سے طبیعت میری اداس نہیں
تازہ ترین